ملتان کینٹ کے بابو محلے میں کوٹھیاں تو ایک دو اور بھی تھیں لیکن کوٹھی والے ایک ہی تھے۔شاید اس علاقے میں پہلی کوٹھی نواب اسلام الدین نے ہی تعمیر کروائی تھی اوراسی لیے وہ خود اور ان کے اہل خانہ بھی کوٹھی والے کے نام سے معروف ہوگئے ( محلے میں انہیں جاگیردار کے نام سے بھی جانا جاتا تھا ) ۔ باقی سارا محلہ چھوٹے چھوٹے مکانات اور پرانی طرز کی تعمیرات پر مشتمل تھا۔ اس علاقے میں یہ کوٹھی مال روڈ پر واقع تھی۔ اس سڑک پر بجلی گھروالے چوک سے پہلے جہاں اب فاسٹ فوڈ کی بہت سی دکانیں بن چکی ہیں ۔اسی شاپنگ سنٹر والی جگہ پر ایس ایس ڈی کے نام سے سروسز سپلائی ڈپوکابڑا گیٹ ہوتاتھاجو اس علاقے میں سپلائی کے نام سے جانا جاتاتھا۔اس گیٹ سے دن بھر فوجی ٹرکوں کی آمد ورفت کاسلسلہ جاری رہتاتھاجو خوراک اور دوسرا سامان یہاں منتقل کرتے تھے یا یہاں سےمختلف یونٹوں میں لے کر جاتے تھے۔ سپلائی کے اندر گھنے درخت تھے اور وہاں سے رات کو گیدڑوں کی آوازیںسنائی دیتی تھیں۔ 1990ء کے عشرے میں جب” آپریشن مڈ نائیٹ جیکالز “ کا چرچا ہوا تو ہمیں سپلائی والے گیدڑ بھی یاد آئے تھے ۔ سپلائی کے گیٹ کے سامنے جہاں اب اسلام ٹاور زیرتعمیر ہے یہی وہ جگہ تھی جہاں اسلام الدین صاحب کی کوٹھی ہوتی تھی۔ اس کوٹھی کے مکینوں کو ہم کوٹھی والے کے نام سے ہی یادکرتے تھے ۔بابو محلے میں صرف دو گھرایسے تھے جہاں سب سے پہلے ٹیلی فون نصب ہوئے۔ ایک گھر تو چودھری مبارک صاحب کاتھا جو خود بھی محکمہ ٹیلی فون سے وابستہ تھے اور دوسری یہی کوٹھی تھی جس میں نواب اسلام الدین رہتے تھے۔1970ءکے عشرے میں بابو محلے کے سب ٹیلی فون انہی دو گھروں میں آتے تھے۔صبح ہو ،تپتی دوپہر یا رات کا وقت ،جب بھی کسی کا ٹیلی فون آتا تھا مبارک صاحب اور اسلام صاحب کے گھر سے متعلقہ گھر کو اس فون کی اطلاع دے دی جاتی تھی۔ بعض اوقات تو کوئی آکر پیغام دے دیتا تھا کہ آپ ہمارے گھر فون سننے آجائیں ۔فلاں جگہ سے فون آیا ہےاو ر کچھ ہی دیر میں دوبارہ بھی آئے گا ، یا پھر ٹیلی فون سے پیغام وصول کرکے ہم تک پہنچا دیا جاتاتھا۔ اس کوٹھی کے ساتھ میرا پہلا تعارف یہی ہوا تھاکہ یہاں ہمارے فون آتے ہیں۔اسلام صاحب کاکوئی بچہ یا کوئی ملازم دستک دے کر گھر میں ٹیلی فون کی اطلاع دے جاتاتھا۔ میری دادی اماں اور بسا اوقات گھر کا کوئی اور فرد جا کر ٹیلی فون سن لیتا تھا۔یہ فون عموماً راولپنڈی سے آتے تھے۔ وہاں میرے چچا ظفراحمد رہتے تھے جو محکمہ ٹیلی فون سے وابستہ تھے۔بہت سی اچھی اور بری خبریں ہم تک اسی ٹیلی فون سے کوٹھی والوں کی معرفت پہنچتی تھیں۔ کئی بار میں بھی اپنی دادی اماں کی انگلی تھام کر یہ ٹیلی فون سننے جایا کرتاتھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے اس کوٹھی کا بڑا سبز رنگ کاگیٹ تھا ۔لوہے کا اتنا بڑا دروازہ محلے کے اورکسی گھر میں نہیں تھا۔دروازے سے داخل ہوں تو سامنے ایک پرانی طرز کامحرابوں والابرآمدہ تھاجس کے پیچھے کمرے تھے اوران کی کھڑکیوں پر جالیاں لگی تھیں۔دائیں ہاتھ پر ایک چھوٹا سا لان تھا ۔برآمدے کے سامنے پارکنگ کی جگہ تھی جہاں کبھی کوئی موٹریا نواب صاحب کی زمینوں سے آیا ہوا ٹریکٹر موجودہوتاتھا۔نواب صاحب کی زمینیں شجاع آباد کے علاقے میں تھیں۔ نواب اسلام الدین خود بھی کبھی برآمدے اور کبھی لان میں موجودہوتے تھے۔نواب صاحب سخت گیرطبعیت کے مالک تھے۔محلے کے بچے ان کی بارعب شخصیت کے اثر میں رہتے تھے۔برآمدے کے ساتھ ایک غلام گردش تھی جس سے گزرکر جب ہم کوٹھی کے عقبی حصے میں پہنچتے تو وہاں ایک بڑا صحن تھا ۔نواب صاحب کی اہلیہ محترمہ ، میری دادی اماں کی سہیلی تھیں اوراس نسبت سے میں بھی انہیں کوٹھی والی دادی اماں کہتاتھا۔ ٹیلی فون کے علاوہ اس کوٹھی کی ایک اور شہرت بھی تھی۔ ہرہفتے یہاں خواتین کا درس ہواکرتاتھاجسے اُس زمانے میں وعظ کہا جاتاتھا۔ایک بڑے گول کمرے میں محلے بھرکی خواتین جمع ہوتیں اوراسی کمرے میں ایک تخت پر بیٹھی ایک بارعب خاتون وعظ دیتی تھیں۔ایک بچے کی حیثیت سے کبھی دادی اماں اور کبھی امی جان کے ہمراہ میں بھی یہ وعظ سننے جایا کرتاتھا۔وعظ کے دن کاانتظار مجھے شدت کے ساتھ ہوتاتھا۔شاید یہ وعظ ہرہفتے ، سوموار کو ہوا کرتاتھا اور میری دلچسپی اس میں یہ تھی کہ وعظ کے بعد شیرینی بھی ملتی تھی۔اس وعظ کا اہتمام اسلام صاحب کی اہلیہ کرتی تھیں ۔وعظ کے دوران وہ خودبھی موجودہوتی تھیں۔اسی عرصے میں ان کے بچوں اور نواسوں کے ساتھ بھی ہماری دوستی ہوگئی۔بچپن کے بہت سے دن ہم نے اس کوٹھی کے برآمدے اور لان میں کھیلتے گزارے۔نواب صاحب کے بچوں میں ندیم الدین ،نسیم الدین اور فہیم الدین شامل ہیں۔فہیم ہمارے ہم عمر اور باقی دونوں بھائی ہم سے بڑے ہیں۔ 1983ءمیں ہم بابو محلے سے جلیل آباد منتقل ہوئے توہماری اس علاقے کے تمام گھروں کے ساتھ وابستگی بھی کم ہوگئی۔ اب ان بھائیوں کے ساتھ سرراہے کبھی کبھار ملاقات ہوجاتی تھی۔ ندیم بھائی بعدازاں سیاست سے وابستہ ہوگئے اور انہوں نے مسلم لیگ(ن)کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی۔ اب وہ شہر میں نواب ندیم الدین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک متحرک اورفعال شخصیت ہیں۔ شہر کی تقریبات میں گاہے گاہے ان سے ملاقات رہتی ہے۔کبھی کسی جلسے میں ،کبھی سیمینار،کبھی کسی شادی میں اور کبھی کسی جنازے میں۔ندیم بھائی سے آج بھی میری ملاقات ہوئی اوریہ ملاقات ایک جنازے پر تھی۔جنازہ بھی کسی اورکا نہیں اسی محترم ہستی کاتھا جسے ہم کوٹھی والی دادی اماں کہتے تھے جن کا شفیق چہرہ میرے بچپن کی یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہے گا اور جب ندیم بھائی نے اپنی والدہ پرسہ لیتے ہوئے مجھ سے کہا کہ رضی بھائی آپ کی دادی اماں کی سہیلی رخصت ہوگئیں تو میں ان سے صرف یہی کہہ سکا کہ ندیم بھائی ان کے ساتھ ہی میرے خوبصورت بچپن کا ایک حصہ بھی توہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیاہے ۔ اور اب جب میں یہ سطریں تحریر کررہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ میری دادی اماں نے آج کوٹھی والی دادی اماں کا کس طرح والہانہ استقبال کیا ہوگا؟ 24سال کا وچھوڑا کوئی کم تو نہیں ہوتا۔
فیس بک کمینٹ