برسات کا موسم زوروں پر تھا ۔ راتیں ٹھنڈ کا احساس دلاتی تھیں ۔ دن میں حبس چین نہیں لینے دیتا تھا ۔بھادوں اور ساون کے ملاپ کی صبح سے صرف وہی لوگ لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو ان موسموں کے علاقوں میں رہتے ہیں ۔ میں علیٰ الصبح اٹھا ، دو فرض ادا کئے ۔ نورِ سحر سے لطف اندوز ہونے کیلئے گاؤں کو جانے والی تارکول کی چوڑی سڑک پر نکل کھڑا ہوا۔ پرندوں کے غول کے غول مشرق کی طرف اڑان بھر رہے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ئے دل بہار چل رہی تھی ۔ کبھی پرندوں کو دیکھ کر احساسِ مسرت جسم و جاں کا حصہ بن کر مست کر دیتاتو کبھی زمین کی خوشبو مختلف پودوں کی مہک مل کر ایک دلنشیں سماں باندھ دیتی ۔ میں سیر سے گھر پلٹا، بچے سکول جانے کی تیاریوں میں انگڑائیاں لے رہے تھے ۔ اُدھر کچن میں ناشتے تیار ہو رہے تھے ۔ چائے اُبل رہی تھی ۔ میں نے کپ اٹھایا ،چائے لی اور صحن میں آ کر بیٹھا ہی تھا کہ اخبار صحن میں آ گیا۔ میں نے چائے رکھی اخبار اٹھایا ۔ پھر شانِ بے نیازی سے میز پر ٹانگیں پھیلا کر کرسی پر لیٹ گیا ۔ میں نے چائے کا کپ ختم کیا لیکن اخبار کے اندرونی صفحات دیکھنے کی مہلت ہی نہ ملی ۔ بچے تیار ہو کر گیٹ پر آ پہنچے۔ اُدھر ویگن ہارن بجاتی ہوئی آئی، بچے اس میں بستوں سمیت جا بیٹھے ۔میں نے گیٹ بند کیا ، کمرے میں چلا آیا۔ موبائل اٹھایا ، کمرے میں بیٹھ گیا ۔ صبح بخیر کے پیغامات اور نیک خواہشات کے پیغامات ان باکس میں دیکھنے لگا۔ کافی تعداد میں پیغامات آئے ہوئے تھے ۔ پیغامات ختم کئے تو جواب دینے کیلئے ایس ایم ایس کر رہا تھا کہ دروازہ زور زور سے پیٹتی ہوئی ، چیختی ہوئی ، چلاتی ہوئی میری بیوی کمرے میں گھس آئی ۔ اس کا سانس چڑھا ہوا تھا ، خوفزدہ تھی ۔ میں نے توجہ کی تو کہہ رہی تھی کہ سن رہے ہو ، سورج کو آگ لگ گئی ہے ۔ میں نے موبائل ایک طرف رکھا اور سوچا کہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ بولی سنو!باہر جا کر دیکھو سورج کو آگ لگ گئی ہے۔ میں یہ سوچتے ہوئے کرسی سے اٹھا کہ اس کا کہیں دماغ تو نہیں چل گیا لیکن اس نے میرا بازو زور سے تھاما اور گھسیٹتی ہوئی باہر لے گئی اور کہا دیکھو ۔
میں ابھی کمرے سے باہر نکل ہی رہا تھا کہ مختلف لوگوں کا شور سنائی دیا ۔ میں نے باہر صحن میں جاکر دیکھا سورج تو تھا ہی نہیں ۔ آسمان کا ایک وسیع و عریض حصہ شعلوں کی لپیٹ میں تھا ۔ لوگ انگشت بہ دنداں تھے ، جس کے منہ میں جو آ رہا تھا بول رہا تھا ۔ اسی اثناء میں ہارن بجاتی ویگنیں ، کاریں ، بائیکس بھاگتی پھرتی تھیں ۔ لوگ کھلی سڑکوں پر جمع تھے ۔ ایک ویگن میرے دروازے پر آ رُکی ۔ میرے بچے خوش تھے اور بولے کہ ابو چھٹی کر دی گئی ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ یہ قیامت ڈھانے والی چھٹی ہے۔ میں نے بھاگ کر ٹی وی پر نیوز چینل لگایا تو سی این این کی نیوز کاسٹر پھولی سانسوں کے ساتھ کہہ رہی تھی کہ مشرق سے اطلاعات آ رہی ہیں کہ سورج پھٹ گیا ہے۔ سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں ۔ یہ مشرق کی اطلاعات ہیں چونکہ اس وقت یورپ میں رات تھی اور مشرق میں طلوعِ آفتاب کا سماں تھا۔ سورج کے پھٹنے کی اطلاعات نے پورے مشرق و مغرب کو ہلا کر رکھ دیا ۔ا سی اثناء میں بجلی چلی گئی ۔ تاریکی کی گہری ہوتی دبیز تہیں آگے بڑھتی ہوئی روشنی کو نگل رہی تھیں ۔ میرے بیوی بچے چیخ رہے تھے ۔ ہر چیز گھٹاٹوپ اندھیرے میں ڈوب رہی ہے۔ میں اندازے سے چلتا ہوا باہر نکلاتو سڑک پر ہجوم تھا ، یہی آوازیں آ رہی تھیں کہ آگے پیچھے مت ہونا ، زمین بیٹھ رہی ہے ، پانی خشک ہو چکا ہے ، دو اڑھائی سو افراد کا ہجوم زمین کے دھنسنے میں غرق ہو چکا ہے، میں خوفزدہ ہو کر گھر پہنچا ۔ گاڑی سٹارٹ کرنے کیلئے چابی تلاش کی لیکن اندھیرے میں کچھ ہاتھ نہ آیا۔ مشکل سے کچن میں پہنچا اور ہاتھ سے ماچس تلاش کی لیکن ماچس گیلی ہو چکی تھی ۔ گیس کے پائپ لائن کے پھٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ لائٹر اور ٹارچ سے کام لینا چاہا لیکن وہ بھی جواب دے چکے تھے ۔ یہی اطلاع عام تھی کہ سورج پھٹ چکا ہے ۔ اس کی آگ نے کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ میں صحن میں جمع چیختے چلاتے بچوں کے پاس پہنچا۔ وہ سہمے ہوئے ماں کی گود میں چپکے ہوئے تھے ۔ ان کی ماں خود خوف کی تصویر بن چکی تھی ۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا لیکن اندھیرا تھا البتہ کبھی کبھی کوئی ستارہ ، سیارہ گائیڈڈ میزائل کی طرح سامنے جاتا تو پھر ایک روشنی کی لہر نمودار ہوتی اور دھماکا ہوتا۔ پھر آسمان پر چنگاریوں کی بارش نظر آتی ۔ کافی دیر یہ تماشہ لگا رہا ، پھر وہ بھی بند ہو گیا ۔ اندھیرا تو تھا ہی ، اس کے ساتھ یہ مصیبت بھی نازل ہو گئی حبس اور گرمی کا احساس جاتا رہا ۔ بتدریج درجہ حرات گرتا گیا ، یہاں تک کہ چیزیں جمنے لگیں اور بچے کانپنے لگے۔ میں تنہا کیا کرتا ۔ پوری کی پوری کالونی اسی عذاب میں گھری ہوئی تھی ۔ لوگوں کی اذانوں کی مدھم آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں ۔ تلاوتِ کلامِ پاک ہو رہے تھے ، کلمہ طیبہ کا ورد ہو رہا تھا ۔ افراتفری اور نفسانفسی کا یہ عالم تھا کہ نہ ماں کو بیٹی کا علم تھا اور نہ بیٹے کو باپ کا ۔ گھپ اندھیرا تھا ، ہاتھ کو ہاتھ کیا سجھائی دیتا ، عام حالات میں نابینا کو بھی کچھ نہ کچھ دکھائی دیتا ہو گا لیکن یہاں بینا لوگ بھی نابیناؤں سے ابتر حالت میں تھے ۔ جنہیں نہ مشرق کا علم تھا اور نہ مغرب کی سمت کا ۔ انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ گھر سے باہر نکلنے کا دروازہ کہاں ہے اور گھر میں اندر داخل ہونے کی راہداری کس سمت میں ہے۔ سمتیں اپنا وجود کھو چکی تھیں ۔ مکمل اندھیرا پوری کی پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا ۔ سب کچھ تیزی سے ختم ہو رہا تھا ، فون بند ہو چکے تھے ۔ پھر مدہم آوازوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ کچھ لوگ اطمینان میں ہیں اور اللہ کی رضا پر راضی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو ہونا ہی تھا ۔لیکن کوئی بھی ان کی آواز پر توجہ نہیں دے رہا تھا ۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں بھاگیں ، کہاں جائیں، وہ اپنے اپنے جسموں میں قید ہو کر رہ گئے ۔ بچے ماں باپ کو پکار رہے تھے ، مجھے بیٹی اور بیٹے نے یک زبان ہو کر پکارا ۔ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو مدد کیلئے آواز دی ، ایک بار نہیں بلکہ بار بار آوازیں دیں ۔ دل کو تو سکون ملا ، مدد ملی یا نہیں البتہ یہی سمجھ آتا ہے کہ سکونِ قلب ہی مدد کی ایک شافعی شکل تھی ۔ میرے بچے ، بیوی بھی گھٹن اور ٹھنڈ کی شکایت کر رہے تھے ۔ باہر کالونی میں بھی لوگ لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے لیکن لگتا تھا کہ فضا میں آکسیجن ختم ہو رہی ہے ۔ میں خود بھی گھٹن کا شکار ہو رہا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ میری بیٹی کی آواز سنائی دی ابو پا ۔۔۔۔ غالباً وہ پانی مانگ رہے تھے لیکن پانی پہلے ہی خشک ہو چکے تھے ۔ میں کسی کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ اس دوران یہ یاد آیا کہ آزاد دنیا میں جب میں کچھ سلامت تھا کہا جاتا تھا کہ دنیا میں ماں باپ ہی بچوں کے نیم خدا ہوتے ہیں لیکن آج اپنی بے بسی دیکھ کر مجھے لگا کہ یہ سب جھوٹ اور دھوکہ تھا ۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میرے سر پر ایک بھاری چیز آ کر گری ، میں نے ہاتھ سے ٹٹولا تو وہ ایک پرندہ تھا ۔ میں سوچ میں پڑ گیا ابھی تو دن کے سات آٹھ بجے تھے ،یہ کیا ہو گیا پرندے بھی اڑان کے دوران نیچے گر رہے ہیں ۔ زمینیں اپنے نئے راستے تلاش کرنے پر نکل کھڑی ہیں ۔ صدیوں کا سفر وقت نے لمحوں میں طے کر لیا ہے ۔ اسی دوران میری بیوی کی آواز آئی سنو! پا ۔۔۔ غالباً وہ بھی پانی کا کہہ رہی تھی ۔ میں نے ٹٹولا تولگا کہ وہ دم توڑ چکی تھی ۔ میں آواز کی سمت میں دوڑا ، بچوں کو ٹٹولا تو وہ ساکت پڑے تھے ۔ میری آنکھیں بھیگ گئیں اور آنسو وہیں جم گئے۔ اس کے بعد کچھ نہیں ملا ۔ اس دوران یہ آواز مجھے سنائی دی کہ ’’ سب کے سب نادان تھے ، تباہی کی صورت میں دوسرے ستاروں اور سیاروں میں کالونیاں بسانے کا پروگرام رکھتے تھے ۔ ان نادانوں کو نہیں علم تھا کہ یہ سب کائنات ایک ہی لمحے میں وجود میں آئی ۔ پوری کی پوری کائناتوں کی عمر ایک ہے ، نہ ایک لمحہ زیادہ اور نہ ایک لمحہ کم ۔ اب سب فناہی کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی میں نیم بے ہوش ہوا اور گر پڑا اور میرا دماغ تو کام کر ہی رہا تھا ، سوچتا رہا کہ کتنے ارب ہا سال بعد انسان زمین سے پیدا نہ ہو گا۔ کس طرح اس نے زندگی کی شروعات کیں ، کس طرح کس غرور ، تکبر میں انہوں نے زندگی کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ، انہی حالات میں نبی پیغمبر اتارے گئے ، اصلاح کیلئے کلامِ الٰہی نازل ہوا، کتنی صدیاں لگیں جاندار کو انسان بننے میں ، پھر کس طرح سمندر تشکیل پائے ، پہاڑ کھڑے کئے گئے ۔ پھر کتنے کھربوں برس بعد انسان نے ہوش سنبھالا ۔ جینا اور تحقیقات کرنا سیکھی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہاں اربوں سال پہلے بھی ایک زندہ اور ترقی یافتہ تہذیب تھی ،کس طرح برباد ہوئی ۔ایک نہیں ہر خطے میں کئی کئی تہذیبیں تھیں ۔ ارب ہا سال بعد ماہرین آثار جائزہ لیتے رہے ، جائزے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ سمندروں کی گہرائی میں رہائشی کالونیاں ہیں ، کھدائی کی تو پتہ چلا یہاں بھی ایک ترقی یافتہ تہذیب تھی ۔ انہوں نے پھر ان تہذیبوں کے نام رکھے ۔ کسی کو مایہ تہذیب بتایا اور کسی کو موہنجو دڑو کی تہذیب لیکن آنے والے زمانے کے بارے میں وہ بھی بے خبر رہے کہ کسی لمحے کیا ہو سکتا ہے ، کیا سے کیا بن سکتا ہے ۔ بس لازوال ذات، لمحہ اور اسم ہی باقی رہے گا۔ اپنے اپنے اعمال اور افعال کی سزا سب اپنے کندھوں پر لاد کر چلیں گے ۔ اسی دوران نئے سورج ، نئی زمینیں ، نئے چاند اور نئی کائناتیں وجود میں آ چکی ہونگی اور ایک نیا انسان گیلی اور چکنی مٹی سے اُٹھ کھڑا ہوگا ، بس یہی کہانی ہے انسان کی۔
فیس بک کمینٹ