معاشیات کا با قاعدہ طالب علم ہونے کے باوجود میں اسے سادہ لفظوں میں یہ نہ سمجھا سکا کہ inflation کس بد بلا کا نام ہے۔یہ عام صارف کی زندگی پر براہ راست کس طرح منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔آبادی اور وسائل میں تناسب کیا ہوتا ہے۔طلب بڑھنے کے باوجود مارکیٹ میں اشیا کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے بڑھ کیوں جاتی ہیں۔جو چیزیں کبھی بھی ہماری ضرورت نہیں تھیں وہ ہماری زندگی کا لازمی حصہ کیوں کر بن جاتی ہیں؟اس نے چولھے کے بالکل قریب آکر انگاروں پر ایک پھونک ماری تو کیکر کی گیلی لکڑیوں اور اوپلوں کا دھواں یک بارگی کچی کوٹھڑی میں بھر گیا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔اس نے تسبیح کو چوم کر باری باری اپنی دونوں بے نور ہوتی آنکھوں پر لگایا اور کہنے لگی:”باقی باتیں چھوڑ! تو یہ بتا بادشاہ کیا کر رہے ہیں؟“میری نظروں نے اس کے چہرے کی سیکڑوں مقدس جھریوں کے عقیدت بھرے بوسے لیے اور میں نے مصنوعی غصے سے کہا:”دادی اب بادشاہ نہیں ہوتے۔اب صدر اور وزیر اعظم ہوتے ہیں“۔اسے جیسے میری کم عقلی پر غصہ آ گیا ہو۔کہنے لگی:”نام کچھ بھی دے لو۔ہوتے تو بادشاہ ہی ہیں ناں“۔اس کا اقتصادی سرو کار محض آٹے،چینی،گھی،دال اور مٹی کے تیل کی قیمتوں اور خاندان کے چند معمولی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے تھا۔ملک کی اقتصادی پالیسیوں،تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاﺅ،عالمی صور ت حال،ٹیکس کے اصولوں اور فری مارکیٹ اکانومی کی اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔
بیس برس کے بعد میں صدیوں کا سفر کر کے لوٹا تو جو جس جگہ پہ تھا وہاں پر نہیں رہا تھا۔مٹی کی خوشبو تھی،نہ وہ کچی کوٹھڑی،نہ اوپلوں کا دھواں تھا اور نہ ہی اس کے چہرے کی مقدس جھریاں۔اب اس کے معاشیاتی سوالوں کے میرے پاس شافی جواب تھے لیکن یہ دو سوال اپنی جگہ اسی طرح برقرار تھے کہ بادشاہ کیا کر رہے ہیں؟اور نام کچھ بھی دے لو ہوتے تو بادشاہ ہی ہیں ناں؟میں نے فلسفہ،تاریخ ،معاشیات اور ادب کی کتابیں ہاتھ میں کچی پنسل لے کر پڑھی تھیں اور یہ باتیں لوک دانش کی باتیں تھیں۔لوک دانش ڈگریوں کی محتاج نہیں ہوا کرتی۔یہ محنت،لگن،خلوص،جذبوں کی سچائی اور زندگی کی پیچ در پیچ گتھیوں کو برس ہا برس سلجھانے سے حاصل ہوتی ہے۔ان دو جملوں کی معنویت مجھ پر بہت دیر سے آشکار ہوئی تھی ۔اب میں اسے کیسے بتاتا کہ بادشاہ کیا کر رہے ہیں؟بادشاہ ہر آٹھویں روز ایک نئی بساط بچھاتے ہیں،ان کے گھوڑے اور پیادے مخالف کی ہر چال کو مات دے کر بساط الٹ دیتے ہیں۔بادشاہ دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں اور ڈھٹائی کے ساتھ اس پر قائم رہتے ہیں کہ ان کے بولے ہوئے جھوٹ سچ ثابت ہونے لگتے ہیں۔جہاں حاکم اور عام آدمی کے درمیان میلوں کے فاصلے اور مغایرت ہو وہاں حاکم کونام کچھ بھی دے لیں وہ بادشاہ ہی رہتا ہے۔ہم خزاں نصیب معاشروں میں چہرے بدلتے ہیں بادشاہ وہی رہتے ہیں۔۔جمہوریت کی گھات ہو یا آمریت کا عفریت،کیپٹلزم کا جبر ہو کہ سوشلزم کا رومانس،اشتراکیت کا خواب یا صارفی معاشرت اور فری مارکیٹ اکانومی کے ہتھکنڈے۔سب بادشاہت کے مکھوٹے ہیں۔آٹا،چینی،گھی،دال، سبزی اور تنخواہوں میں اضافے کی باتیں چھوٹے لوگوں کی چھوٹی باتیں ہیں۔بادشاہ بڑے لوگ ہوتے ہیں اور بڑی باتیں سوچتے ہیں۔بادشاہ ”جرنیلی سڑکوں“کا سوچتے ہیں اور خواب بیچتے ہیں۔دوربین لگانے والے ماضی و استقبال کے، دو سو سال پہلی والی آہٹیں پھر سے سنتے ہیں لیکن بادشاہ ان کی بکواسیات پر کان دھرنا گوارا نہیں کرتے۔ پچاس ہزار لوگ بے قصور مر جاتے ہیں توبادشاہ خواب سے جاگتے ہیں اورامن کی خاطر پلان بناتے ہیں۔اس کے بیس نکتوں کا اعلامیہ پڑھ کر سناتے ہیں اور صرف پہلے نکتے کی کامیابی کا جشن مناتے ہیں اور باقی ا نیس نکتے بھول جاتے ہیں۔آئے روز نجانے کتنی بے بس،مجبور اور لاچار ”ناہیدیں“مدد کے لیے فون پر ”محمد بن قاسموں“ کو پکارتی ہیں لیکن بادشاہ ان سے بے خبر رہتے ہیں چوکوں،چوراہوں اور گلیوں ،بازاروں میں گلے کاٹنے والے اشتہار لگاتے ہیں اور بادشاہ ان کے سربراہوں کے ساتھ بیٹھ کر داد عیش دیتے ہیں۔بادشاہ جلسے،جلوس اوردھرنے کرتے ہیں اور جوشِ خطابت میں مائیک توڑ دیتے ہیں۔یہ مذہب،جمہوریت،قومیت اور حب الوطنی کے نام پر تماشہ کرتے ہیں،ڈگڈی بجاتے ہیں ،ڈگڈی کی تال پرسب ناچتے ہیں۔زاہدانِ شہر بھی اور صاحبانِ علم و دانش بھی۔ چیتھڑوں میں ملبوس،بھوکے ننگے تماشائی بتیسیاں نکال کر اپنے رستے ہوئے ہاتھوں سے تالیاں بجاتے ہیں اور بجاتے بجاتے خواب اوڑھ کر سو جاتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ