اگر آپ انٹرنیٹ پر مافیا یا سیسیلین سے متعلق معلومات ڈھونڈنا چاہیں تو آپ کو ہزاروں صفحات پر مشتمل مواد مل جائے گا، یہ داستان جہاں ناقابلِ یقین ہے وہیں نہایت سبق آموز بھی ہے، اگر آپ ذرا گہرائی میں جاکر اس سب کو دیکھیں تو یہ آپ کے دنیا کی موجودہ معاشیات، سیاست اور حکومتوں کے کام کرنے کے طریقوں سے متعلق رائے کو یکسر بدل دیں گی..
سیسیلین مافیا کی ٹرم ہمارے یہاں اس وقت مشہور ہوئی کہ جب اس کو میاں نواز شریف کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ججز نے استعمال کیا، سیسیلین مافیا نے اٹلی کے ایک جزیرے سسلی میں جنم لیا اور امریکہ تک پھیل گیا، شروع میں ان کے بنیادی کام بڑے بڑے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا، اغوا، قتل، پروسٹیٹیوشن، ڈرگز اور مختلف جرائم پیشہ گروہوں کے درمیان مصالحت اور انکی باہمی شراکت قائم کرانا جیسے کام تھے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ سسلی جزیرے پر سے اٹلی کی عملداری کم ہوتے ہوتے تقریبا ًختم ہوگئی، پولیس تو اٹالین تھی لیکن وہ حکم سیسیلین مافیا کا مانتی تھی، جو جج انکے خلاف فیصلہ دیتا وہ بم دھماکے میں مارا جاتا کوئی گواہ اگر گواہی دینے کی کوشش کرتا تھا تو اسکو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا، جیسے جیسے یہ مافیا منظم ہوتا گیا اسکا دائرہ کار بھی بڑھتا گیا، اس کا پورا انتظامی ڈھانچہ موجود تھا جس کی تفصیلات آپ با آسانی پڑھ سکتے ہیں اس ڈھانچے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ "باس” تک کسی کی رسائی نہ تھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ "سب سے بڑے صاحب” کون ہیں سوائے اس کے کہ جس سے صاحب کا رابطہ ہوتا تھا، سارا کام کیپٹنز کیا کرتے تھے، سیسیلین مافیا کی سب سے اہم بات رازداری کا پاس کرنا تھا مقدس کاغذ پر ہر کارکن کے خون کا قطرہ ٹپکا کر اس کاغذ کو آگ دکھائی جاتی اور اس جلتے ہوئے کاغذ کو ہاتھ میں لے کا حلف لینا ہوتا تھا کہ میں ہمیشہ مافیا کا وفادار رہوں گا اور جان پر کھیل کر مافیا کے رازوں کی حفاطت کروں گا۔
اگر آپ تفصیل سے سیسیلین مافیا کے بارے میں پڑھیں تو یہ تو واضح ہے کہ جو ترقی اس مافیا کے ارکان نے امریکہ میں حاصل کی وہ یورپ میں نہ ہو سکی تھی امریکہ میں اس کو نئی جہت ملی اس کے انتظامی ڈھانچے بنائے گئے اس کو مز ید منظم کیا گیا، جان ایف کنیڈی اور اس کے امریکی صدارتی امیدوار بھائی کی موت بھی مافیا کے خلاف جنگ میں ہوئی.. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مافیا مضبوط ہوتا گیا اور ساتھ ہی شکلیں بدلتا رہا، ہر نئی شکل نے مافیا کے پاس پہلے سے موجود روپے پیسے کو کئی گناہ بڑھایا، مافیا کے تین بڑے اہداف تھے سب سے پہلا اسکے موجودہ نیٹ ورک اور رازوں کی حفاظت، اس کے کام کے دائرہ کار میں اضافہ، اور جرائم کے نت نئے طریقوں کی کھوج تھے، ایک اندازے کے مطابق سن 1990 تک امریکہ میں ڈیڑھ سو (150) مختلف طرح کی نشہ آور اشیا (Drugs) عوام میں مشہور تھیں کہ جن کی تعداد صرف پانچ سالوں میں دو گنا ہوگئی تھی، اسی طرح سن 1990 تک ہر روز صرف انڈیا اور پاکستان سے تقریباً پندرہ سو (1500) نوجوان لڑکیاں اور تین سو سے زائد دس سال سے کم عمر بچے اغوا ہو کر دبئی پہنچتے تھے جو وہاں سے سعودی عرب سمیت دوسری ریاستوں کو بیچے جاتے، جہاں لڑکیاں عموماً جسم فروشی اور بچے جسم فروشی کے ساتھ ساتھ عرب ریاستوں میں اونٹ ریس کے لیے خریدے جاتے، جبکہ سن 1995 تک یہی تعداد پانچ ہزار روزانہ تک پہنچ گئی…. آج یہ کام اس سے کئی گنا بڑے سکیل پر ہو رہا ہے لیکن فگرز ملنا نہایت مشکل ہوتا جا رہا ہے اور آج اس نے شکل بھی بدل لی ہے مثلاً پاکستان میں چھوٹے بچوں کے اغوا میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے سیانے کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے "بلیک ویب” یا "ڈرک ویب” ہے یعنی فحش فلموں کا کاروبار… کہتے ہیں کہ اس مارکیٹ میں اس وقت نابالغ بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی کارروائی پر مبنی فلموں کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔۔۔
مافیا نے جب دیکھا کہ یورپی حکومتوں میں انکے خلاف ایکا ہوتا جا رہا ہے اور بہت سی دوسری حکومتیں اطالوی حکومت سے تعاون کرتی ہیں تو مافیا نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا، مافیا کے لوگوں کو حکومتی اداروں میں بھرتی کرایا گیا، جس سے آسانی یہ ہوئی کہ حکومتی اداروں کی مافیا کے خلاف کارروائیوں سے پہلے ہی مافیا کو اطلاعات مل جاتی تھیں کہا جاتا ہے کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کی فوج میں مافیا کے لوگ موجود تھے جن کو امریکی مافیا کی حمایت اور مدد حاصل تھی، جب وہ افغانستان پہنچے تو وہاں پر موجود پوست کو دیکھ کر حیران رہ گئے اور ایک پورا نیٹ ورک بنایا گیا کہ جس کے ذریعے پوست کو افغانستان سے سسلی پہنچایا جاتا اور وہاں سے مافیا کے لوگ اسکو اپنے امریکی کزنز کو بھیج دیتے جہاں سے وہ پوری دنیا میں پھیل جاتا ساوتھ امریکہ میں مافیا کا بڑا مرکز برازیل تھا، برازیلین مافیا نے براعظم ساوتھ امریکہ میں ایک نئے طریقے پر کام کیا وہ تھا فٹ بال کے کھیل پر اپنا قبضہ، کہا جاتا ہے کہ 1980کی دہائی کے آوخر میں اور 1990 کے اوائل میں برازیل، یورو گوئے، پیراگوئے کا شاید ہی کوئی معروف فٹبال کلب ہوگا کہ جو بالواسطہ یا بلا واسطہ مافیا سے منسلک نہیں تھا، اور اس نئی جہت کے سامنے آنے کے بعد امریکی مافیا نے فیفا پر قبضہ جمایا اور پیسے کمانے کا ایک انتہائی صاف ستھرا طریقہ مافیا کے ہاتھ آیا، کھیلوں کے ایکسپرٹس کہتے ہیں کہ 1990 سے لیکر آج تک جتنے بھی کھیل کی دنیا کے بڑے ایونٹس ہوئے سب کے سب مشکوک ہیں چاہے وہ فٹبال اور کرکٹ ورلڈ کپس ہوں، اولمپکس ہوں، یا کچھ اور کیونکہ مافیا نے 1990 سے کھیل کے ایونٹس فکس کرنے شروع کر دئیے تھے۔
اس ماڈل کی شاندار کامیابی کے بعد مافیا نے تفریح کے ذرائع پر بھی اپنا قبضہ جمانا شروع کیا سب سے پہلے دنیا کے بڑی فلم انڈسٹریز پر قبضہ کیا گیا، ہالی وڈ تو خیر ہالی وڈ تھا، لیکن بالی وڈ میں انڈر ورلڈ کی موجودگی کی اطلاع کئی بار سامنے آئیں، کئی بڑے اداکاروں اور بڑے فلمز ڈائریکٹرز کے انڈر ورلڈ سے تعلقات کی خبریں وقتاً فوقتاً آتی رہیں، مافیا نے ہر طرح کی تفریحی سرگرمیوں میں اپنا اثر رسوخ جمانا شروع کیا مثال کے طور پر فرانس میں مافیا نے صرف ایک طرح اپریٹ کیا کہ فرانس میں بڑی تعداد میں سیسیلین مافیا کے لوگوں نے ریسٹورنٹ انڈسٹری میں انوسٹ کیا اور صرف پیرس میں سال 1993 میں تین ہزار اٹالین ریسٹورنٹس کھلے اور اٹالین فوڈ پوری دنیا میں مشہور ہوگیا، آج ہم اپنے ملک کے بڑے شہروں پر اگر نظر دوڑائیں تو ہمیں درجنوں اس طرح کے ریسٹورنٹس ملیں گے کہ جن پر کروڑوں روپے کا خرچ کیا گیا ہوگا، لیکن وہاں پر کسٹمرز کی تعداد دیکھ کر آپ یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ اتنے کم کسٹمرز کے ساتھ یہ کیسے اپنے خرچے پورے کرتا ہوگا؟؟ اس کے بارے میں صائب الرائے لوگوں کی رائے یہی ہے کہ یہ ریسٹورنٹس دراصل کسی اور بزنس کا فرنٹ فیس ہیں اور یہ ریسٹورنٹس کسی سیٹھ کی کسی اور کمائی کو وائٹ کرنے کا طریقہ ہے، یہ طریقہ دنیا کو سیسیلین مافیا نے سکھایا، اوپر والی سطروں میں تذکرہ کیا کہ کس طرح افغانستان سے ڈرگز امریکہ پہنچائی گئیں شنید یہ ہے کہ امریکہ میں ڈرگز کی سپلائی پیزے کی اس مشہورِ زمانہ فوڈ چین سے ہوتی رہی کہ جس کی کئی برانچز ہمارے ملک کے ہر بڑے شہر میں بھی موجود ہیں…
آ ج کی دنیا میں مافیا نے جو شکل اختیار کی ہے اسکو مختصراً آپ MNC’s کہہ سکتے ہیں یعنی Multi National Companies کیا ہی کمال ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شدید ترین تحفظات کے باوجود فزی ڈرنکس (کوک ،پیپسی) پر کسی بھی طرح کی پابندی کا کبھی سوچا بھی نہیں گیا، پابندی چھوڑیے امریکہ میں ایک پوری جنریشن کو اوبیسٹی کی بیماری ان ڈرنکس کی وجہ سے ہوئی لیکن انکو اُن مضر صحت اثرات کو تلف کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا کہ جو ان ڈرنکس میں موجود ہیں، دنیا کی کوئی عدالت یا کوئی حکومت فیس بک، ٹوئٹر یا وٹس ایپ سے انکے پاس موجود معلومات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی، کیا میں نے اور آپ نے کبھی سوچا ہے کہ فیس بک، وٹس ایپ اور انسٹا گرام کا مالک مارک زکر برگ کتنی طاقت اور اختیارات کا مالک ہے اور جو جو بھی یہ ایپلیکیشنز استعمال کرتا ہے وہ مارک زکر برگ کے رحم و کرم پہ ہے کہ جب وہ چاہے کسی کا بھی دنیا کے سامنے تماشا بنا دے، لوگ اب وٹس ایپ کال پر سلیولر کال سے سو گنا زیادہ بھروسہ کرتے ہیں لیکن کیا آپ پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی وٹس ایپ پر ہونے والی بات چیت کوئی اور نہیں پڑھ یا سن رہا ہوتا؟؟
دنیا میں اس کی نظیر نہیں ہے کہ ایک آدمی ایک دہائی کے اندر اندر دنیا کے دس امیر ترین لوگوں میں شامل ہوجائے جبکہ وہ کوئی فزیکل پراڈکٹ بھی نہ بناتا ہو، آج دنیا کے پہلے دس امیر ترین لوگوں میں سے چار وہ ہیں کہ جو آن لائن بزنسز سے منسلک ہیں چاہے وہ ایمزون کے مالک جیف بیزوس ہوں، مائیکرو سوفٹ کے مالک بل گیٹس ہوں یا مارک ذکر برگ ہوں یہ کاروبار کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں کہ جو آج کی دنیا کے عظیم ترین کاروبار بن گئے ہیں، کیا اک ایسا آدمی کہ جو اینڈ رویئڈ (android) یا ایپل فون استعمال کرتا ہو اور وہ یہ بھی سمجھے کہ اسکی معلومات محفوظ ہیں تو وہ احمقانہ سوچ کا حامل ہے، کیا یہ عجیب نہیں کہ نیسلے جو 1866 میں سوئٹزرلینڈ میں بنتی ہے اور ایک صدی کے بعد اسکی کل مالیت ایک بلین سوئس فرینک بھی نہ ہو اور 1966 سے لیکر 2018 آنے تک اسی نیسلے کی مالیت 91.43 بلین فرینک ہوجائے وہی نیسلے ان باون سالوں میں اپنے کاروبار کو سولہ ملکوں سے اٹھا کر 194 ملکوں تک لے جائے یہ ترقی جہاں ایک طرف قابلِ رشک ہے وہیں دوسری طرف مشکوک بھی ہے۔
انٹرٹینمنٹ سے متعلق انڈسٹری پر قبضہ مضبوط کرنے کے بعد مافیا کو ایک نئی راہ کی تلاش تھی جو اسکو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا سے ملی سن 2000 کے بعد مافیا کو کام کرنے کو ایک اور دنیا نصیب ہوئی کہ جس میں وائٹ کالر کرائم کرنے، اسکو چھپانے اور اور اسکو بڑھانے کی نئی راہ بھی سجھائی گئی اور دولت کے علاوہ جو چیز ہاتھ آئی وہ تھی کنٹرول اب آپ اس کو سازشی تھیوری کہیے یا جو آپکا دل کرے لیکن سچ یہی ہے کہ موجودہ دنیا میں رابطے اور تفریح کے جتنے بھی الیکٹرونک ذرائع ہیں وہ دراصل کنٹرول کے طریقے ہیں تو چاہے وہ سوشل میڈیا ایپس ہوں، گیمز ہوں یا کچھ اور، ہیں سب کے سب اسی ایجنڈے کے تحت کہ کسی بھی طرح اپنے کنٹرول کو مز ید سے مز ید مستحکم کیا جائے، کیا ہی خوبصورت انداز ہے کہ آپ خود فیس بک کو بتاتے ہیں کہ میں فلاں جگہ پر ہوں اور یہ کر رہا ہوں اور میرا کون کون سا دوست میرے ساتھ موجود ہے، کبھی کوئی ایپ موسم کا حال بتانے کے لیے آپ سے یہ پوچھتی ہے کہ آپ ہمیں اپنی لوکیشن بتائیں ہم آپ کو اس جگہ کا موسم بتائیں گے، سمارٹ فون جانتا ہے کہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں اس وقت کتنے پیسے ہیں، آپکا بجلی کا بل کتنا آیا ہے، آج رات آپ نے کس سے، کہاں اور کس ایجنڈے کے تحت ملنا ہے، کل رات آپ نے کیا کھایا تھا اور وہ کھانا کس ریسٹورنٹ سے آپ نے کتنے پیسوں میں آڈر کیا تھا، یہ فون اور اسکے پچھلے سرے پر بیٹھے لوگ وہ سب بھی جانتے ہیں جو شاید آپکے بیوی، بچے ماں اور باپ بھی نہیں جانتے، یہ فون یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی نظریے یا شخص کے بارے میں آپ کی رائے ہی تبدیل کر دے، راتوں رات کسی کو بھی سٹار بنا دے یا ذلیل کر دے، اس سب کے لیے ایک کثیر سرمایہ درکار ہے جو ظاہر ہے کسی لیگل بزنس سے فراہم کرنا ممکن نہیں ہے…
آج کل ہم پاکستانی سیاست میں مافیاز کر بہت ذکر سنتے ہیں تو جناب کوئی جا کر انکو کہ جو مافیا کے خلاف ہیں یہ سمجھائے کہ مافیا سے چھٹکارا اب شاید ممکن نہیں رہا اب جو صورت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی طرح مافیاز کے ساتھ الائنمنٹ میں آ کر آپ نے اپنے لیے راہیں نکالنی ہیں، ابھی حال ہی میں پاکستان میں پیٹرول کی قیمت میں یکدم پچیس روپے کا اضافہ کیا گیا، یہ بات تو یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آئل کمپنیوں کا ایک مافیا ہے کہ جو اپنی ہر بات منوانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تو کیوں نہ ان سے لڑنے کی بجائے ان کے ساتھ ایک الائنمنٹ قائم کی جائے یہ بات بہت سے احباب کو ناگوار گزرے گی لیکن اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے تو کیا یہ ایک سچ نہیں کہ اس ملک میں جس مقدار میں ڈرگز اور شراب استعمال ہوتی ہے اس کی قیمت اربوں روپے بنتی ہے، اور جو بھی ڈرگز یا شراب خریدنا چاہے اسکو گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بس پیسے جیب میں ہوں تو ہر طرح کا نشہ ہر طرح کی شراب اسکو گھر بیٹھے مل سکتی ہے، تو کیوں گورنمنٹ یہ پیسے نہیں کماتی جو یہاں وہ لوگ کما رہے ہیں جو انڈر گروانڈ یہ چیزیں لوگوں کو مہیا کر رہے ہیں؟ اسلامی ممالک میں سے دبئی ہو، ترکی ہو، ملایشیا ہو، تیونس ہو، الجزائر ہو، لبنان ہو مراکش ہو تمام ممالک میں شراب آپ کو با آسانی دوکان سے مل جاتی ہے، اور اس پر آپ گورنمنٹ کو ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں، پاکستان میں بھی مری بیوری موجود ہے، دھڑا دھڑ شراب بنتی اور بکتی ہے لیکن گورنمنٹ کو ایک روپیہ ٹیکس کی مد میں نہیں ملتا، جب آپ ایک چیز کو روک نہیں سکتے تو اس کو قانون کے اندر لے آئیں جبکہ وہ آپکو اربوں روپے کا زرمبادلہ کما کر دے سکتی ہو، ہماری حکومتیں یہاں سیاحت کے فروغ کی دن رات بات کرتی ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے کہ اگر یہاں سیاح آ بھی جائے تو وہ کیا کرے؟ نہ یہاں کلبس ہیں نہ شراب پینے کو ملتی ہے اور نہ ہی کوئی اور ایسے مواقع کہ جن کو دنیا میں نائٹ لائف کی جان کہا جاتا ہے، اگر کوئی گورا یہاں آ بھی جائے تو وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں بند ہو کر ہی شراب پی سکتا ہے باہر نکل کر وہ صرف چکن اور مٹن کڑاہی ہی کھا سکے گا….
میری ذاتی رائے میں اس موجودہ کیپیٹلسٹک ورلڈ میں ملکوں کو چلانے کے لیے مافیاز ضروری ہیں کیونکہ مافیاز کا قبضہ اتنا پکا ہو چکا ہے کہ دنیا کے تمام مالیاتی ادارے بھی انہی کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور ہیں لہذا اس دنیا میں رہنے کے نئے طریقے تلاشنے ہونگے کیونکہ پرانی جذباتیت اور حساسیت نئی دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں کام نہیں دے پائے گی…..
فیس بک کمینٹ