اس مرتبہ ابھی نومبر تمام نہیں ہوا تھا کہ یار لوگوں نے سوشل میڈیا پر دھڑادھڑ دسمبر کے بارے میں پوسٹیں لگانا شروع کر دیں کہ اگر کسی نے ہمیں دسمبر کے بارے میں کوئی شاعری ٹیگ کی تو ہم اسے بلاک کر دیں گے کہ لوگوں کو دسمبر کے آتے ہی اس مہینے کی شاعری کا ایسا ایسا ہیضہ ہوتا ہے کہ الحفیظ و الامان۔ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ شاعری کی اتنی کرم نوازی دسمبر پر ہی کیوں۔ جون جولائی پر غصہ کیوں نہیں آتا۔ بہرحال یار لوگوں کی دھمکیوں کا یہ فائدہ ہوا کہ اس سال ابھی تک دسمبر کی شاعری نہ ہونے کے برابر پڑھنے کو مل رہی ہے۔ البتہ دسمبر کے آتے ہی اہلِ ادب کو عرش صدیقی کی مشہورِ زمانہ نظم یاد آ جاتی ہے جس کا عنوان ’اسے کہنا‘ ہے۔ دس مصرعوں پر مشتمل یہ نظم انہوں نے 1972ء میں کہی۔ اس کی مقبولیت دسمبر میں پورے جوبن پر ہوتی ہے کہ عرش صاحب جب تک زندہ رہے (تاریخ وفات 8؍اپریل 1997ء) خاص طور پر وہ دسمبر میں کسی مشاعرے میں شریک ہوتے تو شائقینِ ادب ان سے ’’اسے کہنا‘‘ کی لازمی فرمائش کرتے۔ عرش صاحب سے فرمائش تو ایک بہانہ ہوا کرتا تھا کہ اِدھر مائیک پر آ کر عرش صدیقی صرف پہلا مصرعہ پڑھتے ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘ ان کے دوسرے مصرع پڑھنے سے قبل ہی حاضرین کے لبوں پر یہ مصرع آ جاتا:
دسمبر کے گزرتے ہی برس اِک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
پھر اُس کے بعد نظم کچھ یوں مکمل ہوتی
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیوار میں لرزاں ہے
اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اُسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
عرش صاحب یہ نظم سناتے سناتے چلے گئے۔ دوست احباب انہیں دسمبر کے ساتھ ساتھ پورا سال یاد کرتے ہیں اور دبے لفظوں میں کہتے ہیں:
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
عرش صاحب نے نہ آنا ہوتا ہے نہ وہ آئیں گے البتہ دسمبر ہر سال آتا ہے۔ آنکھوں کو نم کرتا ہے۔ یادوں کے آنگن میں گزری ہوئی کہانیاں سناتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ دسمبر کتنا سفاک مہینہ ہے ۔ جنوری سے لے کر دسمبر تک یادوں کی گٹھڑی اپنے سر سے اترنے نہیں دیتا۔ دسمبر اتنا حوصلے والا مہینہ ہے کہ پورے سال کے دُکھ سُکھ اپنے مَن میں سموتا ہے۔ 31؍ دسمبر اپنے دن پورے کرنے کے بعد یکم جنوری کو پھر جنم لیتا ہے۔ نئی کہانیاں، نئے فسانے پرانے عشق میں انڈیلتا ہے۔ نئے روپ سروپ میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ہم جیسے سادہ لوح اپنے عشق کی داستان اس کے سامنے رکھتے ہیں۔ ہم اپنی کتھا سناتے ہیں۔ سردی، گرمی، بہار خزاں سب موسموں سے گزرنے کے بعد جب ہم دسمبر تک جاتے ہیں تو ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے دستک دیتا ہے۔
اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
کوئی خاموشی سے خودکلامی کرتے ہوئے کہتا ہے تو کوئی اپنے ساتھی سے کہتا ہے دسمبر آ گیا ہے اور تم ابھی تک مجھ سے دور ہو۔ دسمبر کی کہانی میں جدائی کا مرکزی کردار ہے۔ دسمبر کے دنوں میں موسم سرد لیکن جذبات گرم ہوتے ہیں۔ دسمبر کی راتیں لمبی، دن مختصر ہوتے ہیں لیکن زندگی کے دُکھ رات کو زیادہ اور زیادہ طویل بنا دیتے ہیں اسی لیے تو عرش صاحب نے کہا تھا:
دسمبر کے گزرتے ہی برس اِک اور ماضی کی گپھا میں ڈوب جائے گا
جی ہاں جب زندگی کا ایک سال صرف ایک تاریخ کے تبدیل ہوتے ہی ماضی کا حصہ بن جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں بھی دفن ہو جاتی ہیں جس میں ہمارے کچھ قہقہے، آنسو ایسے بھی ہوتے ہیں جو بڑی مشکل سے ہم حاصل کرتے ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ خوشیاں حاصل کرنے کے لیے ہم بڑی محنت کرتے ہیں یہ غم اور آنسو کے لیے کون تگ و دو کرتا ہے۔ زندگی کا حسن ہی اس میں ہے کہ خوشیوں کے ساتھ غم بھی زندگی کا احساس دلاتے ہیں یہی وجہ ہے زندگی میں جب جمود طاری ہوتا ہے تو حرکت بند ہو جاتی ہے یعنی سرد ہواؤں سے رگوں میں جب خون جمتا ہے تو ہرچیز پر برف کی چادر تن جاتی ہے۔ ایسے میں ہم اپنے محبوب کو آواز دیتے ہیں۔ سورج کو یاد کرتے ہیں جو اپنی گرمی سے زندگی میں واپس لاتے ہیں۔ برف آہستہ آہستہ پگھلتی ہے تو پھر اسے آواز دینے کو جی چاہتا ہے۔
لوٹ آؤ
کہ دسمبر آ گیا ہے
دسمبر آ کر چلا جاتا ہے۔ لیکن جانے والے پھر واپس نہیں آتے۔ اسی لیے ہم ماہ و سال کی گنتی میں اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں۔ کبھی ان کو آواز دیتے ہیں لیکن ہماری وہ آواز کہیں راستے میں کھو جاتی ہے اور ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔
دسمبر ہر سال آ کے چلا جاتا ہے لیکن ہر دسمبر پر ہمیں عرش صاحب بھی یاد آتے ہیں۔ جو نظم، غزل اور دوہا کہنے میں کمال رکھتے تھے انہوں نے ایک نظم اپنی نومولود بیٹی منزہ کے لیے کہی۔ وہ نظم انہوں نے اپنی بیٹی کی زندگی میں کہی جو ہر باپ کے ذہن میں رخصتی کے موقعہ پر ہوتی ہے۔ کچھ عرصے کے بعد منزہ کی وفات ہو جاتی ہے تو اس نظم کو ایک نئی معنویت مل جاتی ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ دُعائے نیم شبی کو دو مرتبہ پڑھیں۔ پہلی بار یہ سوچ کر مطالعہ کریں کہ یہ نظم ایک نومولود کے لیے کہی گئی۔ جب آپ دوسری بار یہ نظم دیکھیں تو یہ سوچ لیں کہ منزہ کا جب انتقال ہوتا ہے تو اس کی عمر سوا پانچ سال تھی۔
دُعائے نیم شبی
فضا چپ ہے اور نصف شب جا چکی ہے
مَیں اک فکرِ فردا لیے جاگتا ہوں
مری ننھی بچی منزہ، کہ جس کو
ابھی اس کی امّی بہت پیار کرتے ہوئے سو گئی ہے
مجھے، میرے ماضی کی قندیل لے کر
کسی آنے والے زمانے کی تصویر دکھلا رہی ہے!
مجھے یاد ہے اِک برس اس کے آنے سے پہلے
مجھے اس کی امّی سے کوئی تعلق کوئی واسطہ تک نہیں تھا
مَیں اس کے لیے غیر تھا، اجنبی تھا
مگر ایک سیّال لمحے نے اُس کو
اس اجنبی کی، اسی غیر کی ہر خوشی کا خدا کر دیا تھا
مَیں اِک اجنبی دُور سے آنے والا
وہ اِک دوسرے شہر کی رہنے والی
نہ مَیں نے اسے تپتے صحرا میں ڈھونڈا
نہ اس نے مجھے میٹھے سپنوں میں دیکھا
مگر ہم نے اک دوسرے کی نظر میں
سکون و محبت کا وہ راز پایا
کہ ہم اپنے بختِ رسا پر ہیں نازاں!
مری ننھی بچی، منزہ، کہ جس کو
ابھی اس کی امی
بہت پیار کرتے ہوئے سو گئی ہے
مجھے، میرے ماضی کی قندیل لے کر
کسی آنے والے زمانے کی تصویر دکھلا رہی ہے
کہ ہو کر جواں جب
وہ امی کے حسنِ سکوں بخش کی یاد تازہ کرے گی
تو اِک اجنبی جانے کس شہر سے کون سے راستے سے
سجائے ہوئے اپنے ماتھے پہ تاروں کا سہرا
لیے ہاتھ میں تازہ پھولوں کا گجرا
مرے پاس آئے گا اپنے مقدر کا زور آزمانے
مَیں اس کی خوشی کے لیے زندگی کے اثاثے کو قرباں کروں گا
وہ ہنستا ہوا، مسکراتا ہوا، میری تسکینِ جان کو
مرے لختِ دل کو مرے مرکزِ آرزو کو
نہ جانے کہاں، کون سے دیس کی کونسی وادیوں میں مقید کرے گا
مَیں اس آنے والے زمانے کی تصویر ہر شب
دریچوں میں، کمروں میں، صحنوں میں سجتی ہوئی دیکھتا ہوں
اور اپنے خدا سے
(مِرا ہو کے مجھ سے جدا رہنے والے خدا سے)
فقط اِک دُعا ایک اتنی دُعا مانگتا ہوں
کہ اس اجنبی کا بھی میرا سا دل ہو!!
یہ نظم عرش صدیقی نے 1958ء میں کہی اور آج دسمبر 2016ء میں ان کی یہ دونوں نظمیں معنویت کے اعتبار سے کتنی مکمل ہیں۔ واقعی شاعر کو تخلیقی اظہار کا سکون سے موقعہ ملے تو وہ بڑا تخلیق کار ہو سکتا ہے جیسے عرش صدیقی اپنے عہد کے بڑے افسانہ نگار، نقاد اور شاعر تھے۔
فیس بک کمینٹ