قدیم عربوں کی باتوں میں مسحورکن قسم کی گہرائی اور دانائی ہوتی تھی عام گفتگو میں بھی جیسے محاورے پروئے ہوئے ہوں۔عرب عموماً سلام دعا کے ساتھ ’’لمبی عمر‘‘ کی دعا کا اضافہ بھی کر دیتے ہیں جو مجھے بہت اچھا لگا تو تقریباً تکیہ کلام بنا لیا۔ایک بار کسی بوڑھے بدو کو ’’اے لمبی عمر والے‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تو ہنس کر بولا ’’تم ابھی نوجوان ہو اور نہیں جانتے کہ یہ دعا کے پردے میں پوشیدہ بددعا ہے۔کیا تم کو اس بات کا احساس ہے کہ لمبی عمر تو ہر کوئی چاہتا ہے لیکن بڑھاپا کسی کو پسند نہیں لیکن میری یہ بات تمہیں ابھی نہیں تیس چالیس سال بعد سمجھ آئے گی‘‘یہ 1980ءکی بات ہے جو 2018ءمیں قدم قدم پہ یاد آتی ہے ۔جس نے چھلانگ لگانے سے پہلے کبھی نہ سوچا تھا، آج قدم اٹھانے سے پہلے بھی سوچتا ہے کہ یہی زندگی ہے ۔ہم جیسے معاشروں کاتو حال ہی کیا جہاں بیشتر کو ڈھنگ کی خوراک ہی نصیب نہیں ۔نہ غذا خالص نہ دوا لیکن جن برکتوں والے معاشروں میں دونوں کے صحت بخش اور خالص ہونے کی گارنٹی ہے ……بڑھاپے سے وہ بھی چالو اور پناہ مانگتے ہیں ۔بڑھاپے سےبیزاری کے یہ دو دلچسپ نمونے ملاحظہ فرمائیں۔”Age Occurs when you find yourself using one bend- over to pic up two things”اسی سے ملتا جلتا اک اور تحفہ”you are getting older when, while trying your shoelace, you ask yourself the question: what else can i do while i am down here”بڑھاپے کی اک اور اذیت یہ ہے کہ اپنوں کو اپنے سامنے اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنا پڑتا ہے ۔عمر ذرا طول پکڑ جائے تو سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوست بچھڑتے جاتے ہیں اور انسان اک ناقابل بیان قسم کی تنہائی میں ڈوبتا گم ہوتا چلا جاتا ہے ۔پچھلے دنوں مسعود داڑھو اور ایک کزن جاوید بھائی جو کزن کم دوست زیادہ تھے، رخصت ہوئے لیکن ابھی تک یقین نہیں آ رہا ۔باربار سوچتا ہوں کہ کیا وہ واقعی اب کبھی نہیں ملیں گے،کبھی نہیں آئیں گے، کبھی دکھائی نہ دیں گے۔شام کے ڈیڑھ دو گھنٹے دوستوں، ملاقاتیوں کا ہجوم ہوتا ہے بیسمنٹ کی سیڑھیوں پر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دے تو سوچتا ہوں داڑھو، مقبول، میاں اشرف ، اعجاز بائی گاڈ، طارق جان، ارشد چودھری، ایاز یا پیجی وغیرہ میں سے تو کوئی نہیں آ گیا ۔’’اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا‘‘بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کہ’’دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی ‘‘مخصوص لوگوں کی کمی مخصوص لوگوں سے ہی دور ہو سکتی ہے۔خوب ترین لوگوں کا ہجوم بھی کچھ لوگوں کی کمی دور نہیں کر سکتا۔مجھ سے بڑی غلطی ہوئی ۔سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں سے ہی ’’ہاؤس فل‘‘ کی سی کیفیت رہی ۔عملی زندگی میں بہت کم دوست بنائے ۔نتیجہ ؟؟؟جوں جوں عمر بڑھتی جا رہی ہے، ہم عمر گھٹتے جا رہے ہیں، مخصوص قسم کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔’’تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘کمال سا زوال ہے کہ میرے ارد گرد جتنی رونق بڑھتی جا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ تنہائی بڑھتی جا رہی ہے ۔یہ بھی بڑھاپے ہی کے اثرات ہیں کہ بات کہاں سے شروع کی اور کہاں جا نکلا لیکن اک اچھی بات یہ کہ اس عمر میں ایسی باتوں پر چھوٹ مل جایا کرتی ہے ۔کسی سنگدل گورے نے بڑی سچائی اور سفاکی سے کہیں لکھا تھا کہ جب کوئی آپ سے یہ کہے کہ ’’چشم بددورآپ بہت جوان جوان دکھائی دے رہے ہیں تو دراصل وہ خبیث انتہائی مہذب طریقے سے آپ کو یاد دلا رہا ہوتا ہے کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ‘‘اک چینی محاورے کا انگریزی ترجمہ”The women who tells her age is either too young to have anything to lose or too old to have anything to gain”Petter weissکہتا ہے’’کسی بھی عورت کی زندگی کے وہ ’’دس سال‘‘ انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں جب وہ اپنی عمر کے 29ویں تا 30ویں سال کے درمیان ہوتی ہے ‘‘یہ جملہ بھی جہان معنی سے کم نہیں کہ بڑھاپے کا ایک ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ اگر آپ ایک رات گھر سے باہر گزاریں اور پھر آپ کو کئی راتیں گھر کے اندر ٹکنا پڑے تو سمجھ لیں آپ بڑھاپے کی لپیٹ میں آ چکے ہیں …………’’لوکی کہندے چُک..وچوں گئی اے مُک‘‘خود کو تسلی دینے کیلئے یہ دو جملے تیر بہدف ہو سکتے ہیں۔”Forty is the old age of youth and fifty is the youth of old age”Bernard barucnنے تو یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی ہے۔”To me old age is always fifteen years older than i amاور میرے نزدیک بڑھاپا یہ ہے کہ آنے والے کسی بھی کل کیلئے آپ کے پاس کوئی پلان نہ ہو اور یہ ’’حادثہ‘‘ تیس چالیس کیا بیس سال کی عمر میں بھی ہو سکتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ