جرمنی میں فریڈرک مرز کی قیادت میں قدامت پسند پارٹی نے انتخابات میں برتری حاصل کر لی ہے۔ لیکن انتخابات کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ 12 سال پہلے قائم ہونے والی دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹی اے ایف ڈی ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اسے بیس فیصد سے زائد ووٹ ملے ہیں اور 630 رکنی ایوان میں اسے 152 نشستیں ملی ہیں۔ پارٹی کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ اگلے انتخاب میں وہ حکومت سازی کے قابل ہوں گے۔
پورے یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کا عروج و مقبولیت اہم سیاسی و سماجی مسئلہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ امیگریشن اور خراب معاشی حالات کی وجہ سے یہ پارٹیاں مسلسل ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہورہی ہیں۔ جرمنی اپنے نازی ماضی کی وجہ سے عام طور سے نسل پرستانہ رجحانات رکھنے والی سیاست کے بارے میں بہت حساس رہا ہے لیکن اے ایف ڈی کی کامیابی سے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید جرمنی کے عوام ماضی کو بھلا کر اپنا حال بہتر کرنے کے لیے انتہاپسندانہ نظریات کی حامل پارٹیوں کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ ای ایف ڈی کی کامیابی اس تبدیل ہوتے رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگرچہ اے ایف ڈی کو فوری طور سے اقتدار میں حصہ ملنے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ انتخابات میں 28 فیصد ووٹوں کے ساتھ 208 سیٹیں جیتنے والے کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے اتحاد نے اے ایف ڈی کے ساتھ کسی قسم کا سیاسی اتحاد نہ کرنے کے اصول پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم یورپ میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو انتہا پسند نظریات کو مسترد کرنے کا یہ طریقہ فرسودہ اور ناقابل عمل ہے۔ جن ملکوں میں انتہا پسند عناصر فیصلہ کن اکثریت حاصل کرکے پارلیمنٹ میں پہنچتے ہیں، وہاں نام نہاد مین اسٹریم پارٹیاں بھی ان کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتیں۔ اس وقت 7 یورپی ملکوں میں یہ صورت حال موجود ہے ۔ کروشیا، زیک ری پبلک، فن لینڈ، ہنگری، اٹلی ، نیدر لینڈز اور سلوویکیا میں انتہاپسند پارٹیوں کے نمائیندے حکومتوں کا حصہ ہیں کیوں کہ ان کے تعاون کے بغیر حکومت سازی کا کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ باقی ملکوں میں بھی دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کو ایسی ہی سیاسی طاقت حاصل ہوسکتی ہے۔ بعض مبصرین کے نزدیک ایک دہائی میں یورپ کا سیاسی نقشہ بالکل مختلف ہوگا اور دائیں بازو کی انتہا پسند پارٹیاں طاقت ور اور سیاسی امور پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوں گی۔
جرمنی میں حیرت انگیز انتخابی کامیابی حاصل کرنے والی اے ایف ڈی پارٹی اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس پارٹی کا مین فوکس اگرچہ امیگریشن پر ہے اور اسی کی بنیاد پر یہ عوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس کے ایجنڈے میں تارکین وطن مخالفت کے علاوہ معاشی انحطاط کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اے ایف ڈی جرمنی کو یورپی کرنسی یورو کے معاہدے سے نکالنا چاہتی ہے اور ماحولیاتی اقدامات کی حامی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ماحول دوست انرجی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی بجائے کوئلے کا استعمال کیا جائے اور معیشت کو ترقی دی جائے۔ یہ پارٹی یوکرین کی فوجی امداد بند کرنے کے علاوہ روس کے خلاف تمام پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بااعتماد ساتھی اور دنیا کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے کھل کر اے ایف ڈی کی حمایت کی تھی اور انتخابات سے قبل اس کے اجتماعات سے خطاب کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا کمپین کا حصہ بھی بنے تھے۔ اسی طرح امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس جب میونخ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے ہفتہ عشرہ قبل جرمنی آئے تھے تو انہوں نے اپنی تقریر میں یورپی لیڈروں پر شدید نکتہ چینی کے علاوہ اے ایف ڈی کی حمایت کا یوں اعلان کیا کہ وہ اس پارٹی کی لیڈر ایلیس وائیدل سے ملے لیکن انہوں نے جرمنی کے چانسلر اولاف شولز سے ملاقات نہیں کی تھی۔ اس طرح امریکی حکومت نے جرمنی میں انتخابات سے چند روز پہلے واضح کردیا تھا کہ وہ یورپ میں کن عناصر کو فیصلہ کرنے والی پوزیشن میں دیکھنا چاہتی ہے۔
یورپی ماہرین کے لیے جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کی حیرت انگیز کامیابی اگرچہ غیر متوقع تو نہیں ہے لیکن یہ حیران کن ضرور ہے کیوں کہ جرمنی اپنے ہولو کاسٹ ماضی کی وجہ سے نسل پرستی اور انتہاپسندی کے معاملات میں خاصا حساس رہا ہے۔ وہاں صرف سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ عام لوگ بھی ماضی کے مظالم کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتے تھے اور ایسے سیاسی رجحانات کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے جن میں طبقاتی تعصب اور گروہی تقسیم کو بڑھانے اور معاشرے کے کمزور طبقات کو سیاسی یا سماجی مسائل کا ذمہ دار قرار جاتا ہے۔ البتہ اب اسی ملک میں اے ایف ڈی جیسی پارٹی تقریباً اکیس فیصد ووٹ لے کر ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ اس پارٹی نے چانسلر اولاف شولز کی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہےجسے نہ صرف اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے بلکہ اسے صرف 16 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس طرح ایس پی ڈی اس وقت پارلیمنٹ میں تیسری پوزیشن پر آئی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس پارٹی کا یہ بدترین انتخابی نتیجہ ہے۔
امریکی صدر کے معتمد ایلون مسک کا کہنا ہے کہ اے ایف ڈی ملک کی واحد پارٹی ہے جو جرمنی کو بچا سکتی ہے۔ اس سال کے شروع میں اے ایف ڈی کی سالانہ کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’جرمنی میں ماضی کے واقعات کے بارے میں غیر ضروری طور سے شرمندگی اور احساس جرم پایا جاتا ہے۔ لیکن اب جرمن قوم کو آگے بڑھنا چاہئے‘۔ پارٹی لیڈر ایلیس وائیدل نے اس موقع پر ٹرمپ کے انداز میں ’جرمنی کو دوبارہ عظیم‘ بنانے کا نعرہ لگا کر ایلون مسلک کے خیالات کی تائید کی تھی۔ تاہم جرمنی کے صدر فرینک والٹر نے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ ’ایسے الفاظ ماضی کے تاریک عہد کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ جرمنی ہولوکوسٹ کا ذمہ دار تھا اور یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوسکتی‘۔
دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر بنیادی طور سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور معاشی بدحالی کو زبان دیتے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد نسلی گروہوں کے خلاف نفرت کو نعرے کے طور پر استعمال کرنا ہوتا ہے۔ یہ عناصر مختلف نسلوں، عقائد اور گروہوں کے بارے میں اپنے منفی سیاسی رویہ کو چھپانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کرتے لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران عوام کی قوت خرید میں کمی، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور پناہ گزینوں کی آمد کی وجہ سے ان عناصر کو اس نفرت کو سیاسی کامیابی میں تبدیل کرنے کا موقع ملا ہے۔ اسی لیے جرمنی ہی نہیں یورپ کے کسی بھی ملک میں دائیں بازو کے انتہا پسند امیگریشن کو ہی خاص توجہ دیتے ہیں ۔ اس طرح لوگوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مین اسٹریم پارٹیوں نے اپنی سرحدیں کھول کر قومی مفادات اور اور عوامی ضروریات سے روگردانی کی ہے۔ امریکہ میں کامیابی کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہی ہتھکنڈا اختیار کیا تھا۔ یہ سیاسی سوچ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہورہی ہے کہ امیگریشن اور معاشی خرابی کے درمیان قریبی تعلق ہے۔ حالانکہ یورپی ملکوں میں بڑھتی ہوئی معمر آبادی کے مصارف برداشت کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے غریب ملکوں سے تارکین وطن بلانے کی ضرورت موجود رہتی ہے۔ اگر ان ملکوں میں تارکین وطن آکر اہم شعبوں میں خدمات سرانجام نہ دیں تو معیشت کا پہیہ جام ہوجائے اور یہ ممالک اپنے عمر رسیدہ لوگوں کو پنشن اور دیگر سہولتیں دینے کے قابل نہ رہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دائیں بازو کے انتہا پسند انہیں معمر لوگوں کو سب سے پہلے اپنے پروپیگنڈے کا نشانہ بناتے ہیں جن کی بہبود کے لیے تارکین وطن کا آنا اور ملکی معیشت کو سہارا دینا ضروری ہے۔ حکومتیں اور مین اسٹریم سیاسی پارٹیاں اس پروپیگنڈے کا جوب دینے اور اسے غلط قرار دینے کی بجائے مقبول ووٹ حاصل کرنے کی خواہش میں امیگریشن پر اپنے معتدل اور متوازن رویہ کو خیر باد کہہ کر انتہا پسندانہ نعرے بازی کو شعار بنالیتی ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے یورپ کی مین اسٹریم پارٹیاں دائیں بازو کے انتہاپسند گروہوں کی بے سر و پا اور اکثر اوقات حقائق کے برعکس باتوں کی تائید کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ ان پارٹیوں کا خیال ہوتا ہے کہ اس طرح وہ دائیں بازو کے عناصر کو کمزور کرکے سیاسی توازن قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی لیکن تجربہ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس طریقہ سے دائیں بازو کی انتہاپسند سوچ مزید راسخ اور ’قابل اعتبار‘ ہوجاتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں یورپی سیاست کے ایسو سی ایٹ پروفیسر طارق ابوغدی کا کہنا ہے کہ اس لحاظ سے ہم ’ایک شیطانی چکر کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس کا ایک ہی نتیجہ نکل رہا ہے۔ کہ دائیں بازو کے انتہاپسند کامیاب ہورہے ہیں، پارلیمنٹوں میں ان کے ارکان کی تعداد بڑھ رہی ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ ملکوں کی حکومتوں کا حصہ بن رہے ہیں‘۔ یہ شیطانی چکر شروع ہونے کی واحدوجہ یہ ہے کہ مین اسٹریم پارٹیاں متبادل سیاسی حل سامنے لانے اور جھوٹ کی بنیاد پر استوار سیاسی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کی بجائے ، وہی ’مال‘ اپنے نام سے بیچنا چاہتی ہیں جو انتہاپسند عناصر کا دریافت کردہ ہے۔ ایسے میں ووٹر نقل کی بجائے اصل کے پیچھے جانےکو ترجیح دیتے ہیں۔
اس پس منظر میں یورپی سیاسی پارٹیوں کے سامنے معاشرے میں وسیع اتنشار کو روکنے، سیاسی بے چینی کم کرنے اور نفرت و تعصب کی بنیاد پر سیاست ترک کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ بصورت دیگر یورپ جس جمہوریت پر ناز کرتا ہے، انتہاپسند عناصر سب سے پہلے اسے ہی نشانہ بنائیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ