اسرائیلی تاریخ دان اور مصنف یوال نواح ہراری لکھتا ہے کہ ارتقاء کے سفر کے دوران انسان جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باوجود اپنے ساتھ کی دیگر انواع پر غلبہ پانے میں اس لیے کامیاب ہوا کیونکہ انسان کے ذہن میں ایک ایسی صلاحیت تھی جو دیگر ارتقاء پذ یر انواع میں نہیں تھی۔ وہ یہ کہ انسان کا ذہن فکشن تخلیق کر سکتا ہے۔ چلیے، غنیمت ہے کہ انسان اپنی تسلی کے لیے یہ فکشن تخلیق کر پایا کہ اس کے مر جانے والے کسی اور دنیا میں جی رہے ہیں جہاں وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم یہاں انہیں یاد کر رہے ہیں، اور یہ کہ ایک دن ہم بھی ان سے جا ملیں گے۔ اگر یہ سہارا بھی میسر نہ ہوتو چلے جانے والوں کے بعد زندگی گزارنا کس قدر دشوار ہو جائے۔
میں ابو کو یہ بتا دینے کے حق میں تھا کہ ان کے پاس وقت کم رہ گیا ہے۔ میں جانتا تھا ابو میں اتنا حوصلہ ہے کہ وہ بیماری کی تکلیف کی طرح اس حقیقت کو بھی سہ لیں گے۔ مگر عمومی رائے تھی کہ ایسی صورتحال میں مریض کو لاعلمی میں رکھنا بہتر ہوتا ہے۔ ابو بن کہے سنے ہی سب جان چکے تھے۔
”میں نے زندگی بہت شاندار گزاری ہے۔ اب آخری وقت میں تکلیف تو برداشت کرنا پڑتی ہی ہے“
نشتر کے شعبہء جراحی سینہ کے بیڈ پر لیٹے انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔
شاندار اور بھرپور۔ میرے خیال میں ان کی مکمل زندگی کو ان دو الفاظ میں سمویا جا سکتا ہے۔ میں اکثر انہیں تسلی دینے کے لیے کہتا کہ اب تو آپ کی طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ ”پکّی بات ہے“ وہ مسکرا کر کہتے، اور میں نظریں چرا لیتا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ابو کی زندگی کے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتا۔ کیونکہ ان کی اصل زندگی گھر سے باہر کی زندگی تھی۔ دوستوں کی محفلوں میں ۔ ملنے والوں کے درمیان۔ وہ گھر سے زیادہ باہرخوش رہتے تھے، اور اس بات کا ہم گھر والوں کو ہمیشہ ہی سے گلہ رہا۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ شاید وہ بنے ہی باہر کے لیے تھے۔
ابو کی پیدائش لائل پور کی تھی۔ ان کا تعلق راجپوتوں کی گوت ”نارو“ سے تعلق رکھنے والے خاندان سے تھا جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں اپنا پرانا وطن شام چوراسی چھوڑ کرضلع گرداسپور کے ایک گاؤ ں میں آن بسا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہی سے اس خاندان کے بزرگ تعلیم حاصل کر کے سرکاری ملازمتوں سے منسلک ہو چکے تھے۔ ان کے والد محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بسلسلہء ملازمت مختلف شہروں میں تعینات رہے۔ اس لیے ابو کا بچپن اور نوجوانی کا دور مختلف شہروں میں گزرا، جن میں ملتان، فیصل آباد، ڈیرہ غازیخان اور لیّہ شامل تھے۔
انہوں نے میٹرک اور ایف -اے ڈیرہ غازیخان سے کیا۔ بی ۔اے گورنمنٹ کالج لاہور اور ایم ۔ اے سیاسیات پنجاب یونیورسٹی سے کیا۔ بعد ازاں ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری ولایت حسین کالج ملتان سے حاصل کی تھی۔ زمانہء طالب علمی ہی سے انہیں سیاست سے شغف تھا اور وہ این۔ ایس۔ ایف کے صوبائی صدر بھی رہے تھے۔ میرے دادا کی اچانک وفات کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے ناتے سارے خاندان کی ذمہ داری ان کے شانوں پر آ پڑی۔ اور کمال یہ تھا کہ اپنی تمام تر بیرونی دلچسپیوں اور مصروفات کے باوجود انہوں نے اس ذمہ داری کو بطریقِ احسن نبھایا۔
گھر سے باہر لوگ انہیں ”شاہی صاحب“ کے نام سے جانتے تھے۔ جانے کب یہ عرفیت ان کے نام کا حصہ بنی۔ اس کی وجہ ان کا شاہانہ مزاج تھا۔ پیسہ ان کے ہاتھ میں کبھی ٹھہرا ہی نہیں۔ جیب خالی ہوتی تو ادھار لے کر خرچتے، مگر اپنے معیارِ زندگی پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ بہترین لباس ان کی کمزوری تھا۔ کسی بھی چیز کی خریداری کرتے تو سب سے بہترین چیز خریدتے اور اپنی جیب خالی کر لیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں صرف آج کا سوچتا ہوں، میں نے کل کا کبھی نہیں سوچا۔
ایسی طبیعت کے باوجود کاروبارکا شوق تھا۔ کئی کاروبار کیے اور ہر جگہ نقصان اٹھا کر روزی روٹی کے چکر میں صحافت سے منسلک ہو گئے۔ اور پھر صحافت انہیں راس آ گئی۔ رپورٹنگ اور پریس کلب ان کی زندگی کا محور بن گئے۔ ہم صبح سکول جانے کے لیے تیار ہوتے تو وہ سو رہے ہوتے تھے۔ اور جب وہ رات گئے گھر لوٹتے تو ہم سو چکے ہوتے تھے۔ وہ دوستوں اور ملنے والوں کی محفلوں میں خوش رہتے تھے۔ ان کے دادا، والد، چچا اور تایا سب صوفی شاعر تھے۔ شاید اسی باعث انہیں تصوف اور شاعری، دونوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ مراقبے یا خیالوں کی دنیا میں رہنے سے زیادہ وہ انسانوں کے درمیان رہنے کو پسند کرتے تھے۔ مگر اپنے بزرگوں کی دو روایات پر وہ سختی سے کاربند تھے۔ کسی معاملے پر سٹینڈ لے کر پھر پیچھے نہ ہٹنا، اور اوپر کی کمائی سے پرہیز کرنا۔
سیاسی نظریات کے اعتبار سے وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اپنا لیڈر مانتے تھے۔ البتہ بے نظیر کے قتل کے بعد وہ زرداری کی پیپلزپارٹی کو قبول نہ کر پائے۔ ایسے میں ان کا جھکاؤ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب ہو گیا، جس کی بنیادی وجہ دو جماعتوں کے سٹیٹس کو کے خلاف ان کی نفرت تھی۔ وہ طبقاتی فرق کے شدید مخالف تھے اور ان کی اکثر تحریریں اس بات کی شاہد ہیں۔ ان کی بیماری کے آخری ایّام میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی آمد آمد تھی۔
”آپ کے لیڈر نے ایک عثمان بزدار کی خاطر اپنے بندوں کو اپنے خلاف کر لیا ہے“
میں نے انہیں چھیڑتے ہوئے کہا۔”اس کا دماغ خراب ہے“ ان کا جواب تھا۔
جس حوصلے سے انہوں نے ساڑھے تین ماہ بیماری اور شدید تکلیف کا مقابلہ کیا، یہ انہی کا خاصہ تھا۔ ابو مذہبی ہر گز نہیں تھے، مگر خدا پر انہیں شدت سے یقین تھا۔ بیماری میں بھی انہوں نے مذہب کا سہارا نہیں ڈھونڈا۔ ہاں مگر درد کی شدت بڑھتی تو خدا کا نام زبان پر آ جاتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اتنا مذہبی ہونے کی رعایت تو میسر ہونی ہی چاہیے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ تکلیف میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور وہ بہت صبر کے ساتھ یہ سب جھیل رہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اپنے آخری ایّام ملنے والوں کی محفل میں گزاریں۔ میں نے ایک دن چڑ کر انہیں کہا کہ آپ نے ساری زندگی گھر سے باہر گزار دی، مگر اب بیماری میں چند افراد کے سوا کوئی آپ سے ملنے تک نہیں آیا۔ ”ایسے ہی ہوتا ہے“ انہوں نے چھت کی جانب گھورتے ہوئے مختصر سا جواب دیا اور خاموش ہو گئے۔
فیس بک کمینٹ