خواجہ غلام فرید ؒ کے بعد سرائیکی وسیب میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں رفعت عباس، اقبال سوکڑی اور جہانگیر مخلص شامل ہیں۔ رفعت عباس کو پلاک (پنجابی انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج ) نے ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا کہ ایک سرائیکی شاعر پنجابی شاعر کے طور پر ایوارڈ نہیں لے سکتا۔ جہانگیر مخلص کو ایوارڈ ملاتو انہوں نے اپنے وسیب کے عمومی رجحان اور لوگوں کے احتجاج پر ایوارڈ اور اس کے ساتھ ملنے والی رقم پلاک کو واپس کر دی۔مجھے یاد ہے کہ جہانگیر مخلص کے ساتھ وسیب کے سوشل میڈیا مجاہدین نے کیا سلوک کیا۔ اب چار اپریل کو پلاک نے سرائیکی کے عہد ساز شاعر اقبال سوکڑی کے ساتھ پلاک میں ایک شام منانے کا اعلان کیا تو پھر ایک طوفان اٹھا۔ گالیوں ، طعنوں، ناروا باتوں کی اندھیری چلی۔ اس شور و غل میں محمود مہے مودی نے اپنے جذبات کو لفظوں کی شکل دی تو انجینئر شاہنواز خان مشوانی کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی کہ سرائیکی وسیب کے اہلِ دانش اور سرگرم سیاسی رہنماؤں پر مشتمل سات رکنی کمیٹی بنائی جائے جو پلاک کے مسئلہ پر حتمی فیصلہ کرے۔ارشاد امین پچھلے ہفتہ بھر سے مصر تھے کہ اقبال سوکڑی کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی جائے۔ چند تحفظات ان کے سامنے رکھے، جواب ملا یار تم وسیبی شاعر کے آدر میں وہاں آجاؤ۔ اقبال سوکڑی کی زیارت اور کلام شاعر خود شاعر کی زبان سے سننے کے لیے چار اپریل کی شام ہم بھی وہاں موجود تھے۔تقریب کے آغاز کے ساتھ ہی افضل عاجز نے جو کہ نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے ، اعلان کیا کہ مہمان شاعر کے حوالے سے منصور آفاق، ارشاد امین اور یہ تحریر نویس گفتگو کریں گے۔ میں نے حیرانی کے ساتھ سٹیج پر موجود افضل عاجز کی طرف دیکھا تو انہوں نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔تقریب کے آغاز پر پلاک کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے خیر مقدمی کلمات کے ساتھ رفعت عباس اور جہانگیر مخلص والے معاملات کا بھی ذکر کیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ یہ درست ہے کہ پلاک پنجابی زبان کے فروغ کے لیے قائم ادارہ ہے۔ سرائیکی کے ساتھ پوٹھواری کی باتیں انہوں نے اس انداز میں کیں کہ اپنی بات کہہ بھی دی اور تاثر یہ بن گیا جیسے وہ سرائیکی اور پوٹھواری کو پنجابی سے الگ دو زبانیں سمجھتی ہیں۔ارشاد امین نے اقبال سوکڑی کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان باتوں کا بھی ذکر کیا جو پچھلے چند دنوں سے ہو رہی تھیں۔ افضل عاجز اور منصور آفاق بھی ان سے متفق تھے۔ اور ان تینوں کا مؤقف یہ تھا کہ پلاک کے ایکٹ میں ترمیم کر کے زبان کی بجائے زبانیں لکھا جانا چاہیے یعنی کہ ’’پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئجز‘‘ (میری دانست میں اس سے زیادہ مناسب یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے اہل دانش ، سیاسی کارکن اور دوسرے طبقات اپنے نمائندوں کو اس امر پر آمادہ کریں کہ وہ پنجاب حکومت کے ذریعے پلاک کی طرز کا ایک الگ سرائیکی ادارہ قائم کروائیں۔)ڈاکٹر صغریٰ صدف اور ارشاد امین کے بعد مجھے گفتگو کے لیے بلایا گیا تو عرض کیاتالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر ہمارے یہاں پلاک کے حوالے سے تحفظات اور منفی جذبات ہیں تو خود وسطی پنجاب میں سرائیکی وسیب کی تاریخ اور دانش کی منہ بھر کے توہین کرنے والے بھی ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔ خود ڈاکٹر صاحبہ ابھی یہ اعتراف کر چکی ہیں کہ آج کی تقریب کے حوالے سے طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے ساٹھ سے زائد افراد کو سوشل میڈیا پر اپنے اکاؤنٹ سے بلاک کر چکی ہیں۔ ہمیں ٹھنڈے دل کے ساتھ ساری صورتحال کا جائزہ لینے اور حل تلاش کرنے پر غور کرنا ہوگا۔جس بنیادی بات کو نظر انداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ پلاک اس سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ سرائیکی پنجابی کا کوئی ایک لہجہ ہے۔میری دانست میں یہ دو لہجوں کے زبان ہونے کے جھگڑے سے زیادہ دو الگ قومی شناختوں کا معاملہ ہے۔ ہم سرائیکی اپنی تاریخ کے معلوم پانچ سے سات ہزار سال کے وارث ہیں۔ ہاکڑہ تہذیب سے آج تک کے سفر میں سرائیکی وسیب کا ایک حصہ ملتان رنجیت سنگھ کے دور میں فتح ہوا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو لارڈ کرزن نے 1920ء میں نو تشکیل شدہ صوبے صوبہ سرحد میں شامل کر دیا۔ تیسرا حصہ ریاست بہاولپور رضا کارانہ طور پر 1947ء میں پاکستان میں شامل ہوا۔سرائیکی خطے میں پچھلے چالیس برسوں سے قومی شناخت کی بحالی صوبے کے قیام اور فیڈریشن میں قومی اکائی کے طور پر دستوری حیثیت کے حصول کے لیے جدوجہد جاری ہے۔پلاک سے رابطہ رکھنے اور دیگر معاملات پر سرائیکی وسیب میں مکالمہ جاری ہے۔ سات رکنی کمیٹی بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ مگر فی الوقت ہمیں زمینی حقائق کا کھلے دل سے احترام کرتے ہوئے نفرتوں کے بیج بونے کی بجائے باہمی تعاون ، محبت اور روابط کو فروغ دینا ہوگا تاکہ مستقبل میں اچھے پڑوسیوں کی طرح رہ سکیں۔بہت ضروری ہے کہ ہم پر لہجے کی پھبتی نہ کسی جائے۔ پنجابی اہل دانش کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے ہاں موجود دولے شاہ کے چوہوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں ۔پلاک کے ایکٹ میں ترمیم کے لیے حکومت سے بات چیت کے ساتھ ساتھ سرائیکی اپنا دو ٹوک مطالبہ بھی سامنے رکھیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف سرائیکی لینگوئج قائم کیا جائے۔یہ سطور تحریر کرتے ہوئے بھی صاف سیدھی رائے یہی ہے کہ ایک ادارہ جو ایک زبان اور تہذیب و کلچر کے فروغ کے لیے قائم ہوا ہے کیسے صوبے کی دوسری بڑی زبان سرائیکی کے ساتھ انصاف کر پائے گا۔ثانیاََ یہ کہ کیا پلاک بطور ادارہ یہ ڈیکلریشن جاری کرنے کی پوزیشن میں ہے کہ وہ سرائیکی کی الگ زبان اور قومی شناخت کی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔محترمہ صغریٰ صدف نے گو دوسرے پنجابی اہل دانش کی طرح سرائیکی کو پنجابی کا لہجہ نہیں کہا مگر الفاظ کے چناؤ میں انہوں نے بہرطور یہ احتیاط ضرور کی کہ ان کے الفاظ سے یہ مطلب نہ نکلے کہ وہ سرائیکی کو الگ زبان سمجھتی ہیں۔پلاک کا مکمل بائیکاٹ یا صوبائی حکومت کا ادارہ سمجھ کر روابط رکھنے کا فیصلہ ہونے تک دو باتیں بہرطور مدنظر رکھی جانی چاہییں۔ اولاََ یہ کہ اگر پلاک میں کسی سرائیکی شاعر اور دانشور کے ساتھ تقریب کا اہتما م ہوتا ہے تو وہاں ہمیں اپنی بات لگی لپٹی کے بغیر کرنی چاہیے۔ ثانیاََ یہ کہ صوبائی حکومت پر اپنے حقوق کے لیے دباؤ بڑھانے کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے متحد ہو کر جدوجہد اس کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔(بشکریہ: روزنامہ جہانِ پاکستان )
فیس بک کمینٹ