مخدوم سجاد حسین قریشی صاحب کے سندھ سے ایک مرید تھے میر حسان الحیدری۔ بڑے عالم فاضل آدمی تھے۔ نثر خوب لکھتے تھے۔ انہوں نے ملتان آ کر ’’آستانہ زکریا‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالنا شروع کیا۔ شعر بھی کہتے تھے۔ ہم سے تعارف ہوا تو ہم نے انہیں ایک مقامی شعری نشست میں مدعو کر لیا۔ جو دولت گیٹ النگ پر واقع سیّد محمد حسین شاہ المعروف دھاڑ دھاڑ شاہ کی کوٹھی پر تھی۔ ملتان کے تقریباً تمام شعراء موجود تھے۔ حسان الحیدری صاحب کا ملتان میں یہ پہلا مشاعرہ تھا۔ انہوں نے جو غزل پیش کی وہ حاصلِ مشاعرہ قرار پائی۔ لیکن شومئی قسمت کہ صبح ہوتے ہی ان کا سارا تاثر زائل ہو گیا۔ لفظ بہ لفظ وہی غزل روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی کے سنڈے ایڈیشن کے صفحۂ اول پر جلی حروف میں شائع ہوئی تھی۔ مگر شاعر کا نام پنڈت آنند نرائن ملاہی لکھا تھا۔ اب تو شہر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اخبار کو خط لکھ کر وضاحت چاہی گئی تو اخبار والوں نے تصدیق کی کہ یہ غزل واقعی پنڈت آنند نرائن ملاہی کی ہے۔ اب صاف ظاہر تھا کہ میر حسان الحیدری صاحب نے سرقہ کر کے اسے اپنے نام سے مشاعرے میں پڑھ دیا تھا۔ اخبار میں ایڈیٹر کے نام خطوط کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ کچھ لوگ میر صاحب کے حق میں ہو گئے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ میر صاحب نے جو غزل پڑھی تھی وہ ہوبہو یہ نہیں تھی اس سے ملتی جلتی ضرور تھی جبکہ کچھ لوگ ببانگِ دہل ان کے خلاف لکھنے لگے اور اسے ایک ادبی سرقہ ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
ہم آخر الذکر لوگوں میں تھے اور نوجوان ہونے کے ناتے اس ہنگامے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ لوگوں نے چند گھنٹے پہلے اسے اپنے کانوں سے سنا ہے اور لوگوں کا حافظہ اتنا کمزور نہیں کہ انہیں کچھ یاد نہ ہو۔ بہرحال خوب ہنگامہ ہوا۔ آخر کچھ عرصے بعد اخبار نے خطوط کا یہ سلسلہ بند کر دیا مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میر حسان الحیدری سے ہماری دوستی ہو گئی اور انہوں نے بھی شاعری سے دستبردار ہو کر اپنی تمام تر توجہ نثر کی طرف مبذول کر دی۔ یہ وہی میر حسان الحیدری ہیں جو سرائیکی کے معروف محقق اور ادیب ہیں بلکہ لفظ ’’سرائیکی‘‘ کے محرک بھی۔
کتاب : شام و سحر ِ۔۔ مصنف حسین سحر ( صفحہ 72 )