’پاکستان میں غالب شناسی‘ راجن پور کے ڈاکٹر شکیل پتافی کے تحقیقی مقالے کی کتابی صورت ہے جسے بیکن بکس ملتان نے زیور طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ 840 صفحات پر مشتمل یہ کتاب صوری اور معنوی اعتبار سے ایک اعلیٰ معیار رکھتی ہے، محقق نے اس کا ابتدائیہ غالب کے ایک مصرعے ’کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے‘ کے عنوان سے لکھا ہے جس میں انہوں نے اس موضوع کے انتخاب کے محرکات اور اس میں پیش کردہ مواد کی جامعیت اور تحقیق و ترتیب پر روشنی ڈالی ہے۔ موضوع کے حوالے سے محقق کا کام ملک بھر میں غالب پر کئے جانے والے کام کو یکجا کرنا اور اس کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لینا تھا چنانچہ انہوں نے قیام پاکستان سے 2005ء تک غالب پر جو لکھا گیا اس کی درجہ بندی اور تنقید کے لئے کمر کس لی، اپنے مقالے کی تکمیل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے بعد اسے کتابی صورت میں شائع کرنے کے لئے مزید محنت یہ کی کہ 2013ء تک کے تحقیقی و تنقیدی سرمائے کو بھی اپنی قلمی کاوش میں شامل کرلیا یوں یہ کتاب قیام پاکستان سے لے کر 2013ء تک غالب پر کئے جانے والے کام کے وقیع اثاثے پر مشتمل ہے۔
کتاب کے چھ باب ہیں، پہلے باب میں غالب کے عہد سے قیام پاکستان تک غالب شناسی کی روایت کا اجمالی جائزہ ہے’ترتیب و تدوین‘ کے نام سے دوسرے باب میں اردو اور فارسی زبان میں تصانیف غالب کی پاکستانی اشاعتوں کا جائزہ لیا گیا ہے،’تحقیق و تنقید‘ کے عنوان سے تیسرے باب میں غالب پر لکھی گئی تحقیقی اور پھر تنقیدی کتابوں کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، ’ترجمہ و تشریح ‘ کے نام سے چوتھا باب دو حصوں پرمشتمل ہے۔ ترجمے میں تصانیف غالب کے جزوی اور کلی منظوم و منثور تراجم کا جائزہ ہے اور دوسرے حصے میں اردو اور فارسی میں کلام غالب کی شرحوں کی تنقید ہے’’متفرقات‘‘ کے نام سے پانچویں باب میں پندرہ عنوانات سے غالبیاتی سرمائے پر جائزہ ہے۔ آخری باب’ پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل ‘ میں اردو زبان و ادب پر غالب کے اثرات کا جائزہ اور غالب شناسی کی روایت کو فروغ دینے کے لئے چند تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر شکیل پتافی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے ودیعت ہوئی اور ان کے گائیڈ پروفیسر ڈاکٹر محمد فخرالحق نوری تھے۔ انہوں نے اپنی کاوش کو اپنی دو بیگمات اور تین بچوں کے نام منسوب کیا ہے۔
فیس بک کمینٹ