میرے تین بچوں میں سب سے بڑی بیٹی عنیزہ فاطمہ ہے۔ جب وہ اس دنیا میں آئی تو مَیں نے جب اسے پہلی مرتبہ دیکھا، اسے اپنی گود میں لیا تو اتنے بہت سے برس گزرنے کے باوجود میری یادوں کے البم میں وہ لمحہ اب تک رکا ہوا ہے۔گلابی رنگت کی گڑیا جب امی جان نے مجھے مبارک باد دے کر میرے دونوں ہاتھوں میں دی تو اس وقت وہ سو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ دن گزرنے لگے۔ پہلے عنیزہ کو اس کی ماں نے تکیہ کے سہارے بیڈ پر بٹھانا شروع کیا۔ پھر ایک دن مجھے بتایا گیا کہ عنیزہ نے زمین پر رینگنا شروع کر دیا ہے۔ یونہی رینگتے اس نے چلنا شروع کیا۔ قانونِ فطرت ہے کہ بچہ جب چلنے کا آغاز کرتا ہے تو وہ بار بار گرتا ہے، چلتا ہے، روتا ہے، ہنستا، ڈرتا، رینگنے، چلنے، گرنے اور اٹھنے کے تمام مراحل کو والدین ایک طرف یہ سب کچھ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں تو دوسری طرف اس کو ہر لمحہ یہ احساس دلاتے ہیں کہ چلنے، پھرنے، گرنے اور اٹھنے کے مراحل میں اس کے پسِ پردہ ایک ایسی قوت ہر وقت موجود ہوتی ہے جو دُعاؤ ں کے سلسلے کو ٹوٹنے نہیں دیتی۔
عنیزہ میری بیٹی دادا جان کے گھر کی سب سے بڑی پوتی جبکہ نانا جان کے گھر کی سب سے بڑی نواسی ہے۔ اس کے سکول جانے کا مرحلہ شروع ہوا تو ننھی منی پری کو صبح سویرے اٹھنا بہت برا لگتا تھا۔ سکول کے ابتدائی دنوں میں جب صبح سویرے روتی تو میرے ابوجان ایک دن کہنے لگے کہ اتنی بھی کیا جلدی تھی عنیزہ کو سکول داخل کرانے کی۔ ابھی وہ چھوٹی ہے۔ ابوجان کی اس بات کے بعد مَیں بھی ان کا ہم نوا ہو جاتا تو ایسے میں عنیزہ کی ماں میدان میں آ کر ہمارے تمام خیالات کو ملیامیٹ کرتی اور کہتی بس بس زیادہ لاڈ پیار بچوں کو بگاڑ دیتا ہے۔ اس لیے عنیزہ کے سکول جانے کے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
عنیزہ روزانہ سکول کے گیٹ پر جب اترتی تو وہ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی کہ شاید سکول سے چھٹی مل جائے لیکن مَیں تو اسے روز سکول چھوڑنے جاتا تھا۔ اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھ کہ اس کی التجائی نظروں کو پذیرائی مل سکے۔
وقت گزرتا رہا، عنیزہ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر کے ایک دن کہنے لگی پاپا جان مَیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور یا فیصل آباد جانا چاہتی ہوں۔ مَیں نے لاہور اور فیصل آباد کا نام سنتے ہی کہا بیٹا آپ کو شادی سے پہلے ہی اپنے آپ سے دور کر دوں۔ اس لیے میری طرف سے معذرت قبول کرو۔ یہی رائے میری بیگم کی بھی ٹھہری۔ اس نے بھی کہا بہت پڑھ لیا اب ذرا گھرداری کی طرف بھی آ جاؤ ۔ عنیزہ کا یہ سب کچھ سننا تھا کہ اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے کہ وہ گھرداری کی بجائے ابھی مزید پڑھنا چاہتی تھی۔ آخرکار اس کی ماں جیت گئی اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور، فیصل آباد کی بجائے کچن کے کاموں میں مصروف کر دی گئی۔ آہستہ آہستہ اس نے جب سالن پکانا شروع کیا تو کبھی مرچ تیز، کبھی نمک کم، کبھی ذائقہ بھی سالن میں نہ ہوتا لیکن مَیں اس کی تعریف کرتا تاکہ وہ اگلی ہنڈیا اس سے بہتر پکائے۔ شروع میں جب اس نے روٹی بنانی شروع کی تو اس کے دونوں بھائی کہتے یہ روٹی نہیں دنیا کا نقشہ بناتی ہے۔ مَیں دنیا کے نقشے کی بھی تعریف کرتا تاکہ وہ آہستہ آہستہ دنیا کو گول کرتی۔ پھر وہی ہوا کہ اس کی ماں کی چند ہفتوں کی محنت سے وہ اچھی ہنڈیا اور گول روٹی بنانے لگی۔ جب پڑھائی اور گھرداری میں مہارت حاصل ہوتی تو سب والدین کی طرح ہمیں بھی اس کا گھر بسانے کی فکر دلگیر ہوئی۔میرا عنیزہ کی شادی کے بارے میں وہی موقف تھا کہ اس کا رشتہ ملتان میں کیا جائے گا۔ اگر ملتان میں کوئی مناسب رشتہ نہ ہوا تو پھر اگلا مرحلہ ملتان سے باہر کسی شہر کا ہو گا۔ البتہ بیرون ملک رہنے والوں کو زیرِ غور ہی نہیں کیا جائے گا۔ رشتہ دیکھتے دیکھتے بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوتی تو اس کے لیے نظر انتخاب ایسے نوجوان کا ہوا جس کا تعلق کو ملتان سے تھالیکن وہ پڑھنے کے لیے بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ ہونے والے داماد حمزہ حسن کے والدین سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ حمزہ حسن تعلیم کے بعد بھی وہیں رہے گا۔ مَیں نے یہ سوچ کر اس رشتہ کے لیے ہاں کر دی کہ حمزہ اور عنیزہ کے لیے اﷲ تعالیٰ نے بہتر سوچ رکھا ہے۔ سو وہ شاکر جو اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے ملتان یا پاکستان میں رشتہ دیکھ رہا تھا اﷲ تعالیٰ نے دیارِ غیر سے ایک ایسا وسیلہ بنا دیا جس پر پورے خاندان نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔ عنیزہ کی شادی ہوئی اور شادی کے کچھ عرصے بعد وہ بیرون ملک چلی گئی۔
ابھی اسے پاکستان سے گئے ڈیڑھ برس ہوا تھا کہ ایک دن مَیں صبح اٹھا تو مجھے اٹھتے ہی اس کی بے تحاشا یاد آنے لگی۔ حالانکہ مَیں روز رات کو سونے سے پہلے اس سے بات کرتا ہوں۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے بیگم نے پوچھا کس کی یاد صبح سویرے آنکھوں کو نم کیا جا رہا ہے؟ مَیں نے عنیزہ کا نام لیا تو کہنے لگی اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ ہمیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اپنے گھر کو سنبھال کے بیٹھی ہے۔ باہر کے ماحول میں ایڈجسٹ ہو گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ایک دن مَیں نے پوچھا عنیزہ بیٹھا آپ سکول ( زبان سیکھنے والا) کس کے ساتھ جاتی ہو تو کہنے لگی اکثر حمزہ دفتر جاتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن مَیں اکیلی بھی آتی جاتی ہوں۔ مَیں نے یہ بات سنتے ہی کہا کیا مطلب تم اپنے ملک میں اکیلی گھومتی پھرتی ہو، تمہیں خوف نہیں آتا؟ کہنے لگی پاپا جان آپ کو معلوم نہیں یہاں کا ماحول کتنا شاندار ہے۔ یہاں تو لوگ جانور سے بہت محبت کرتے ہیں۔ انسان تو ان کے لیے بہت قیمتی ہیں۔ عورتوں بوڑھوں اور بچوں کی بہت قدر کرتے ہیں۔ یہاں پر اگر اکیلی عورت رات کو کسی کام سے باہر جائے تو اسے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ عنیزہ یہ سب کچھ جب بتا رہی تھی تو میرے ذہن میں اس کی پیدائش سے لے کر شادی تک کی فلم چل رہی تھی کبھی وہ اپنے تایا جان مظاہر کے ساتھ سکول جاتی، تو کبھی مَیں اسے سکول سے چھٹی پر لینے جاتا۔ بڑی کلاس میں گئی تو رکشے میں جانے لگی تو رکشے میں اس کی تین چار کلاس فیلوز بھی ہوتی تھیں۔ سکول سے کالج جب گئی تو یہ ڈیوٹی مَیں نے موٹر سائیکل پر نبھائی۔ پورے تعلیمی کیرئیر میں وہ کبھی اکیلی سکول، کالج اور یونیورسٹی نہیں گئی کہ مجھے معلوم تھا کہ پاکستان کے معاشرے میں اکیلی لڑکی، عورت کا نظروں سے جو پوسٹ مارٹم کرتے ہیں وہ ناقابل فہم و ناقابلِ برداشت ہے۔ بازار جانے کے لیے وہ اپنی ماں کے ساتھ دکھائی دیتی۔ قصہ مختصر وہ عنیزہ بیٹی جس نے میرے شہر ملتان کی کوئی سڑک، کوئی محلہ اکیلے نہیں دیکھا تھا وہ باہر جا کر اکیلی بازار میں خریداری کرتی ہے۔ اکیلی سکول جاتی اور واپس آتی ہے۔گھر میں بھی اکیلی سارا دن گزارتی ہے۔ ایک دن مَیں نے پوچھا کہ بیٹا پاکستان اوربیرون پاکستان میں کیا فرق ہے؟ کہنے لگی بہت فرق ہے۔ مذہب کا بہت فرق ہے نہ مساجد نہ مدارس نہ مذہب کے نام پر کسی کو قتل کرنے کا خوف۔ ہر شخص کو مذہبی آزادی ہے۔ جتنے پناہ گزین مسلمان ہمارے ملک میں رہتے ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ہوں۔ ان سب کو حکومت نے وہی حقوق دے رکھے ہیں جو انہوں نے اپنے شہریوں کو دیئے ہوئے ہیں۔ مَیں یہ سب سن کر ہمیشہ خوش ہوتا ہوں کہ میری بیٹی ایک ایسے ملک میں رہتی ہے جہاں پر اسے گھور کے دیکھنے والے نہیں ہیں۔ انسان کی قدر کرنے والے معاشرے میں وہ رہتی ہے جو بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ جانوروں کو بھی وہ مرنے نہیں دیتے۔ ایسے میں گزشتہ ہفتے جب لاہور کے نزدیک قصور میں زینب کا قتل ہوا تو مَیں نے دانستہ دو تین دن تک عنیزہ بیٹی سے بات نہ کی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھ سے پوچھے گی پاپا جان زینب کو کیوں قتل کیا گیا؟ اور پھر کئی دنوں بعد مَیں نے اسے ایک رات فون کیا تو اس نے اپنی خیریت بتاتے ہی مجھ سے ایک سوال کیا:
پاپا جان زینب کو کیوں قتل کیا گیا؟
مَیں اس سوال سے ڈر رہا تھا کہ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا اور آخر عنیزہ فاطمہ نے مجھے لاجواب کر نے کے لیے پوچھ ہی لیا اور مَیں بھی اس معاشرے کا حصہ ہوں جہاں قتل کرنے والوں کو پہلے پولیس پیسے لے کر چھوڑ دیتی ہے۔ اگر قاتل گرفتار ہو جائے تو عدالت بری کر دیتی ہے۔ اگر عدالت سزا سنا دے تو صدرِ پاکستان قاتلوں کو معاف کر دیتے ہیں ایسے میں عنیزہ کے سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ سوری بیٹا آپ کا باپ آپ کے سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے
کچھ انتظار کرو۔۔۔۔! اور یہ انتظار کتنا ہے اس کی مدت میں نہیں بتا سکتا ؟
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ