امریکہ میں دو قسم کے واشنگٹن پائے جاتے ہیں۔اولاً تو وہ جو کہ پچاس امریکی ریاستوں میں سے ایک اچھی بھلی ریاست ہے مگر امریکی دارالحکومت نہیں۔ مگر ثانیاً وہ ہے جو کہ عرف ِ عام میں واشنگٹن سے زیادہ ڈی سی کہلاتا ہے ۔مگر کمال دیکھیں کہ ڈی سی ہوتے ہوئے بھی منصب رکھتا ہے اِس لیے کہ یہ ہمارے ہاں والا ڈی سی نہیں بلکہ ”ڈسٹرکٹ کولمبیا“ کا مخفف ہے کہ جس کی حدود میں یہ واقع ہے۔نیو یارک سے واشنگٹن ڈی سی کے لیے نہایت اہتمام سے چلنے والی ”گرے ہاؤنڈ“ کمپنی کی بسیں اپنی ظاہر ی اور باطنی حالت میں ہمارے ہاں کی اُن دوسرے درجے کی ڈائیوو بسوں سے مختلف نہیں جو کہ لاہور اسلام آباد روٹ کی بجائے سرائیکی علاقوں کے روٹس پر چلتی ہیں ۔ جیسا کہ لاہور سے ملتان، ملتان سے بہاولپور یا بھکر ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ۔لہذا وہی ہوا کہ جس کا اندیشہ تھا۔ چار گھنٹے کے سفر میں تقریباً اڑھائی گھنٹے کے بعد بس کا اندرونی دارلحکومتی ماحول بتدریج تندور میں بدلتا چلا گیا ۔ بڑھتی ہوئی حدت کو کافی دیر تک برداشت کرنااگرچہ امریکیوں کی صبرمندی کی دلیل تھا مگر کب تلک۔ جب خواتین کے گالوں کا رنگ دہکتے ہوئے انگاروں میں بدلنا شروع ہوا تو اگلی نشستوں پر بیٹھی ہوئی ایک خاتون اُٹھی اور لحیم شحیم سیاہ فام ڈرائیور سے نہایت عاجزی کے لہجے میں کچھ کہا مگر ڈرائیور سڑک کے دونوں جانب پھیلی ہوئی فردوس صفت ہریالی میں مگن رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہی خاتون دوبارہ اُٹھی اور پھر اُسی عاجزی سے دوبارہ گویا ہوتی دکھائی دی۔اب کے ڈرائیور نے بس ایک جانب کھڑی کی اور بس کے درمیان میں آ کر دائیں بائیں کی نشستوں پر قدم جما کر اوپر کو اٹھا اور چھت کے درمیان میں بنی ہو ئی کھڑکی کو بزور ”شمشیر“ اوپر کی طرف اٹھا دیا۔مطلب صاف ظاہر تھا کہ بس کا ائیرکنڈیشننگ کا نظام جواب دے چکا ہے اور اب صرف چھت سے آنے والی قلیل سی ہوا کے سوا اور کچھ بھی ممکن نہیں۔
ایسے میں اگر ہمارے ہاں کی کوئی بس ہوتی تو یقیناًڈرائیور اور مسافروں کے درمیان ”زبانی مغلظات“ کا اچھا بھلا زخیرہ وجود میں آ چکا ہوتامگر آفرین ہے ”گرے ہاؤنڈ “کے مسافروں پر کہ واشنگٹن آتے آتے”ریڈ ہاؤنڈ“ بلکہ اُبلاہوا آلو بن چکنے کے باوجود بھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے اور بس کے اسٹیشن پر رکتے ہی اپنا اپنا سامان اُٹھایا اور لال گُلال منہ کے ساتھ یہ جا وہ جا۔بس ٹرمینل پرمنتظر میرے میزبان ظہور ندیم نے بھی مجھے ہو چکے” حلیے “میں دیکھنے کے بعد میری طرف اِس لیے توجہ نہ کی میں ڈیڑھ گھنٹے کے بند ڈربے میں سفر کے بعد عمومی شناخت سے ”ماورا“ ہو چکا تھا۔ لہذا خود ہی آواز دے کر بلانا پڑا اور جتنا احوال بیان ہو سکتا تھا دو چار جملوں میں ادا کیا اور فوری طور پر کار پارکنگ کی راہ لی کہ جہاں ایک اور حادثہ ہمارا منتظر تھا۔ ہوا یوں کہ جونہی ندیم صاحب کی نئی گاڑی میں بیٹھ کر بس ٹرمینل کے اگلے اشارے سے اُس کے سبز ہونے پر بائیں مڑنے کی کوشش کی ایک خونخوار قسم کی ڈبل کیبن اُس جانب سے کار سے آ ٹکرائی کہ جس طرف میں ابھی ابھی بیٹھا تھا۔دھماکہ اتنی شدت کا تھا کہ بچ نکلنے کے امکانات بہت ہی کم تھے کیونکہ اِس ٹکراؤ کے نتیجے میں میری جانب کا دروازہ پچک کر اندر کی طرف گھس گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ ڈبل کیبن چلانے والی حسینہ اور اپنے ندیم صاحب دونوں کو میری خیریت کی فکر لا حق ہو گئی مگر میں بیلٹ باندھ کر بیٹھنے کی عادت کے سبب محض گردن کو پہنچنے والے جھٹکے کے علاوہ محفوظ ہی رہا۔
میرے لیے حیران کن دونوں ڈرائیوروں کا باہمی رویہ تھا کہ جو ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور دھینگا مشتی کرنے کی بجائے نہ صرف ایک دوسرے سے معافی کے طلب گار تھے بلکہ دونوں ہی حادثے کو اپنی اپنی غلطی قرار دے رہے تھے۔ندیم صاحب کا کہنا تھا کہ اشارہ سبز ہونے پر انہوں نے عجلت کا مظاہرہ کیا اور مہذب حسینہ کا موقف تھا کہ اشارہ سرخ ہونے پر وہ بروقت بریک نہ لگا سکی۔اتنی ”ہم آہنگی “اورپے درپے مسکراہٹوں کے تبادلے کے دوران دونوں نے ٹریفک پولیس کو فون کیا اور آپس میں ایک دوسرے کا رابطہ نمبر لیتے دیتے ، گپیں لگاتے پولیس والے کا انتظار کرنے لگے کہ انشورنس کلیم کی کاروائی مکمل ہو سکے۔ پولیس والا آیا مگر وہ ان دونوں سے بھی زیادہ ”ٹھنڈ پروگرام“ تھا۔ غصہ نہ گالم گلوچ نہ ہی تھانے چلنے کی دھمکی اور نہ ہی کوئی چائے پانی کا مطالبہ۔میرے پاس آ کر خیریت دریافت کی ، دونوں کو اپنا کارڈ تھمایا اور یہ جا وہ جا۔ ”زندگی کی راہ میں یوں ٹکرانے والے “صاحب اور بی بی بھی ایک دوسرے سے یوں رخصت ہوئے جیسے اتنی جلدی بچھڑنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا۔خاتون ڈرائیور نے بھی ایک بار پھر مجھ سے معذرت کی، نیک خواہشات کا اظہار کیا اور جب تک ہم روانہ نہیں ہوئے ، وہیں کھڑی ہاتھ ہلاتی رہی۔
مجھے جہاں اپنے محفوظ ومامون رہنے کی خوشی تھی وہاں اِس بات کا ”دکھ “بھی تھا کہ یہ کیسا ملک ہے کہ جہاں نہ تو کسی کو غصہ آتا ہے، نہ ہی مخالف کے کپڑے پھاڑنے کی خواہش اور نہ ہی اپنا قصور دوسرے کے سر تھوپنے کا سلیقہ۔امریکی خاتون نے تو مایوس کیا سو کیا مگر اپنے مہر ظہور ندیم سے ایسی توقع ہر گز نہیں تھی۔لگتا تھا کہ اِس پر بھی موئے امریکیوں نے سترہ برسوں میں” سفید“جادو کر دیا ہے۔تبھی تو اُردو کا پروفیسر ہوتے ہوئے بھی ”پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنے جیسا لہو گرم رکھنے کا بہانے“ جیسا سبق بھلا دیا۔خیر ”مایوسی“ کے اس عالم سے بہت جلدی نکل آنا پڑا کہ ہمارے اطراف وہ سبھی عمارتیں اور مقامات اپنی تمام تر دلکشی کے ساتھ موجود تھے کہ جن کے بارے میں سوائے ”خبر“ کے اور کوئی خبر نہیں ہوتی۔واشنگٹن شہر سے نکلے تو پینٹاگان کی عمارت اپنی مکمل ہیبت کے ساتھ موجود ۔اُس سے گزرے تو دونوں اطراف کی ہریالیوں میں اپنا راستہ ماپتے ہوئے پہلے سپرنگ فیلڈ اور پھر فریڈرکس برگ کے نواح میں ظہور ندیم کا گھر جہاں رات کے آٹھ بجنے کے باوجود سورج ابھی سوا نہیں تو پونے نیزے پر ضرور تھا۔
ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو بہاولپور سے آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات ہوئی کہ جن میں امریکہ میں ایک عرصہ سے مقیم ملک قاسم بھی اپنی فیملی کے ساتھ موجودپائے گئے۔نو بجے کے قریب ابھی سورج غروب ہونے کو تھا کہ ظہور ندیم نے مہمانوں کو کھانے کی میز پر ”چُن“ دیا کہ جہاں روایتی پاکستانی کھانے بھابھی نجمہ نے پہلے سے سجا رکھے تھے۔سو ہم نے سورج کو غروب کئے بغیر رات کا کھانا کھایا اور کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد خوبصورتی سے سنوارے گئے مہمان خانے میں چلے گئے۔اگلی صبح آٹھ بجے ناشتے کی میز پر بھی اس لیے حیرت سے دوچار ہونا پڑا کہ وہاں حلوہ، پوری اور چنے سمیت تمام تر ناشتہ روایتی سرائیکی اہتمام کے ساتھ موجود تھا۔یہ ناشتہ بازار سے نہیں منگایا گیا بلکہ بھابھی نجمہ نے اسٹور پرجانے سے پہلے خود ہی تیار کیا تھا ۔ سب سے بڑی خبرظہور ندیم کواُس رعایت کی تھی کہ وہ چاہیں تو گیارہ بجے کے بعد میرے ساتھ واشنگٹن ڈی سی جا سکتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ