طفیل ابنِ گل کو ہم سے بچھڑے 23 سال بیت گئے ۔ یہ جملہ کہنا تو آسان ہے لیکن اسے تحریر کرتے ہوئے مجھے جس اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا ۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ مجھے اس جیتے جاگتے انسان کی یاد میں آنسو بہانا پڑیں گے ۔ اس تمام عرصہ میں کئی بار اسے یاد کیا ۔ جب طفیل کی موت کی خبر مجھ پر بجلی بن کرگری تھی تو کئی رو ز کے لئے میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں سے عاری ہو گیا تھا ۔ کئی بار سوچا کہ اس کی یاد میں کوئی مضمون لکھوں ۔ اس کے ساتھ بیتے ہوئے لمحوں کو یاد کروں ۔ وہ حسین لمحے جو میری زندگی کا اثاثہ ہیں ۔لیکن ہر مرتبہ یوں ہوا کہ طفیل پر مضمون لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو آنکھیں بھیگ گئیں ۔ قلم نے منتشر خیالات کا ساتھ نہ دیا اور دل نے کہا ’’طفیل ابنِ گل ابھی زندہ ہے تم خواہ مخواہ اس کی یاد میں مضمون لکھ رہے ہو ۔ ابھی دروازے پر دستک ہوگی اور وہ مسکراتا ہوا تمہارے سامنے آن کھڑا ہوگا۔ ‘‘ طفیل کے ساتھ میری پہلی ملاقات کب ہوئی ۔ مجھے یاد ہی نہیں آرہا کہ اس کے ساتھ پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی۔؟ طفیل کے ساتھ میری دوستی کا عرصہ یہی کوئی دس بارہ سال پر محیط تھا مگر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ ہمیشہ سے میرا دوست تھا ۔
شاید وہ پہلی مرتبہ مجھے بابا ہوٹل میں ملا تھا اور غالباً اقبال ارشد نے اس کے ساتھ میراتعارف کرایا تھا ۔ ان دنوں وہ’’ نوائے وقت‘‘ ملتان میں ہفتہ وار کالم ’’خبروں کے آئینے میں ‘‘ تحریر کرتا تھا ۔ پہلی نظر میں وہ مجھے روکھا سا انسان لگا اور ایک طویل عرصہ تک ہماری شناسائی سلام دعا تک ہی محدود رہی ۔ نہ اس نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا نہ میں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ دو تین سال تک ہمارے تعلقات کی نوعیت بس یہی تھی کہ کبھی کبھار سرِ راہ ملاقات ہوجاتی تو اکٹھے بیٹھ کر چائے پی لیتے اور بس ۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ میں روز گار کی تلاش میں لاہور چلا گیا ۔ 1986ء میں لاہور ہی کی ایک سڑک پر طفیل ابنِ گل سے دوبارہ ملاقات ہوئی ۔ معلوم ہوا کہ وہ ملتان کو خیر باد کہہ آیا ہے اور جمیل اطہر کے اخبار ’’جرأت ‘‘سے منسلک ہے ۔ ایک ہی شہر کے باسی جب پردیس میں اکٹھے ہوئے تو تعلقات میں نئی گرمجوشی پیدا ہوئی۔ میں نے طفیل سے کہا ’’تم اپنا سامان لیکر میرے پاس ہی آجاؤ ‘‘۔’’ سامان کیا ہے بھائی ایک چھوٹاسا بیگ ہے جس میں دو جوڑے کپڑوں کے ہیں ۔ ابھی اٹھا لیتا ہوں ‘‘۔اور طفیل ابنِ گل اسی روز میرے کمرے میں منتقل ہو گیا ۔ کچھ عرصہ بعد اسے ’’امروز‘‘ میں ملازمت مل گئی ۔ اسی دوران اطہر ناسک اور اختر شمار بھی لاہور آگئے ۔ اطہر ناسک نے بھی ہمارے چھوٹے سے کمرے میں ڈیرہ ڈال لیا ۔ موہنی روڈ پر واقع حیدربلڈنگ میں ہم نے عفیف کی ضمانت پر ایک کمرہ لیا ۔ کمرہ بھی کیا تھا ایک چھوٹا سا ڈربہ تھا ۔ جس میں ہماری 3 چارپائیوں کے بعد بس اتنی سی جگہ بچتی تھی کہ ہم پاؤں لٹکا کر چارپائی پر بیٹھ سکتے تھے ۔ اس کمرے پر بہت دلچسپ تبصرے ہوا کرتے تھے ۔ طفیل کہتا تھا ’’بھائی ہم اپنی زندگی میں ہی قبر میں رہنے کی پریکٹس کر رہے ہیں ‘‘ ۔اس کے اس جملے کا مفہوم ہمیں اُس وقت سمجھ نہیں آیا تھا ۔
ڈیوٹیوں کی نوعیت کچھ اس طرح کی تھی کہ ہماری کئی کئی روز ایک دوسرے سے بات بھی نہ ہو پاتی۔ میں اور اطہر ناسک صبح گھر سے نکلتے اورجب شام کو واپس آتے تو طفیل ڈیوٹی پر جا چکا ہوتا ۔ وہ رات کو ڈھائی تین بجے واپس آتا تو ہم سو رہے ہوتے اور صبح صبح اسے سوتا چھوڑ کر پھر ڈیوٹی پر چلے جاتے ۔ لیکن جمعہ کا دن ہم اکٹھے گزارتے تھے ۔ اس روز ہم گھر کے کام کاج کرتے ، میں کپڑے دھوتا ، اطہر ناسک کمرے کی صفائی کرتا اور طفیل اس دوران چارپائی پر آلتی پالتی مار کر مسلسل سگریٹ پیتا اور ہمارے کام کی ’’نگرانی‘‘کرتا ۔
’’طفیل بھائی آپ بھی تو کام کریں ۔ یار یہ ذرا کتابیں ہی سمیٹ لیں ‘‘
اطہر ناسک کے اس جملے پر طفیل سگریٹ کا لمبا کش لیتا ’’ یار میں سست آدمی ہوں ۔ مجھے کوئی کام نہ کہا کرو ، اور اطہر ناسک تم تو خود ’’سگھڑ خاتون‘‘ ہو ۔ ان کتابوں کو تم ہی بہتر انداز میں ترتیب دے سکتے ہو ‘‘
اطہر ناسک "WHY NOT”کہہ کر کتابیں ترتیب دینے میں مصروف ہو جاتا اور طفیل لمبی تان کر سو جاتا ۔
امورِخانہ داری سے فارغ ہو کر ہم آوارہ گردی کے لئے نکل کھڑے ہوتے ۔ شہر کی سڑکیں ماپتے ، نئے نئے ہوٹل اور چائے کے کھوکھے تلاش کرتے ۔ اس دوران طفیل ہمیں نت نئے قصے سناتا ،اپنی محبتوں کی تفصیل بتاتا اور جب طفیل خاموش ہوتا تو اطہر ناسک اپنی زیرِ تکمیل فلم (جسے کبھی مکمل ہی نہیں ہونا تھا ) کی کہانی سنانے لگتا۔
ایک روز طفیل کہنے لگا’’ یار ہماری صحت بہت خراب ہوتی جارہی ہے کیوں نہ صحت مند رہنے کے اصولوں پر عمل کیا جائے‘‘۔
’’ درست کہا آپ نے میں بھی یہی سوچ رہاتھا ‘‘اطہر ناسک نے حسب معمول تائیدکر دی ۔
’’توپھر ہم ہر جمعے کی صبح سیر کیا کریں گے ‘‘۔
’’بہت اچھا آئیڈیا ہے ‘‘ اطہر ناسک بھی رضا مند ہوگیا ۔
اب جمعے کو صبح کی سیر ہمارا معمول بن گئی ۔صبح سو یر ے اٹھنے کے چونکہ ہم عادی نہ تھے اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ جمعرات کو رت جگا ہوا کرے گاتاکہ صبح سویرے اٹھنے کی کوفت سے بچا جا سکے ۔میں اور اطہر ناسک جمعرات کو دفتروں سے فارغ ہو کر سڑکوں پر گھومتے رہتے ۔ طفیل کی ڈیوٹی ختم ہونے کا وقت ہوتا تو اس کے دفتر جا پہنچتے ۔ طفیل کو ساتھ لیتے اور بھاٹی چوک کے ایک چائے خانے میں بیٹھ کر دن نکلنے کا انتظار کرنے لگتے ۔ یوں صبح کی سیر کے لئے ہم نے رات بھر جاگنا شروع کر دیا ۔ ان ملاقاتوں نے ہم تینوں کواور قریب کر دیا ۔ مہینے کے آخری دنوں میں ہم تینوں میں سے جس کے پاس بھی پیسے آجاتے وہ باقی دو کا ’’خرچہ ‘‘ بھی اٹھا لیتا ۔ اس دوران طفیل نے ’’امروز‘‘ میں کالم لکھنا شروع کردیا ۔ اس کے حالات بہتر ہونے لگے ایک روز جینزکی پینٹ اور شرٹ خرید لایا ۔ میں نے کہا ’’طفیل بھائی یہ جینز آپ پہنیں گے ‘‘
’’ہاں ہاں ۔ بھئی میں اپنے لئے لایا ہوں ۔ اب میرے حالات بہتر ہوگئے ہیں ‘‘
اس کے بعد طفیل نے جینز پہننا شروع کر دی ۔ سگریٹ اچھا پینے لگا اور پھر یوں ہوا کہ ’’امروز‘‘ بند ہو گیا ۔ طفیل پھر سے بیروز گار ہو گیا ۔ اس دوران میں لاہور سے واپس ملتان آگیا، اطہر ناسک شادی کر کے الگ مکان میں منتقل ہو گیا اور طفیل بھی اپنی بیوی کو لاہور لے گیا ۔ اب اس کے ساتھ خطوط کے ذریعے رابطہ رہتا ۔ کبھی کبھار لاہور جاتا تو طفیل یا اطہر ناسک کے گھر ہی قیام ہوتا ۔ اس روز طفیل بہت خوش ہوتا تھا ۔ ’’بھئی ہم تینوں دوست مدت کے بعد اکٹھے ہوئے ہیں آج کی رات گوالمنڈی میں ملک کے ہوٹل پر گزاریں گے ‘‘اور ہم رات بھر وہاں دنیا جہان کی باتیں کرتے ۔ طفیل نے اس دوران نیا روزگار تلاش کر لیا ۔ اس نے مختلف اخباروں اور رسالوں میں قسط وار کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔ کہانیاں مقبول ہوئیں اور اسے معقول معاوضہ بھی ملنے لگا۔ پھر ایک روز معلوم ہوا کہ وہ دست شناس بن گیا ہے۔ اب اخبارات کے جمعہ ایڈیشنوں میں دست شناسی پر بھی اس کے کالم چھپنے لگے ۔ اس نے کھلاڑیوں ،فنکاروں ،سیاست دانوں اور دانشوروں کے ہاتھوں کے پرنٹ لئے ۔ ان کی کتاب تیار کر لی ۔ غرض یہ کہ اپنے زندگی کے آخری تین چار برسوں میں اس نے ان تھک محنت کی ، بے تحاشا لکھا ۔میں اکثر سوچتا تھا کہ طفیل جیسا سست آدمی اتنی محنت کیونکر کر رہا ہے ۔ وہ جو دو چار صفحات کا کالم تحریر کرنے میں بھی کئی کئی گھنٹے اور بسا اوقات پوری پوری رات صرف کر دیتا تھا اتنے بہت سے ناموں سے اتنی طویل کہانیاں کیسے لکھ لیتا ہے؟ اب احساس ہوتا ہے کہ اسے اتنے بہت سے کام کرنے کی جلدی کیوں تھی ۔ ہمیشہ کی طرح ایک روز اس نے پھر اپنے تمام دوستوں کو حیران کر دیا ۔ معلوم ہوا کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے ۔ شادی اس نے سندھ میں کی تھی ۔ پہلی بیوی سے اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی ۔ اب وہ کئی کئی مہینے سندھ میں گزارنے لگا اس دوران لاہور سے بھی اس کا رابطہ بر قرار رہا ۔ ایک روز اس کا خط موصول ہوا ۔لکھا تھا کہ ’’میرے ہاں چاند سا بیٹا پیدا ہوا ہے ، آجکل سندھ میں ہوں ‘‘ اس کے بعد اس کے خطوط میں اپنا ذکر کم اور بیٹے کا زیادہ ہوتا تھا ۔ وہ اس کی شرارتوں کا ذکر کرتا اپنی بوڑھی ماں کی خوشیوں کا ذکر کرتا جس کے ارمان ایک طویل عرصے بعد پورے ہوئے تھے اور جو دن بھر اپنے پوتے کے ساتھ کھیلتی رہتی تھی ۔
آخری مرتبہ میری اور طفیل کی ملاقات اگست 94ء میں ہوئی ۔ وہ بہت خوش تھا ۔ اس کے حالات پھر بہتر ہو رہے تھے ۔ ہفت روزہ ’’فیملی ‘‘ میگزین میں ’’قدسی ‘‘کے عنوان سے اس کا قسط وار ناول خاصا مقبول ہو چکا تھا اور اسے اس کا معقول معاوضہ بھی ملتا تھا ۔ دست شناس کی حیثیت سے بھی اس کا نام بن چکا تھا ۔ وہ کافی دیر تک میرے اور شاکر حسین شاکر کے ساتھ مستقبل کی پلاننگ کرتا رہا اور پھر لاہور چلا گیا ۔
اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں مجھے اہل قلم کانفرنس میں شرکت کے لئے تین چار روز کے لئے اسلام آباد جانا پڑ گیا ۔ 11 اکتوبر کی شب گھر واپس آیا تو خبر ملی کہ ’’طفیل مر گیا ہے ‘‘ ۔کب ؟ کیوں ؟ کیسے؟ کئی سوال میرے ذہن میں ابھرے مگر کافی دیر تک کسی سے کچھ پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی ۔ ’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘ میں گھر والوں سے الجھ پڑا ’’سننے میں غلطی ہوئی ہوگی ‘‘۔’’ نہیں ہم درست کہہ رہے ہیں ۔ آ ج صبح طفیل کا جنازہ تھا ‘‘ اور یہ کہتے ہوئے میری والدہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ طفیل واقعی ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر اپنے دوستوں کو حیران کر گیا ۔ اس نے کسی دوست کو جنازے اور تدفین میں شرکت کی مہلت ہی نہ دی ۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے دوست اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر پر مٹی نہ ڈال سکیں گے ۔ اسے کیا خبر کہ اس کے دوست تو اس کی موت پر کھل کر رو بھی نہ سکیں گے وہ تو اب بھی اس کی دستک کے منتظر ہیں ۔
فیس بک کمینٹ