حکومت ہمیشہ عوام کی مشکلات کے ازالے کےلئے قوانین بناتی اوراقدامات کرتی ہے۔اورپھراس بات کویقینی بناتی ہے کہ اس کے یہ اقدامات عوام کےلئے مشکلات کاسبب تونہیں بن رہے؟لیکن ہمارے ملک میں جس طرح منتخب نمائندے الیکشن میں ووٹ لے کرعوام کو بھول جاتے ہیں،اسی طرح کوئی بھی فیصلہ کرکے اس کے نتائج کوبھی بھلادیاجاتاہے ۔حکومت پنجاب نے 1990ءکے عشرے میں جن دنوں پنجاب بھر کے امتحانی سنٹروں میں نقل سندھ سے بھی زیادہ تھی ،نالائق طلباءوطالبات کوذہین طلباءوطالبات کا حق سلب کرنے سے روکنے کےلئے انٹری ٹیسٹ کانظام متعارف کرایا،اوریہ اقدام ان حالات کے مطابق بہت درست تھا۔حکومت پنجاب نے امتحانات میں نقل روکنے کےلئے اقدامات کئے اورخادم اعلیٰ کے یہ اقدامات قابل تحسین بھی ہیں ، جن کی بدولت اب امتحانات میں نقل مکمل طورپرختم ہوگئی ہے۔جن دنوں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے نقل روکنے کیلئے اقدامات شروع کئے ان دنوں نقل انتہاء پرپہنچ چکی تھی ، بلکہ یہ حال تھا کہ کالجوں میں طلبہ یونین کے انتخابات میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے تھے جو طلبہ وطالبات کوامتحانات میں نقل کی سہولیات فراہم کرتے تھے ۔جہانیاں کے قریب پُل 14پرایک ہوٹل تعلیمی بورڈ کی شکل اختیار کرگیاتھا۔جہاں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کرام امتحانی پرچے لے کر رات کو جمع ہوتے اورمختلف ٹاﺅٹ طلبہ وطالبات کولے کریہاں نمبرلگوانے پہنچ جاتے تھے ۔جنوبی پنجاب میں ایسے کئی مراکز تھے جہاں ذہین طلبہ وطالبات کاحق مارنے کےلئے امراءکے نالائق بچے پیسوں سے نمبرخریدتے تھے۔وزیراعلیٰ پنجاب نے نقل کے آگے بند باندھنے کے لئے اقدامات کے طورپرہی انٹری ٹیسٹ کااجراءکیالیکن انٹری ٹیسٹ کااجراءکرکے وہ یہ بھول گئے کہ اب انٹری ٹیسٹ بھی دولت کاکھیل بن گیاہے ۔انٹری ٹیسٹ کیلئے اکیڈمیاں کھل گئی ہیں جو ہزاروں روپے بلکہ لاکھوں روپے تک وصول کررہی ہیں۔چاہیے تویہ تھاکہ حکومت کالج اساتذہ کی طرف سے کھولے گئے ٹیوشن سنٹر روکتی تاکہ بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے پروفیسرز طلبہ وطالبات کوکالجوں میں صحیح طریقے سے پڑھاتے ۔لیکن ٹیوشن سنٹر زپرپابندی نہ لگنے کے باعث پروفیسر حضرات اپنی تمام ترصلاحیتیں کالجوں کی بجائے ٹیوشن سنٹروں میں ہی بروئے کار لاتے ہیں ۔ان ٹیوشن سنٹروں کے باعث غریب طلبہ وطالبات لائق ہونے اورمحنت کرنے کے باوجود امراءکی اولاد سے پیچھے رہ جاتے ہیں ۔جبکہ انٹری ٹیسٹ کی پالیسی کے باعث غریب طلبہ وطالبات اوران کے والدین شدیدمالی مشکلات کاشکار ہیں ۔ بلکہ کئی غریب طلبہ وطالبات اپنی تعلیمی استعداد کے مطابق اپناحق بھی حاصل نہیں کرسکتے اورپوری زندگی کے لئے نفسیاتی مسائل سے دوچار رہتے ہیں ۔حکومت پنجاب نے جب انٹری ٹیسٹ کانظام رائج کیاتو اس وقت اس کی ضرورت تھی کیونکہ ان دنوں حالات یہ تھے کہ خود ہمارے انگلش کے پرچے میں تین طالب علم رہنما امتحانی سنٹرمیں براجمان تھے ۔ان رہنماﺅں میں سے ایک ریٹائرہوگیاہے ،20ویں گریڈ سے۔ ایک کا انتقال ہوگیا جبکہ ایک بیرون ملک مفرور ہے ۔امتحان کے د وران انگلش کی جوابات کی کاپی پرلکھنا تھاکہ پرچہ کونسا ہے توانہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ انگلش کے سپیلنگ کیاہیں ۔دوتوپریشان ہوگئے تیسرا جوکافی عرصہ سے ملک سے فرار ہے اس نے کہاکہ سوالنامے پرانگلش لکھا ہوگا۔اس سے دیکھ کرلکھ لینا اوریہ تینوں بی اے پاس کرگئے ۔لیکن اب جبکہ امتحانات میں نقل پرقابوپالیاگیاہے توخادم اعلیٰ پنجاب کوچاہیے کہ انٹری ٹیسٹ ختم کرکے غریب طلبہ وطالبات کے والدین کو معاشی مسائل سے بچائیں، کیونکہ انٹری ٹیسٹ اب منافع بخش کاروبار بن چکاہے اوربہت سے گھرانے انٹری ٹیسٹ کے باعث امراءاوراشرافیہ میں شامل ہوگئے ہیں ۔انٹری ٹیسٹ کے باعث گورنمنٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ سوتیلے پن کاسلوک ہوتاہے اورامراءاوراشرافیہ کے بچے جو اولیول یااے لیول کرکے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہوتے ہیں وہ انٹری ٹیسٹ میں بہترنمبر حاصل کرکے غریبوں کاحق مارتے ہیں ۔خادم اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے جس طرح بیواﺅں ،غریبوں کوبکریاں اورگائے بھینسیں دے کر ان کی مشکلات کاازالہ کیاہے جو بہت ہی قابل ستائش اقدام ہے ۔اسی طرح انٹری ٹیسٹ کاخاتمہ کرکے غریب طلبہ وطالبات کے والدین کیلئے آسانیاں پیداکریں تاکہ سرکاری سکولوں ،کالجوں سے پڑھے ہوئے طلبہ وطالبات سے امتیازی سلوک کابھی خاتمہ ہوجائے ۔
فیس بک کمینٹ