امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو بغداد میں لاکھوں افراد اُن کے جنازے میں شریک ہوئے اور اس جنازے کی شان دیکھ کر ہزاروں غیرمسلموں نے اسلام قبول کر لیا۔ تین نومبر کو اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق صاحب کے جنازے میں شریک متعدد علماء نے مجھے امام احمد بن حنبلؒ کا قول یاد دلایا اور کہا کہ یہ جنازہ دیکھ لیں اور مولانا سمیع الحق کی حقانیت کا فیصلہ کر لیں۔ اس بہت بڑے جنازے میں شریک اکثر لوگوں کو مولانا سمیع الحق کی سیاست سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ ایک عالم دین کو اس دُنیا سے رخصت کرنے آئے تھے جسے جمعہ کے دن عصر کے وقت شہید کیا گیا۔ شہید کرنے والوں نے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا جب پورے ملک میں توہین رسالتؐ کے مسئلے پر بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور خود مولانا سمیع الحق بھی شہادت سے کچھ دیر پہلے اپنی زندگی کی آخری تقریر میں اس مسئلے پر بہت بے چین نظر آئے لیکن اُن کا جنازہ بے چینی میں اضافے کے بجائے بے چینی ختم کرنے کا ذریعہ بنا۔ مولانا صاحب کی شہادت پر طرح طرح کے تبصرے کئے گئے۔ کسی نے کہا ’’فادر آف طالبان‘‘ دنیا سے چلے گئے۔ کسی نے کہا کہ اُن کا دینی مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ’’نرسری آف جہاد‘‘ تھی اور کچھ خواتین و حضرات کو یہ بھی اچھا نہ لگا کہ مولانا صاحب کو شہید کیوں کہا جا رہا ہے اور یہی وہ انتہا پسندانہ رویہ ہے جو روز بروز ہمیں تقسیم کرتا جا رہا ہے۔ میں جس مولانا سمیع الحق کو جانتا ہوں وہ ہمیشہ مسکرا کر اختلاف رائے برداشت کرنے والے انسان تھے۔ میری اُن کے ساتھ پہلی ملاقات 1988ءمیں روزنامہ جنگ لاہور کے ایک سینئر ساتھی جاوید جمال ڈسکوی مرحوم کے ذریعہ ہوئی تھی۔ اُس زمانے میں مولانا سمیع الحق کو جنرل ضیاء الحق کا اتحادی سمجھا جاتا تھا اور میں اُس زمانے کی فوجی حکومت کا شدید مخالف تھا لیکن اس کے باوجود مولانا کے ساتھ ایک ایسا ذاتی تعلق قائم ہو گیا جو اُن کی زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہا اور مجھے یہ اعتراف ہے کہ اس تعلق کو نبھانے میں مولانا صاحب کا کردار زیادہ تھا۔
وہ ہر مشکل وقت میں میرے بلائے بغیر خود ہی میرے ساتھ آ کھڑے ہوتے اور پھر میری وجہ سے جس دباؤ کا سامنا کرتے اُس کا کبھی ذکر تک نہ کرتے۔ کچھ سال پہلے سوات میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ میں نے اس حملے کی مذمت کی تو اس کالعدم تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میرے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ پھر میری گاڑی کے نیچے بم نصب کیا گیا اور احسان اللہ احسان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانا سمیع الحق خود چل کر اسلام آباد آئے اور مجھے کہا بتاؤ کس کے خلاف کیا کہنا ہے، میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ جب مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اُن پر دباؤ ڈالا گیا کہ میری اور جیو ٹی وی کی مخالفت کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ ’’مجاہدین اسلام‘‘ نے ہمارے خلاف غداری اور کفر کے فتوے لگائے اور ہمارے پتلے بھی جلائے لیکن مولانا صاحب نے کوئی فرمائشی فتویٰ دینے سے انکار کر دیا۔ 2016ءمیں کچھ طاقتور لوگوں نے توہین رسالتؐ کے جھوٹے الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ میں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ایک کالم لکھا تو اس میں سے توہین رسالتؐ کا پہلو تلاش کر کے مجھے ایک مقدمے میں الجھا دیا گیا۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر مولانا سمیع الحق میری مدد کو آئے اور انہوں نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے میرے حق میں ایک تفصیلی فتویٰ جاری کرایا جس میں کہا گیا کہ بغیر تحقیق کے کسی کے خلاف فتویٰ دینا یا رائے قائم کرنا گناہ ہے۔ میرے حق میں جامعہ اشرفیہ لاہور اور جامعہ نعیمیہ لاہور سمیت کچھ دیگر مدارس سے بھی فتوے جاری ہوئے لیکن دارالعلوم حقانیہ سے مفتی مختار اللہ حقانی کا جاری کردہ فتویٰ بہت تفصیلی اور جامع تھا اور جب کچھ بااثر لوگوں نے مولانا سمیع الحق سے میری حمایت پر ناراضی کا اظہار کیا تو اُنہوں نے اس ناراضی کو اپنی مسکراہٹ میں اڑا دیا۔ خود مولانا سمیع الحق کو بھی اپنی زندگی میں متعدد بار جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا ہی ایک الزام اُن پر 1991ءمیں لگایا گیا تھا جس کا ذکر جناب عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ مولانا پر سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے ایک بدنام عورت اُن کے خلاف کھڑی کر دی گئی لیکن وہ کچھ بھی ثابت نہ کر سکی۔ مولانا صاحب سیاست کے میدان میں کمزور رہے۔ بڑی بڑی جماعتیں مولانا کو اسلام کا نام لے کر استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ کچھ سالوں سے مولانا سمیع الحق کی زیادہ توجہ تصنیف و تالیف اور تحقیق کی طرف تھی۔ 2015ءمیں اُنہوں نے دس جلدوں میں ’’خطبات مشاہیر‘‘ کو شائع کیا جس میں منبر حقانیہ سے کئے گئے اہم شخصیات کے بیانات اور ’’الحق‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو موضوعات کی ترتیب سے اکٹھا کر دیا گیا۔
’’خطباتِ مشاہیر‘‘ کی جلد اوّل میں انہوں نے دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی کی ایک تقریر شامل کی ہے جس میں دین اور شعائر دین کا احترام بیان کیا گیا اور کہا گیا کہ علماء کو ایک دوسرے کی بے ادبی اور تذلیل نہیں کرنا چاہئے۔ کئی معاملات میں امام شافعیؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے اختلاف کیا لیکن کہیں بھی بے ادبی کا شائبہ نہیں آنے دیا۔ ایک دفعہ مولانا قاسم نانوتوی نے دہلی کی لال کنویں والی مسجد کے امام کے پیچھے صبح کی نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ اُن کی قرأت بہت اچھی تھی۔ مولانا محمود الحسن صاحب نے نانوتوی صاحب کو بتایا کہ وہ امام تو آپ کی تکفیر کرتا ہے لیکن نانوتوی صاحب اگلی صبح اپنے شاگردوں کے ہمراہ نماز پڑھنے لال کنویں والی مسجد جا پہنچے۔ نماز ختم ہوئی اور مسجد کے امام کو پتہ چلا کہ اُن کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمود الحسن بھی شامل تھے تو بڑا شرمندہ ہوا اور اُن سے مصافحہ کر کے شرمندگی کا اظہار کرنے لگا۔ نانوتوی صاحب نے اُس کی وہ غلط فہمی دور کی جس کی وجہ سے وہ ان کی تکفیر کرتا تھا اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی توہین پر تکفیر واجب ہے لیکن توہین کی درست تحقیق بھی واجب ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے 2016ءمیں اپنی ڈائری شائع کی تھی۔ یہ ڈائری اُن صاحبان کو ضرور پڑھ لینی چاہئے جو مولانا کو ’’فادر آف طالبان‘‘ کہتے ہیں۔ مولانا کے والد محترم مولانا عبدالحق صاحب نے ایک درویش حاجی صاحب ترنگزئیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ خان عبدالغفار خان (باچا خان) بھی ترنگزئی ؒصاحب کے پیروکار تھے اور مولانا سمیع الحق نے اپنی ڈائری میں باچا خان کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو شامل کی ہے جو 1958ءمیں حاجی صاحب ترنگزئیؒ کی مسلح تحریک کے بارے میں ہوئی جس کا مقصد برصغیر سے انگریزوں کو بھگانا تھا۔ اس ڈائری میں کہیں ولی خان کی دارالعلوم حقانیہ میں آمد کا ذکر ہے کہیں اجمل خٹک کی باتیں ہیں، کہیں ہری پور جیل میں مولانا مفتی محمود کے ساتھ گزرے ایام اسیری کی یادیں ہیں کہیں لاہور میں داتا گنج بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مولانا بہاء الحق قاسمی سے ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ اس ڈائری میں امام احمد بن حنبلؒ کی شان میں اشعار بھی نظر آتے ہیں اور میر پور (بنگلہ دیش) میں حضرت شاہ علی بغدادیؒ کے مزار کی زیارت کا بھی ذکر ہے۔ مولانا صاحب نے افغان طالبان کے بارے میں ایک کتاب انگریزی میں بھی شائع کی اور بتایا کہ بہت سے افغان طالبان اُن کے مدرسے کے سابق طلبہ ہیں لیکن وہ اپنے مدرسے کے پاکستانی طلبہ کو افغانستان لڑنے کے لئے نہیں بھیجتے۔ مولانا سمیع الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر جمہوری جدوجہد کی تلقین کی۔ وہ پاکستانی ریاست کے خلاف شورش اور مسلح جدوجہد کے قائل نہ تھے۔ جب صوبہ خیبر پختونخوا میں کچھ انتہا پسندوں نے پولیو ورکرز کے خلاف حملے شروع کئے تو مولانا سمیع الحق اور مولانا ڈاکٹر علی شیر علی شاہ نے پولیو ویکسین کے حق میں فتویٰ دیا۔ مولانا نے اپنے ایک شاگرد محمد اسرار مدنی کے ذریعہ انٹرنیشنل اسلامک فقہ اکیڈمی جدہ کی شائع کردہ کتاب کا اُردو ترجمہ ’’جدید فقہی فیصلے‘‘ کے نام سے شائع کرایا اور اس کا دیباچہ لکھا جس میں اس کتاب کو تمام دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنے پر زور دیا۔ اس کتاب میں جدید دور کے اہم مسائل کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ مولانا کا دیباچہ اُن کے خلوص اور اسلام سے اُن کی گہری وابستگی کا آئینہ دار ہے اور اُن کا یہی خلوص تھا جو مجھ جیسے دنیا دار اور گناہ گار انسان کو اُن کے جنازے میں لے گیا، وہ جنازہ جس نے امام احمد بن حنبلؒ کے اس قول کو سچا ثابت کیا کہ ہمارے جنازے ہماری حقانیت کا فیصلہ کریں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ