یوں تو خود آزاری میں مبتلا ہونے کے کئی اور بھی مروّجہ طریقے ہمیں معلوم ہیں مگر اسے بچوں کا پرزور اصرار سمجھیئے کہ ہم آج ملک میں جاری و ساری احتساب نامی خود فریبی پر لکھ رہے ہیں جِس نے آج کل پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
صاحبو، ایبڈو سے لیکر مولوی مشتاق تک، اٹھاون ٹو بی سے لے کر باسٹھ، تریسٹھ اور ننانوے تک اور حسن ناصر سے لے کر ذوالفقارعلی بھٹّو تک سورج کی کئی کرنیں احتساب کے کالے بادلوں میں گم ہوتی دیکھیں، مگر احتساب کہیں نظر نہیں آیا۔ سننے میں کانوں کو بھلا لگتا ہے جب کوئی غربت میں غرق ماؤں کا ذکر کرتا ہے یا ہمارے بچوں کو مفت تعلیم دینے کے حق کی بات کرتا ہے یا مفت علاج معالجے کے افسانے سناتا ہے یا ایک بہتر معاشرے کے قیام کے خواب دِکھاتا ہے۔ مگر صاحبو، اِس دل کا کیا کریں جو مان کر نہیں دیتا۔ شائد ایسا ہے کہ جب آنکھیں تجربات کے زہر میں دھل دھل کر سفید ہو جاتی ہیں تو خواب نہیں دیکھ پاتیں۔
آپ خود ہی ملاحظہ فرمایئے کہ حالیہ سابق وزیرِاعظم جو اپنی نیک نیتی کے سبب پہلے بھی دو مرتبہ سابق ہو چکے ہیں، اپنے خاندانی رئیس ہونے کا یہ ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے نجی صنعتوں کو قومی اثاثے بنانے کے لیئے ’نیشلائیزیشن‘ کی پالیسی اپنائی تو اس عمل میں شریف خاندان کی کئی صنعتیں قومیا لی گئیں۔ اس سے ان کا خاندانی رئیس ہونا ثابت ہو یا نہ ہو، کم از کم ایک بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نیشلائزیشن یعنی نجی اثاثوں کو قومی اثاثوں میں تبدیل کرنا ایک ایسا احتساب تھا جسے آنے والی نسلیں ابھی تک نہیں بھولیں۔ نہ اٹھاون ٹو بی کا ٹنٹا نہ صادق و امین کی جھِک جھِک۔ نیشنلائیزیشن پر مبنی اِس احتساب میں کوئی یہ نہیں کہہ سکا کہ اس عہد کی حکومت نے کسی سے ذاتی انتقام لیا۔
اس تناظر میں ایک پلے بوائے کی شہرت رکھنے والے کسی ایسے سیاسی لیڈر کی باتیں کیا اہمیت رکھتی ہیں جو خود بھی آئین کی مذکورہ شقوں پر تنقید کر چکا ہو اور آج جب اس کی بھینٹ اس کا ایک مخالف سرمایہ دار خاندان چڑھ گیا ہے تو وہ اسے اپنی سب سے بڑی سیاسی کامیابی بتلا رہا ہے! کیا صرف ایک شریف خاندان کی قربانی سے آف شور کمپنیاں بننا بند ہو جائیں گی؟ باقی کے شریف خاندان، جو ہر سرمایہ دار سیاسی جماعت میں موجود ہیں، ان کا احتساب کیا آئین کی ایسی ڈھِلمِل شقیں کر پائیں گی، جِن کا خمیر ہی سیاسی بد دیانتی سے اٹھایا گیا ہو؟
اگر سرمایہ دار اس فیصلے کے بعد ’سرمایہ داری‘ چھوڑ دیں تو ہم بھی اِس فیصلے کو تاریخی قرار دیں گے۔ مگر ہماری نظر میں تو یہ فیصلہ صرف مقتدر طبقات کی ہم پر حقِ حاکمیت کی لڑائی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ فرض کیجیئے کہ ہم اس کو ایک مقتدر ادارے کی دوسرے مقتدر ادارے کے ساتھ لوٹ کھسوٹ کی جنگ قرار دیتے ہیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے باسٹھ اور تریسٹھ وہ شقیں ہیں جِو جنرل ضیاالحق نے اپنے غیر آئینی احکامات کے ذریعے، محض اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیئے ڈالیں۔ اس عمل میں تو اس وقت شریف خاندان کی پارٹی بھی ضیاءالحق کے ساتھ شامِل تھی۔ اس وقت شریفین بغلیں بجا رہے تھے اور ان کے کچھ سیاسی مخالفین ان کے بغلیں جھانکے کی نوید سنایا کرتے تھے۔
کیا اس بات سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے جب اٹھارویں آئینی ترمیم داخِل کی تو تب کسی کو ’سول سپریمسی‘ کا خیال نہ آیا؟
آج جب ایک پارٹی سول سپریمسی کا رونا رو رہی ہے اور دوسری پارٹی شکرانے کے جشن منا رہی ہے، کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہیں آیا کہ بھائی جب تک ملک میں نجکاری کا عمل نہیں روکا جاتا، تب تک اثاثوں کی نجی ملکیت کا تصوّر ختم نہیں ہو سکتا۔ اور جب ریاست خود ہی اثاثوں کی نجی ملکیت کے تصوّر یعنی ’پرایئویٹائزیشن‘ کے اصول پر عمل پیرا ہے تو احتساب کا لفظ صرف ایک ہتھیار رہ جاتا ہے، جسے ہر کوئی وقت آنے پر اپنے داؤ کے طور پر استعمال کرے گا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔
ایبڈو تو خیر پرانی بات ہے مگر محمد خان جونیجو کی حکومت جب گرائی گئی تو مجھے جنرل ضیاء کا وہ انداز آج تک یاد ہے جب انہوں نے غالِب کا یہ شعر پڑھا کہ۔۔۔
قرض کی پیتے تھے مے اور یہ کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
مجھے حالیہ فیصلے سے جنرل ضیاء الحق کی وہی بھیانک مسکراہٹ یاد آ رہی ہے جو اس وقت، اس کی مونچھوں تلے کھیل رہی تھی۔ طاقت کے نشے میں چور، ایک عسکری طالع آزما کی مسکراہٹ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس پارٹی کے لوگوں کو وہ مسکراہٹ بھول گئی ہے جِن کی تاریخی کامیابیوں میں سے ایک انیس سو تہتر کا آئین ہے اور دوسری نیشلائیزیشن۔ اور وقت نے ان دونوں کامیابیوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا اس کے فریقین میں وہ پارٹی خود بھی شامِل ہو گئی اور نجکاری کے عمل کو روکنے کی بجائے اسے اپنی قوم کی قسمت سمجھ بیٹھی۔
ڈاکٹر مبشر حسن عرصے سے علیل ہیں مگر انہیں یاد تو ہو گا کہ نیشلائیزیشن کی بنیادی سوچ انہوں کیسے تصویر کی، کیسے اسے صفحہء قرطاس پر منتقل کیا، کِن کِن مخالفتوں کا سامنا کیا۔ انہیں تو یہ بھی یاد ہو گا کہ کِس طرح اداروں نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی میں کرپشن کو اتنا فروغ دیا کہ لوگ اپنے ان حقوق کو ہی بھلا بیٹھے جو ریاست کے اوّلین فرائض تھے۔
آج کرپشن کے خلاف جنگ میں ایک پارٹی میرٹ کو اپنا ہتھیار بتا رہی ہے۔ یہ پارٹی جِس جماعت کے خلاف اپنی کامیابی کا جشن منا رہی تھی، اس پارٹی نے بھی کبھی میرٹ ہی کو اپنا شعار بتایا تھا۔ تو صاحبو، کہیں میرٹ نظر آیا؟
اگر میرٹ آئین میں شامل ایسی بہت سی غیر آئینی طور پر داخل کی گئی شقوں پر عمل درآمد ہی ہے تو محمد خان جونیجو کی بر طرفی کے بعد ہی مک کرپشن فری ہو جانا چاہیئے تھا۔ دو مرتبہ بینظیر بھٹو کا تختہ الٹتے ہی ملک بھر کے مزدوروں اور کسانوں کو خوشحال ہو جانا چاہیئے تھا۔ خود میاں صاحب، کو دو مرتبہ پہلے بھی گھر بھیجا گیا، تب ہی ملک میں تعمیروترقّی کا دور شروع ہو جانا چاہیئے تھا۔ جب یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تو ہر گھر میں چولہا جلنا چاہیئے تھا۔ جب، افتخار محمد چوہدری کو بحال کیا گیا تو اس کے بعد سے ملک میں رول آف لاء کا دور دورہ ہونا چاہیئے تھا۔
مگر ایسا ہوا تو نہیں اور نہ ہی آیئندہ ایسا ہونے کے امکانات ہیں۔ اِس لیئے کہ آنے والی متوقع حکومتیں بھی ممکنہ طور پر یہی کہیں گی کہ ان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی موجود نہیں کہ ایک دم ستّر سال کی کرپشن پر قابو پا لیں۔ اور یہ بھی ایک غلط بیانی ہے۔ جادو کی چھڑی تو موجود ہے مگر اسے استعمال کرنے کی نیّت اور ارادہ کِسی ایسی سیاسی جماعت کے پاس ہو ہی نہیں سکتا، جِس کے کرتا دھرتا لوگوں میں کوئی اسحاق ڈار ہو یا کوئی جہانگیر ترین۔
تو صاحبو، یہ جادو کی چھڑی نیشلائزیشن ہی ہے۔ یعنی ایک ایسا معاشی نظام جو سرمایہ دارانہ نظامِ انہظام سے بہت مختلف ہے۔ ورنہ آئین میں کیا نہیں؟ احترامِ رمضان ہے، سائبر کرائم قانون ہے، قوانینِ تحفظِ مذاہب ہیں۔ بس ہم نے کچھ ختم کیا بھی ہے تو فقط اٹھاون ٹو بی۔۔۔۔۔ آپ ہی کہیئے کہ کیا میاں صاحب یہ کہہ سکتے ہیں کہ اٹھاون ٹو بی ختم ہو گئی۔ اب بھی جو لوگ اعتراف کرتے ہیں کہ آئین سے باسٹھ، تریسٹھ اور نناوے کا خاتمہ نہ کرنا ان کی نااہلی ہے، ان کی خدمت میں گذارش ہے کہ یہ نااہلی نہیں، بددیانتی تھی، جِس کا شکار وہ خود ہو گئے۔
مگر کیا کریں، جو لوگ نیا پاکِستان بنانے چلے ہیں، خود ان کے پاس قومی اثاثے بنانے اور بچانے کا کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔ انہوں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ سب ذاتی اثاثے قومی تحویل میں لے لیئے جائیں گے۔ شائد اس لیئے کہ اگر ایسا ہوا تو ان کے اپنے اے ٹی ایم بند ہو جانے کا خدشہ ہے لہٰذہ یہ بھی ان کی نا اہلی نہیں بلکہ بد نیّتی ہی سمجھی جانی چایئے۔
صاحبو، بات فقط اتنی ہے کہ ہم نے کرپشن ختم کرنے کے ضمن میں کسی منتخب وزیرِاعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ گویا ہم ناپاک کنویں سے محض بالٹیاں ہی بھر بھر کر نکال رہے ہیں۔ پرائویٹائزیشن، جِو قومی اثاثوں کی نجی ملکیئت کا نظام ہے وہ تو جوں کا توں ہے۔ اور جب تک یہ ہے اداروں میں لوٹ کھسوٹ کی محاذ آرائی بھی رہے گی۔ وزیرِ اعظم کا نام کوئی بھی ہو، جب تک گاجر سامنے ہے، اس کے حصول کے لیئے سر پھٹول کیونکر ختم ہو سکتی ہے؟
زیادہ تفصیل میں کیا جائیں ۔۔۔۔ جب تک کنویں سے کتا نہیں نکالیں گے، نظام کی تطہیر ممکن نہیں۔
فیس بک کمینٹ