کہانی کی تاریخ تو بہت قدیم ہے، اور تاریخ کے سفر میں کئی قصوں، کہانیوں نے زندگی کی متصادم اقدار کی تصویر کشی کی ہے اور اس ناطے کم و بیش پچاس برسوں پر محیط علی تنہا کے افسانوں کی رو میں، متلاطم، خفتہ، مناظر تک برملا رسائی جس کا ایک عنوان ”اُلٹے رُخ کا دریا“ بھی ہے، اور اس کی لہروں سے معنویت کی سمت نمائی کرنے کا مسافر علی تنہا خود بھی ایک استعارہ ہے، اس کی کہانیوں میں اپنے بدنصیب اور فریب گزیدہ معاشرے کی آویزش کی تصویریں ملتی ہیں جو پسماندہ زراعت کی غلام گردشوں سے نمو پانے والی صارفین کی بدلتی دنیا میں بے بسی کے کئی مناظر اور کرداروں کی گھومتی دنیا کے کئی سوالات روبرو لاتی ہیں، لیکن دریا تو کئی صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں سے الٹے رُخ بہہ رہا ہے؟
یاد آیا کہ عرصہ پہلے دنیا کی قدیم مختصر کہانیوں کے ایک انتخاب میں جو دو سو قبل مسیح کے ایک گمنام مصری مصنف کی کہانی بعنوان ”دوبھائی“ شائع ہوئی تھی اس کے کردار اینو اور باتا بھی تو ا لٹے رُخ کے دریا کے بہاؤ کے ا سیر تھے، علی تنہا کے ا فسانوں کے کردار بالعموم ایک بے ساختہ اسلوب سے معاصر پنجاب کی دھرتی کے نو آبادیاتی پس منظر میں رواں نظر آتے ہیں، جو دریا کے الٹے رُخ کے متصادم نیم آزردہ یا غصیلے مکالموں سے متوجہ کرتے ہیں، اور ان کے مکالموں سے تہ در تہ حیاتی میں معنویت کی تلاش میں بہتی ہوئی تصویریں کئی سوالات روبرو لاتی ہیں۔
علی تنہا صاحب کا تحقیقی کام ایک علیحدہ موضوع ہے انہوں نے کئی مشاہیر، معاصر اہل قلم کے خاکے بھی تحریر کئے اور ریڈیو کی طویل ملازمت کے دوران موسیقی کی دنیا کے کرداروں پر بھی اپنی تحریروں میں اظہار خیال کیا۔ ان کا افسانہ ”بدلے کا سفر“ موسیقی کی دنیا میں کلاسیکل روایت کی عمر بھر کی ریاضت کی بے بسی اور ابھرتے کمرشل جہان میں سرمائے سے سنگیت اور ملن کی ایک روداد ہے اور ظہور اے خان مہوش رانی موسیقی کی دنیا کی تہہ میں طبقاتی آویزش کی جھلکیاں ہیں، جو اُلٹے رُخ کے دریا سے بھی نظر آتی ہیں، پھر ”بٹا ہوا آدمی“ کی بزنس کی دنیا ہے۔ جس کی تہہ میں کچھ اور لوگ کس طرح سرگرم ہیں؟ افسانے کے کردار اس صورت حال کو روبرو لے آتے ہیں اور ”شیر دریا کی زبان“ میں راجا عبدالقیوم، غلام نبی شکری، منگو سنتری وغیرہ کے ناطے جیل کی کالی دیواروں میں اسیر رہنے والوں کی تصویری جھلکیاں اور اس کے کردار سردی میں ٹھٹھرتے آسمان پر دھند میں اپنی بے گناہی کا سرخ آسمان تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
علی تنہا کے افسانوں میں بعض مراحل پر بے ساختہ مناظر فطرت بھی متوجہ کرتے ہیں، جیسے ”چیلاں والی گلی“ کے آغاز میں ”ڈیڑھ برس کے سوکھے کے بعد سوموار کی دوپہر کو آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا“، اس منظر اور پانچ گھنٹے کی بارش کے بعد مولانا نور نواز کی بلیغ شخصیت سامنے آتی ہے، اور جب وسایا لنگڑا کیچڑ سے بھرا تسلا محض تفریح کے لئے نور نواز کے کپڑوں پر گراتا ہے تو اس کی مجروح شخصیت کہانی کو آگے بڑھانے کا جواز بنتی ہے، اور پھر نیل آباد میں خونی بلوے کی ایک تصویر سامنے آتی ہے۔
علی تنہا کے افسانوں کے کردار تاریخ کے دریا کے الٹے بہاؤ سے مزاحمت تو کرتے ہیں، لیکن بے سمتی کی پیدا کردہ لایعنیت کی تفہیم سے قاصر ہیں، اور اس صورتحال کو علی تنہا سادگی و علامت کے امتزاج سے روبرو لے آتے ہیں۔ نو آبادیاتی اقدار کے شکنجے میں بے سمت صارفین کو اپنی دنیا مدار سے ہٹتی نظر آتی ہے، احمد رئیس کو بائیں آنکھ مزید گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور دائیں آنکھ کھلنے سے انکار کر دیتی ہے اور پھر طبیب بھی بتاتا ہے کہ پورا شہر آشوب چشم میں مبتلا ہے اور خاموشی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ بندر سب کو تگنی کا ناچ نچانے لگتے ہیں
فیس بک کمینٹ