یہ دنیا بہت خوبصورت ہے اور قدرت نے اس خوبصورتی کو کسی ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں رکھا۔ کائنات کے خالق کی تقسیم بھی نرالی ہے،کسی ملک کے صحرا دنیا بھر کے لیے کشش کا باعث ہیں تو کسی خطے کی جنگلی حیات لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ کسی دیس کے برف پوش پہاڑ قابلِ دید ہیں تو کسی ملک کے صاف ستھرے ساحل اور سمندر کا نیلگوں پانی دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔کسی ملک کی تاریخی یا جدید عمارات اور عجائب گھر بے مثال ہیں تو کسی ملک کے جنگلات، آبشاریں اورجھرنے اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس دنیا کے حُسن اور رعنائی کا اندازہ آپ محض تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر نہیں کر سکتے۔ آپ جب پاکستان میں جھیل سیف الملوک تک پہنچ کر اپنی آنکھوں سے اس کا نظارہ کرتے ہیں یا سکاٹ لینڈ کے سرسبز پہاڑی سلسلوں اور چراگاہوں کی سیاحت کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی دنیا خوبصورت ہے۔ مجھے اب تک دنیا کے24 ممالک کی سیاحت کا موقع ملا ہے۔ اِن میں سے کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں میں آٹھ یا نو مرتبہ جا چکا ہوں۔ سوئٹزر لینڈ ہو یا ناروے، ماریشیئس ہو یا کینیڈا، مجھے اِن ملکوں کی ترقی، خوشحالی اور خوبصورتی کی جو بنیادی وجہ نظر آتی ہے، وہ ہے محدود آبادی اور تعلیم و تربیت۔ خالقِ کائنات نے قدرتی وسائل کی تقسیم میں کہیں کسی قسم کی بخیلی سے کام نہیں لیا۔ معاملہ صرف یہ ہے کہ اس خطے کے لوگوں نے اِن وسائل کا تحفظ کس طرح کیا اور اِن وسائل کو اپنے کام میں کس طرح لائے؟
اس وقت پوری دنیا کے195 ممالک کی کل آبادی تقریباً آٹھ ارب (یعنی7.9بلین) افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان دنیاکا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً 22 کروڑ ہے۔ شرح پیدائش29.8فیصد اور شرح اموات7.5فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ یعنی یونائیٹڈ کنگڈم کی کل آبادی پونے سات کروڑ ہے۔ یہاں شرح پیدائش 11فیصد اور شرح اموات9.3فیصد ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی میں اضافے کا تناسب بڑھ رہا ہے جبکہ وسائل اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی دستیابی میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اسی طرح تعلیم، صحت اور روزگار کی سہولتیں بھی دِن بہ دن کم ہو رہی ہیں۔ اس کے مقابلے میں برطانیہ اور یورپ کے بیشتر خوشحال ملکوں کے وسائل میں اضافہ اور آبادی میں کمی واقع ہورہی ہے۔اسی لیے وہ اپنے ملکوں میں افرادی قوت کوبڑھانے کے لیے ترقی پذیر ممالک سے امیگرنٹس کو اپنے ملکوں میں آنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی کا بڑھتا ہوا سیلاب خطرے کی گھنٹی بجا کر ایک تشویشناک مستقبل کی خبر دے رہا ہے۔ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے حالات سے پہلے مجھے لندن میں ایک ایسی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جسکا موضوع”تیسری دنیا کے ممالک کی ترجیحات اور بڑھتی ہوئی آبادی“ تھا۔ اس کانفرنس میں بڑی فکر انگیز باتیں سننے کو ملیں اوربڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں ہر پہلو اور زاویے سے گفتگو ہوئی۔ اسلام کے حوالے سے آبادی میں اضافے کا نکتہ نظر بھی بیان کیا گیا۔ ایک اسلامی سکالر نے کہا کہ ایک مسلمان ماں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نوزائیدہ بچے کو دوبرس تک اپنا دودھ پلائے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو یہ بچے کی حق تلفی ہوگی جس کا مطلب ہے کہ دوبچوں کے درمیان 3برس کا وقفہ ہوگا۔ شرعی اعتبار سے بہبودِ آبادی یا پاپولیشن پلاننگ کا یہ ایک شاندار فارمولہ ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی کمی کے باعث لوگوں کی اکثریت بچوں کی پیدائش کو اللہ کی رضا قرار دیتی ہے۔ اس معاملے میں نہ تو وہ اس شرعی حوالے کو پیشِ نظر رکھتی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ اپنے وسائل اور حالات کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتی ہے۔ پاکستان میں جو جتنا زیادہ غریب ہے اُس کے اتنے ہی زیادہ بچے ہیں۔ سات آٹھ بچے، دوکمرے کے گھر میں کس طرح گزارہ کریں گے یا کرتے ہیں، جاہل والدین نے کبھی اس بارے میں غور نہیں کیا۔
پچھلے دنوں جنگلی حیات یعنی وائلڈ لائف کے ایک چینل پر پرندوں کے بارے میں ایک دستاویزی فلم یعنی ڈاکیومنٹری دکھائی جارہی تھی جس میں ایک ننھی چڑیا کی زندگی کو فلم بند کیا گیا تھا۔ یہ چڑیا ایک شاخ سے بنے گھونسلے میں 4 انڈے دیتی ہے۔ یہ انڈے مشکل سے اس گھونسلے میں سما رہے تھے چنانچہ یہ ننھی چڑیا اپنی چونچ سے دو انڈوں کو گھونسلے سے باہر گرا دیتی ہے۔ شاید اُسے یہ اندازہ تھا کہ اس چھوٹے سے گھونسلے میں وہ صرف2بچوں کی پرورش کر سکتی ہے۔کیا انسان کا دماغ اس ننھی چڑیا سے بھی چھوٹا ہے کہ وہ آبادی بڑھاتے وقت اپنے وسائل اور گنجائش کا قطعاً خیال نہیں رکھتا؟ جو لوگ بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں، اُن کے اوسطاً 2یا3 بچے ہیں اور جو لوگ جھونپڑی یا چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اُن کے 6یا7 بچے ہیں۔ اس کا مطلب ہے تعلیم اور آگاہی کے بغیر پاکستان میں آ بادی پر کنٹرول یا بہبود آبادی کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تیسری دنیا کے ملکوں میں بے روزگار اور ان پڑھ گھرانوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مسلمان معاشروں میں زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کی اکثریت ان بچوں کو چھوٹی عمر میں مدرسوں کے حوالے کردیتی ہے یا پھر سکول بھیجنے کی بجائے چائلڈ لیبر پر مجبور کرتی ہے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے والے والدین کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی اولاد کے لیے تعلیم، علاج معالجے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی ہم سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا کام تو صرف ملک کی آبادی بڑھانا ہے۔ برطانیہ میں لوگوں کی اکثریت 2یا3کمروں کے گھروں میں رہتی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر 2کمرے کے گھر میں 3لوگ آسانی سے رہ رہے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ مزید3 یا4بچے پیدا کر کے اس گھر کو ہر ایک کے لیے ناکافی بنایا اور اپنی مشکلات میں اضافہ کیا جائے۔
اب بھی وقت ہے کہ تیزی بلکہ بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں اضافے کو خطرے کی گھنٹی سمجھا جائے۔ پاکستان میں رقبے کے حساب سے ایک مربع میل پر 742افراد آباد ہیں۔ پاکستان کی تقسیم یا بنگلہ دیش کے قیام کے بعد مغربی پاکستان کی آبادی صرف ساڑھے چھ کروڑتھی جو48برسوں میں 22کروڑ تک جا پہنچی ہے جبکہ ہمارے وسائل میں آبادی کے اس تناسب سے اضافے کی بجائے کمی ہوئی۔ برطانیہ کی آبادی میں 50برس کے دوران صرف ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اس ملک کے وسائل اور روزگار کے مواقع دن بہ دن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آبادی کا سیلاب پاکستان کے مستقبل کو کہا ں لے جائے گا۔ اگر کسی کشتی میں سوراخ ہو جائے تو اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اس میں سے پانی کی بالٹیاں بھرکر نکالنے سے زیادہ ضروری ہے کہ اس سوراخ کو بند کیا جائے۔جاہل مولوی اور مفاد پرست سیاستدان کبھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کے مدرسوں کی نفری اور ووٹرز کی تعداد میں کمی آئے۔ اس لیے آبادی پر کنٹرول یا بہبود آبادی کے سلسلے میں آگاہی کو عام کرنا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ غریب،مفلوک الحال اور وسائل سے محروم غریب عوام کو خود ہی کچھ سوچنا ہوگا وگرنہ یہ واقعہ پڑھ لیجئے۔
پاکستان میں گزشتہ مردم شماری کے موقع پر ایک افسر نے کسی چھوٹے سے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس دس سالہ بچے نے دروازہ کھولا۔ رجسٹر میں گھر کے افراد کا اندراج کرتے ہوئے افسر نے بچے سے پوچھا کہ تم کتنے بہن بھائی ہو؟ بچے نے کہا کہ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں، افسر نے استفسار کیا کہ تمہارے والد صاحب کیا کرتے ہیں۔بچے نے سادگی سے جواب دیا۔ بتایا تو ہے کہ ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا۔
عاشقی قید ِ شریعت میں جب آ جاتی ہے
جلوہئ کثرتِ اولاد دِکھا جاتی ہے
فیس بک کمینٹ