تھائی لینڈ کے سابق وزیر اعظم تھاکسن شیناواتر ا، جن کا فوج نے ستمبر 2006 میں تختہ الٹ دیا تھا، اور پھر اُنھیں بدعنوانی کی پاداش میں سزا بھی سنادی، کئی برس کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آگئے ہیں ۔ اُن کی جماعت دوبارہ اقتدار میں آچکی ہے۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ نے تھاکسن کی سزا میں تخفیف کردی ہے ۔ تھائی لینڈ کے بادشاہ اور طاقتور فوج کو ایک بائیں بازو کی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے تھاکسن اور اُن کی مقبول جماعت سےمفاہمت کرنا پڑی۔
تھاکسن کی جماعت نے 2001ء کے بعد ہونے والے ہر الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں جیتی ہیں ۔ گزشتہ بائیس برسوں سے تھائی لینڈ میں وہی نمونہ دہرایا جارہا ہے جس سے پاکستانی بخوبی واقف ہیں ۔ تھاکسن کی اصل پارٹی کو2007 ء میں آئینی عدالت نے بدعنوانی کے الزام پر تحلیل کردیا تھا۔ تھاکسن اور اُسکے 110 ساتھیوں کو انتخابات لڑنے سے روک دیا ۔ اس کی بہن، ینگلک شیناواترانے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وزیرا عظم بن گئی، جب کہ اس کی جماعت نے بھی نام تبدیل کر لیا۔ لیکن ینگلک کو بھی بدعنوانی کا الزام لگا کر منصب سے ہٹا دیا گیا ۔ 2023 ء کے انتخابات میں تھاکسن کے حامی اُس کی بیٹی۔، پیتون گترن شیناواتر ا کی حمایت میں نکل آئے ۔ انتخابات کے بعد ہونے والے معاہدے کے مطابق ایک اورپارٹی رکن وزیر اعظم بن گیا۔
تھائی لینڈ کے بادشاہ، اشرافیہ، فوجی افسران، سول افسران اور پیشہ ور درمیانی طبقہ ایک عرصے سے بدعنوان، موروثی سیاست سے نالاں ہے، اور ان کے پاس اس کا جواز موجود ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ غریب دہقان درست افراد نہیں چنتے، اور سیاست دان ملک کی بجائے صرف اپنے مفاد کا خیال رکھتے ہیں ۔ تھائی لینڈ کا سیاسی طبقہ بدعنو انی اور مفاد پرستی کے لئے بدنام ہے۔ لیکن تواتر سے کی گئی غیر سیاسی مداخلتیں بدعنوانی کے خاتمے یا تھائی سیاست کے بنیادی معروضات تبدیل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں ۔
عشروں کی سیاسی اتفراتفری نے تھائی لینڈ کے سیاسی کھلاڑیوں کو ایک اہم سبق سکھا دیا ہے۔ وہ سب ایک نقطے پر اتفاق کر چکے ہیں کہ وہ سیاسی کھیل اس طرح کھیلیں گے جس سے ملک کی معیشت کو جھٹکے نہ لگیں۔ اس لئے حتیٰ کہ جب بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے کوئی سیاست دان نااہل ہو جاتا ہے، تو بھی حکام اس کے کاروبار کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ تھائی عوام اس بات کو سمجھتے ہیں کہ افراد اور خاندانوں کی دولت، چاہے بدعنوانی سے ہی جمع کی گئی ہو، ملک کے جی ڈی پی میں ہی اضافہ کرتی ہے۔ مئی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی وجہ سے تھائی لینڈ کی سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے ماہرین معاشیات فکر مند تھے۔ اس تشویش کے نتیجے میں تھاکسن کی واپسی کے لئے مفاہمت طے پائی۔ پاکستان کے پاس تھائی لینڈ کی طرح سیاحت سے کمانے کا آپشن نہیں، اور نہ ہی جنوبی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن، آسیان کا رکن ہے جس کی باہمی تجارت کا حجم 450 بلین ڈالر اور باہمی سرمایہ کاری 2021 میں 29.9 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔ پاکستان کے طاقتور دھڑوں اور سیاسی طبقے کے درمیان کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ سیاسی کشمکش اور غیر سیاسی مداخلتوں کی صورت میں بھی کم از کم ملک کی معیشت کو نقصان نہ پہنچے۔
جدید جمہوریتوں میں مستعمل جمہوری اصول یہ ہے کہ عوام جسے چاہتے ہیں، اُسے منتخب کرلیں اور پھر اگر وہ دیکھیں کہ ان کے منتخب کردہ لیڈروں نے ان کی خواہشات کے مطابق کام نہیں کیا، وہ ووٹ کے ذریعے اُنہیں چلتا کر دیں۔ تھائی لینڈ اور پاکستان جیسے ممالک میں پیشہ وراشرافیہ اور مقتدرہ تھاکسن جیسے مقبول (اور بدعنوان) لیڈروں کی کامیابی کی وجہ سے یہ سمجھنے سے قاصر ہے وہ اکثر انتظامی اور قانونی طاقت سے سیاسی دھارے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کی کامیاب جمہوریتیں ووٹ بینک رکھنے والے سیاست دانوں اور درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور ماہرین (بشمول معاہرین معاشیات، دانشور اور وکلا) کے درمیان تعاون سے پروان چڑھی ہیں۔ پاکستان اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں ایسا تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن سیاست دان جس طرح لوگوں سے جڑے ہوتے ہیں، اس طرح ججوں، سول اور ملٹر ی افسران کا کوئی عوامی رابطہ نہیں ہوتا۔ سیاست دانوں کو سزا ہونے یا نااہل قرار پانے کے بعد بھی عوامی حمایت میسر رہتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ کے بیشتر ادوار میں پیشہ ور متوسط طبقے کی سیاسی ترجیحات عوامی ترجیحات سے مختلف رہی ہیں۔ کسانوں نے 1970میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کو ووٹ دیا، شہری متوسط طبقے اور فوجی پنشنرز نے ایئر مارشل اصغر خان اور ان کی تحریک استقلال کی حمایت کی، جنہیں وہ زیادہ محب وطن اور ناقابل شکست سمجھتے تھے۔
1977 کی قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک سے پتہ چلا کہ پیپلز پارٹی مخالف ووٹ بینک کو اصغر خان نے نہیں بلکہ اسلام پسند مذہبی جماعتوں نے متحرک کیا تھا ۔ ایک عشرے تک اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کی کمر توڑنے کی پیہم کوشش کرتی رہی، لیکن 1988میں ضیا دور کے خاتمے پر جب انتخابات ہوئے تو بے نظیر نے شہری متوسط طبقے کے لیڈر نواز شریف سے زیادہ ووٹ لئے۔ ایک بار جب نواز شریف مقبول ہوئے اور ملک بھر میں اپنا ووٹ بینک بنا لیا تو شہری پیشہ ور افراد کا رخ ایک ایسی پاپولسٹ مشہور شخصیت کی طرف ہو گیا جس نے خود کو سیاست مخالف سیاست دان کے طور پر پیش کیا۔ لیکن اس تجربے نے بھی سیاسی ہنگامہ خیزی کو مستقل بنیادوں پر ختم ہونے کے بجائے اس کے اتار چڑھاؤ میں اضافہ کیا۔ سیاست میں جراحت کام نہیں دیتی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حکمرانی ایک ہی بار چیزوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درست کرنے کانام نہیں۔ سیاست میں جہاں تک ممکن ہو چیزوں کو صحیح طریقے سے چلنے دیا جاتا ہے۔ بدعنوانی جیسے کچھ مسائل کو وقت کے ساتھ ساتھ برداشت کرنا اور حل کرنا پڑتا ہے۔ غیر سیاسی مداخلتیں، چاہے وہ مارشل لا ہوں یا قانونی عدالتوں کے فیصلے، بے فائدہ رہتے ہیں۔ خراب سرجن کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ کسی انجینئر کو سرجری کے لیے بلا لیا جائے۔ قوموں کو ایک طریق کار کے ذریعے برے سیاستدانوں کی جگہ اچھے سیاست دانوں کو جگہ دینی چاہئے۔ مقبول عام سیاست دانوں کو کھیل سے باہر دھکیلنے کی کوشش کرنا اور نئے کھلاڑیوں کو سامنے لانا معاشروں کو تقسیم کردیتا ہے جب کہ مسائل بھی حل نہیں ہوپاتے۔ تھائی لینڈ کا تجربہ (اور پاکستان کا بھی) یہی ثابت کرتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ