وزیراعظم عمران خان ملکی معیشت کی زبوں حالی پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں ۔ اس فکرمیں انہوں نے اپنے انتخابات سے قبل کے دعوے بھی نظر انداز کر دیے۔پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی آ رہی ہے جو سال کے آغاز میں 42 فیصد تھے مگر اب کم ہو کر صرف 8 بلین ڈالر بن گئے ہیں۔ جن سے بمشکل دو ماہ درآمدات کی ادائیگی ہوسکتی ہے۔
یکم نومبر کو وزیراعظم عمران خان چین کے پہلے سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے ۔ اس دورے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر ریلوے شیخ رشید، وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار، وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤد اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال بھی ان کے ہمراہ تھے ۔وزیراعظم عمران خان نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی یہ ملاقات چین کے ’گریٹ ہال‘ میں ہوئی جس میں دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں پاک چین اقتصادی راہداری سمیت دو طرفہ تعلقات مضبوط کرنے کے امور پر بھی بات ہوئی۔چین نے پاکستانی معیشت کو درپیش مشکل اقتصادی صورتحال سے نکلنے میں مدد دینے اور حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔چین کے دورے کے دوران پندرہ مختلف معاہدوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ اور سی پیک منصوبے میں کوئی ردوبدل نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ۔اتوار کے روز وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ میں سینٹرل پارٹی سکول کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر اعظم نے سی پیک کو پاکستان کیلئے انتہائی اہم قرار دیا۔اور کہا ریاستی اداروں کو مضبوط کرنا تحریک انصاف کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔اداروں کو بہتر بنا کر ہی بدعنوانی کا خاتمہ اور ترقی کی منزل حاصل کرسکتے ہیں۔وائٹ کالر کرائم سے نمٹنے کے لئے چین کے تجربات سے استفادہ کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چین کے تجربات سے استفادہ کر نے کا مطالبہ خوش آئند ہے ۔ چین نے اپنے بل بوتے پر ترقی کرکے دنیا میں خود کو مضبوط کیا ہے ۔ چین میںہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرتا ہے اس حوالے سے چین نے مشکل فیصلے بھی لیے جیسا کہ اگست کے شروع میں چینی صدر شی جن پنگ نے فوج میں کلین اپ کا اعلان کرتے ہوئے فوجی افسروں کو اپنی کاروباری سرگرمیاں ترک کرکے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پرتوجہ دینے کا حکم دےدیاتھا۔ رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ، اسکول، پبلشنگ سروسز اورکئی کرائے کے کارروبار چلانے کے بجائے افسران جنگی تیاریوں پر توجہ دیں جو ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ صدر شی کے نئے احکامات فوج میں کرپشن ختم کرنے کی مہم کاحصہ ہے جس کا آغاز 3 سال پہلے ہواتھا۔دراصل چینی صدر فوج کو عالمی معیار کی لڑاکا فورس بنانا چاہتے ہیں۔چینی فوج نے70کی دہائی میں فنڈز کی قلت کے باعث کمرشل سرگرمیاں شروع کی تھیں،1998میں چند ایک کے سوا زیادہ ترکمرشل سرگرمیوں پر پابندی لگائی گئی تھی۔چینی صدر نے یہ بڑا فیصلہ لیا اس طرح کے فیصلے چین کی ترقی کا سبب بنا ہے اس لیے اگر وزیر اعظم عمران خان بھی چین سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو اس طرح کے بڑے فیصلے لینا ہونگے ۔یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ ایسا کر سکیں گے یا نہیں ۔
فیس بک کمینٹ