اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان میں ہزارہ برادری کی جانب سے کان کنوں کے قتل کے خلاف جاری دھرنے کے شرکا سے درخواست کی ہے کہ وہ دھرنا ختم کرکے میتوں کی تدفین کر دیں اور کہا ہے کہ وہ جلد ان سے ملاقات کے لیے آئیں گے۔
مچھ میں سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب مسلح افراد نے دس کان کنوں کو قتل کر دیا تھا جس کے بعد ان کے لواحقین اور ہزارہ برادری کے دیگر افراد نے کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ دھرنا ختم کروانے کے لیے کوششیں جاری ہیں تاہم دھرنے کے شرکا وزیر اعظم سے ملاقات کے بغیر احتجاج ختم کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ بدھ کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ متاثرین کے درد میں شریک ہیں اور مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی ذاتی طور پر تعزیت کے لیے آئیں گے اور اپنی عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔انھوں نے دھرنے کے شرکا سے درخواست کی کہ ’برائے مہربانی اپنے پیاروں کی تدفین کریں تاکہ ان کی روح کو سکون مل سکے۔ ‘انھوں نے مچھ میں دہشت گردی کے واقعے میں نشانہ بننے والے ہزارہ خاندانوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کے مطالبات اور مشکلات سے آگاہ ہیں اور حکومت اس سلسلے میں اقدامات کر رہی ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔ انھوں نے انڈیا کا نام لیے بغیر الزام لگایا کہ ’ہمارا ہمسایہ ملک فرقہ وارانہ دہشت گردی کو شہ دے رہا ہے۔‘
دھرنے کے منتظمین میں شامل آغا رضا کا کہنا تھا ’یہ دھرنا کسی شخص نے اپنی مرضی سے نہیں دیا۔ ہم لوگوں کی آواز ہیں۔ یہ دھرنا لواحقین کے کہنے پر دیا گیا ہے۔ لواحقین اپنی مرضی سے یہ جنازے یہاں لے کر بیٹھے ہیں۔ دیگر مطالبات تو تسلیم ہو گئے لیکن ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم آ کر اعلان کریں گے تو ہی یہ یہاں سے اٹھیں گے۔‘
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان سے قبل کوئٹہ میں وفاقی وزرا علی زیدی اور زلفی بخاری کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرنے ہوئے بلوچستان کے وزیر اعلی جام کمال نے بھی ہزارہ دھرنے کے شرکا سے درخواست کی تھی کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کو مرنے والوں کی تدفین سے مشروط نہ کریں۔جام کمال کا کہنا تھا کہ ’ہم سب کا آنا اس بات کی گواہی ہے کہ ہم اس کے لیے سنجیدہ ہیں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم دھرنے والوں کے پاس بھی جائیں گے، ان سے بات کریں گے،مظاہرین سے بات کریں گے وہ ہمارے بھائی ہیں۔‘ انھوں نے یقین دہانی کروائی کہ ’وفاقی وزرا بھی یہاں بیٹھےہیں، وزیراعظم بھی آئیں گے اور صدر مملکت بھی آئیں گے۔‘
مظاہرین سے مذاکرات کرنے کے لیے جانے والے وفاقی علی حیدر زیدی نے ایسے حملوں کے لیے پاکستان کے دشمنوں کو مرود الزام ٹھہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کےخارجی دشمن اس قسم کی حرکتیں کرتےہیں۔‘علی زیدی کا کہنا تھا ’ہم جب حکومت میں نہیں تھے تو سنتےتھے بیرونی ہاتھ ہیں، کلبھوشن جیسے لوگ یہیں سے پکڑے گئے تھے۔‘ہزارہ برادری کی جانب سے دھرنے کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم کی آمد کی شرط سے متعلق ان کا کہنا تھا ’وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، وہ یہاں آئیں گے، جو لوگ شہید ہوئےہیں ان کو دفنانا چاہیے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گزارش ہے یہ مطالبہ نہ رکھیں کہ وزیراعظم آئیں گے تو شہدا کو دفنائیں گے۔‘انھوں نے کہا ’ہماری ہاتھ جوڑ کے گزارش ہے کہ معاملے کو کسی چیز سے مشروط نہ کریں۔‘وزیر اعلی جام کمال کا کہنا تھا کہ ’ہزارہ کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں لیکن دشمنوں کو یہ پسند نہیں اور بلوچستان سے دشمنی رکھنے والے چاہتے ہیں کہ یہاں خرابی پیدا ہو۔‘
کوئٹہ میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار محنمد کاظم کے مطابق مغربی بائی پاس پر اتوار سے جاری دھرنے کے شرکا کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور شرکا میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔دوسری جانب پاکستان کے مختلف شہروں میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ کراچی میں ابوالحسن اصفہانی روڈ پر عباس ٹاؤن کے مقام پر، گلستانِ جوہر میں کامران چورنگی، نارتھ کراچی میں پاور ہاؤس چورنگی، ایم اے جناح روڈ پر نمائش چورنگی، قومی شاہراہ پر ملیر 15، شارعِ فیصل پر ناتھا خان برج، ملیر میں کالا بورڈ، گلشنِ اقبال میں یونیورسٹی روڈ سمیت مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈی چوک کے مقام پر بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے۔ترجمان مجلس وحدت مسلمین علامہ مقصود علی ڈومکی کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں آزاد کشمیر سمت گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں سے لوگ مرکزی شاہراہوں پر دھرنے دیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا ہم ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے ساتھ ہیں اور ان کے مطالبات کی منظوری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ ورثاء سے ملاقات میں وزیر اعظم کو مزید تاخیر نہیں کرنا چاہیے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ