پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر حکومت چلانا مشکل ہورہا ہے تو شہباز شریف نئے انتخابات کا اعلان کریں۔ ایک ٹی وی انٹرویومیں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سیکرٹری جنرل سید نیئر بخاری نے یہ بھی شکایت کی کہ حکومت اپنی مشکل کے بارے میں پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیتی اور نہ ہی صدر آصف زرداری کے اس مشورہ پر کان دھرا گیا ہے کہ مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرلیے جائیں۔
دوسری طرف مذاکرات کے حوالے سے جس فرد یا پارٹی کو سب سے زیادہ بلکہ کلیدی حیثیت حاصل ہے یعنی عمران خان اور تحریک انصاف، تو ان کی طرف سے ابھی تک اس بارے میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔ تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ پارٹی اسٹرکچر کی عدم موجودگی ہے جس میں فیصلہ ساز ادارے موجود ہوں جو حتمی اور اصولی فیصلے کرسکیں اور معروضی صورت حال کے مطابق لچک کا مظاہرہ کریں۔ موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف قومی اسمبلی کا پلیٹ فارم اس مقصد کے لیے استعمال کرسکتی تھی۔ لیکن دیگر تمام پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف میں بھی ایک ہی شخص حرف آخر ہے۔ اس کا فرمایا ہؤا ہی فیصلہ کن ہے اور پارٹی کے معتبر سیاسی دانشمند بھی عمران خان سے اختلافی رائے کا اظہار کرکے تحریک انصاف میں سیاسی طور سے کامیاب ہونے کا تصور نہیں کرسکتے۔
عمران خان نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میں اسٹبلشمنٹ سے مواصلت کی متعدد کوششیں کیں۔ میڈیا اور متعدد مبصرین نے عمران خان کے توسط سے سامنے آنے والے بیانات کو نرمی کا اشارہ قرار دیا اور کہا کہ تحریک انصاف اب اسٹبلشمنٹ سے تصادم کی بجائے مصالحت کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے۔ چند روز پہلے عمران خان نے یہ تک کہا کہ ’ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں، فوج اپنا نمائیندہ مقرر کرے‘۔ اس بیان کو گو کہ مصالحانہ سمجھا اور کہاگیا لیکن درحقیقت یہ فوج کو براہ راست دھمکی دے کر بات کرنے کا ’نوٹس‘ دینے کے مترادف تھا۔ اسی لیے یہ قیاس مضبوط ہورہا تھا عجلت پسند عمران خان جلد ہی مصالحت کی کوششوں سے بھی تنگ آجائیں گے اور ایک بار پھر براہ راست تصادم ہی میں عافیت سمجھیں گے۔
آج کے بیان میں شاید اس طریقے کا آغاز کردیا گیا ہے۔ عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں حاضری کے دوران میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فوج کو گزشتہ سال 9 مئی کو میری گرفتاری پر معافی مانگنی چاہئے۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا وہ آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق فوج سے معافی مانگیں گے۔ آئی ایس پی آر کے ڈائیریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس وقت تک تحریک انصاف کے ساتھ کسی مواصلت کو مسترد کیا تھا جب تک وہ ’انتشار کی سیاست‘ پر معافی نہیں مانگتی۔ اس بیان میں درحقیقت سانحہ 9 مئی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، جس کا الزام فوج تحریک انصاف پر عائد کرتی ہے اور متعدد مقدمات میں عمران خان کو بھی اس توڑ پھوڑ کی منصوبہ بندی کرنے میں نامزد کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں فوج سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ رینجرز نے انہیں 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا تھا کیوں کہ رینجرز ایک سرونگ میجر جنرل کی سربراہی میں کام کرتے ہیں۔ اس لئے فوج کو اس بے قاعدگی پر ان سے معافی مانگنی چاہئے۔ یہ تو ممکن ہے کہ عمران خان کسی نئے بیان میں ایک بار پھر نرم خوئی کامظاہرہ کریں لیکن ان کی نرم خوئی بھی چند ایسی شرائط پر استوار ہوتی ہے جن کو مان لینے سے کسی قسم کے مذاکرات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
ان مطالبات میں ’چوری شدہ مینڈیٹ واپس‘ کرنے کا مطالبہ سر فہرست ہے۔ اس کے بعد عمران خان سمیت سب گرفتار لیڈروں و کارکنوں کی رہائی کی بات کی جاتی ہے۔ مینڈیٹ واپس کرنے سے مراد اگر تحریک انصاف کے دعوے کے مطابق قومی اسمبلی کی دوتہائی نشستوں پر پارٹی کا حق تسلیم کرنا ہے تو اس کے بعد نہ مذاکرات ضروری ہوں گے اور نہ ہی انتخابات کی ضرورت محسوس ہو گی۔ عمران خان خود ہی اپنے آپ کو 90 فیصد پاکستانی عوام کا غیر متنازعہ لیڈر نامزد کرچکے ہیں۔ ایسی صورت میں کسی انتخاب یا اپوزیشن کی کوئی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ ان شرائط پر فساد تو ہوسکتا ہے لیکن سیاسی مذاکرات کا آغاز ممکن نہیں ہے۔ لیکن عمران خان بدستور سیاسی پارٹیوں سے بات چیت کو وقت کا ضیاع قرار دیتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک یہ ’فوج کے ایجنٹ‘ ہیں۔
البتہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے آج یہ پرلطف دلیل بھی دی ہے کہ فوج کے ساتھ تحریک انصاف کی بات چیت ’آئین کے عین مطابق‘ ہوگی۔ حیرت ہے کہ ایک سیاسی جماعت دیگر سیاسی قوتوں کو مسترد کرکے فوج سے بات کرتے ہوئے کون سے آئین کا احترام کرے گی اور کس آئین کو ملک پر مسلط کیا جائے گا۔ اس سے توا یک ہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ’طاقت ور ‘ ہتھ جوڑی کرلیں اور مل کر ملک پر حکمرانی کریں۔ یعنی ایک طرف ’عوام کا واحدمقبول لیڈر‘ عمران خان اور دوسری طرف ملک کی واحد عسکری قوت فوج ہو اور وہ دونوں مل کر حکمرانی کی ایک نئی روایت کا آغاز کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو یہ روایت نئی ہوگی اور نہ ہی اسے آئینی قرار دیا جاسکے گا۔ البتہ ملکی حالات کے کسی نئے موڑ پر زور ذبردستی کے ایک نئے مظاہرے میں عمران خان کو ویسے ہی اقتدار مل جائے جیسے انہیں 2018 دیاگیا تو یہ بالکل دوسری بات ہے۔ لیکن یہ طریقہ نہ ماضی میں جمہوری یاآئینی تھا اور نہ مستقبل میں اسے اختیارکرنے سے عوامی حاکمیت کے کسی راستے کا تعین ہوسکے گا۔
عمران خان کا مسئلہ شاید یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو ماننے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہیں کہ ان کی پارٹی ساڑھے تین سال کے دور حکومت میں نہ تو ملکی فائدے کے لیے کوئی منصوبے شروع کرسکی اور نہ فوج کے ساتھ تعلقات خوشگوار رکھنے میں کامیاب ہوئی جس نے براہ راست سپانسر کرکے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت فوج کی حکمت عملی میں مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور اس کی اعلیٰ قیادت کو ملکی سیاست سے نکال باہر کرنا تھا۔ فوج کا یہ منصوبہ تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکا۔ عمران خان پارٹی کو حکمرانی کے چیلنجز کے لیے تیار نہیں کرسکے۔ وہ اس پر بضد رہے کہ عثمان بزدار اور محمود خان کو بالترتیب پنجاب اور خیبر پختون خوا کا وزیر اعلیٰ رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح قومی منصوبوں پر توجہ دینے کی بجائے ان کا سب سے بڑا چیلنج کسی بھی طرح شریف خاندان کو عاجز کرنا اور تاحیات جیلوں میں بند رکھنا تھا۔
حالات اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ فوج کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ اب حکمرانی کا ہائبرڈ ماڈل مسترد کردیا گیا ہے کیوں کہ اس کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ ا س کی بجائے سیاست دانوں کو اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے اور ملکی معاملات چلانے کا موقع دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی میں اپنی قابل ذکر نمائیندگی کی بنیاد پر حکمرانی کے اس عمل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور دہائیوں سے بگڑے ہوئے نظام کو درست کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے سب سیاسی قوتوں کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ یہیں سے فساد کا آغاز ہوتا ہے۔ تحریک انصاف دوسری سیاسی پارٹیوں کے جمہوری حق کو نہ ماضی میں تسلیم کرتی تھی اور نہ اب ماننے پر راضی ہے۔ حالانکہ 8فروری کے انتخابات خواہ کتنے ہی مشکوک اور ناقص ہوں، ان سے ملک میں سیاسی قوتوں کے درمیان مساوات کی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ مسلمہ جمہوری ممالک میں ایسے حالات کو وسیع تر اشتراک و اتحاد کی بنیاد بنایا جاتا ہے اور سیاسی پارٹیاں کچھ اصولی باتیں منوا کر اور کچھ مان کر ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر لیتی ہیں جو ملک میں مستحکم حکومت کے قیام کا ضامن ہو۔ پاکستانی سیاست دانوں میں اس سیاسی بلوغت کی کمی ہے اور عمران خان کی ہٹ دھرمی نے صورت حال کو سنگین بنایا ہے۔
ملک میں آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات تو کی جاتی ہے لیکن سیاسی پارٹیاں اس پہلو پر غور نہیں کرتیں کہ یہ کام کیسے ہوسکتا ہے۔ یقیناً فوج ملک کے بیشتر شعبوں میں دخیل ہوچکی ہے اور سیاست میں بھی بلاشبہ اس کا اثر و رسوخ بہت گہرا ہے ۔ لیکن فوج سے یہ سپیس واپس لینے کے لیے سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے کے تعاون سے فوج کے لیے جگہ کم کرنا پڑے گی تاکہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کی طرف واپس لوٹ جائے۔ اگر سیاست دان حکمرانی کا متبادل پیش کرنے کی بجائے فوج کے ساتھ مل کر حکومت سازی کا خواب دیکھتے رہیں گے تو ملک میں جمہوری نظام بدستور خواب رہے گا۔ ایسے میں سید نیئر بخاری کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ملک میں نظام کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جائے۔ نظام کو خود سیاست دانوں ہی نے جڑ سے اکھڑا ہؤا ہے ، اسی لیے کبھی فوج اور کبھی عدلیہ، ان کی طرف سے فیصلے کرنے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتی۔
اسی دوران میں سابق وزیر اور تحریک انصاف کے لیڈر علی محمد خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بالواسطہ یہ عندیہ دیا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے مطالبے مان لیے جائیں تو وہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور ،متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بھی بات چیت کرسکتی ہے ۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ مذاکرات سے پہلے ایسے اہم مطالبات کیسے مانے جاسکتے ہیں کہ 8 فروری کے انتخابات کالعدم قرار دیے جائیں یا تحریک انصاف کو سب سے بڑی پارٹی مان لیا جائے۔ اس قسم کا طرز تکلم درحقیقت تحریک انصاف کو جمہوری طاقت بناکر پیش کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ تحریک انصاف ہی واحد جمہوری قوت ہے۔ البتہ جمہوری مزاج کی نشاندہی حجت بازی کی بجائے کسی سیاسی لیڈر اور پارٹی کے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف یہ ثبوت دینے میں مکمل طور سے ناکام ہوچکی ہے ۔ وہ یہ ضمانت دیے بغیر اقتدار چاہتی ہے کہ وہ واقعی ملک میں آئینی طریقہ کار کے مطابق جمہوری نظام نافذ کرنے کی پابند ہوگی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا ماضی چونکہ اس کی تصدیق نہیں کرتا ، اس لیے اب انہیں فوج سے مذاکرات کی بے تابی دکھانے کی بجائے آئین کا احترام کرنے کی خواہش کا اظہار کرنا چاہئے۔
ملک کے اس سیاسی منظر نامہ میں پیپلز پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی طرف سے حکومت کو نئے انتخابات کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کے لیے سید نیئر بخاری نے یہ دلیل دی ہے کہ حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ہے اور 8 فروری کے انتخابات پر پیپلز پارٹی کو بھی تحفظات ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی ان انتخابات کو تسلیم نہیں کرتی تو وہ ان کے ثمرات کیسے سمیٹ رہی ہے؟ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے لیڈر یہ بھی واضح نہیں کرسکے کہ اگر 8 فروری کے انتخابات متنازعہ تھے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ موجودہ نظام میں منعقد ہونے والے کوئی نئے انتخابات ملک کی سیاسی فضا صاف کردیں گے؟
تصادم کی موجودہ کیفیت میں یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اور نہ ہی ملک کی معیشت بار بار انتخابات کی متحمل ہوسکتی ہے۔ نئے انتخابات میں بھی یہی لیڈر اور پارٹیاں سامنے آئیں گی اور ان کے ہاتھوں میں وہی ہتھیار ہوں گے جن سے وہ ایک دوسرے کو مضروب کرتے رہیں گے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )