آج ہزارہ برادری کے دھرنے کا چوتھا روز ہے اور وہ دھرنا جو مچھ میں کان کنوں کی ٹارگٹ کلنگ سے شروع ہوا تھا حکومت کی ہٹ دھرمی ، صوبائی حکومت اور وزیر اعظم کی مصالحتی ٹیم کی نا اہلی کے نتیجے میں پورے ملک میں پھیل چکا ہے ۔ کراچی ، لاہور سمیت مختلف شہروں میں اہل تشیع کی جانب سے دھرنے دیئے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ مرنے والوں کے لواحقین کو پرسہ دینے کے لئے کوئٹہ جائیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھیں لیکن ان کے ساتھی مرہم رکھنے کی بجائے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں ۔
۔ وزیر اعظم نے آج ٹویٹر کے ذریعے ہزارہ برادری سے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ آپ اپنے پیاروں کو سپرد خاک کر دیں میں جلد آپ سے ملنے آؤں گا دوسرے لفظوں میں انہیں یہ بتا دیا گیا کہ میں ابھی آپ کے پاس نہیں آ سکتا ۔
اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے اور دھرنا ختم کرانے کے لیے سب سے پہلےوزیر داخلہ شیخ رشید کو کوئٹہ بھیجا گیا ، بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ رشید کوئٹہ جانے پر رضا مند نہیں تھے لیکن آخر انہیں جانا پڑا اور وہ دھرنے کے شرکاء کے مطالبات لے کر واپس آ گئے جو کابینہ کے اجلاس میں بھی پیش کر دیئے گئے ۔ حکومت نے وزیر اعظم کے دورہ کوئٹہ کے سوا تمام مطالبے مان بھی لیے ۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال ، اور وفاقی وزیر علی زیدی اورزلفی بخاری کو بھی معاملات سلجھانے کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن معاملات بگڑتے ہی چلے گئے ۔ مسئلہ صرف یہ ہوا کہ اس انسانی مسئلے کو شیعہ مسئلہ بنا کر سلجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن چھوٹی’ ی ‘ کے نام والے وزرا ء نے کام خراب کر دیا اور ان میں سر فہرست زلفی بخاری کا نام آتا ہے ۔
آج دوپہر سے ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں ذوالفقار بخاری اور ہزارہ علما کے درمیان ہونے والی گفتگو واضح سنی جا رہی ہے۔
ویڈیو میں مظاہرین زلفی بخاری سے کہتے ہیں ’ہمارے شور کا فائدہ پوری پاکستانی قوم کو ہو گا۔۔‘
جواب میں زلفی بخاری کہتے ہیں: ’آپ کیا فائدہ دیں گے اُن کے آنے پر۔۔ یعنی آپ کیا ذمہ داری لیں گے اگر عمران خان صاحب آتے ہیں۔۔۔‘
مظاہرین کہتے ہیں: ‘ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ آ جائیں گے تو کم از کم شہدا کہ لواحقین کو تسلی تو ملے گی۔‘
زلفی بخاری کہتے ہیں: ’لیکن خدا نخواستہ کل کہیں اور پاکستان میں ایسا واقعہ ہو جائے تو وہ کہیں گے ہم ایسا نہیں ایسا چاہتے ہیں۔۔۔ تو بات رکتی نہیں ہے۔‘
سوشل میڈیا پر لوگ ذوالفقار بخاری کے سوال پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہلاک ہونے والے افراد کے اہلِخانہ یا شرکا سے فائدے کی امید کرنا ان کی بے حسی ظاہر کرتی ہے۔
مرنے والوں کے لواحقین سے فائدے کی بات عجیب و غریب نہیں بلکہ مضحکہ خیز ہے اور ایسے حساس مرحلے پر ایسی بات کوئی دوست نہیں دشمن ہی کر سکتا ہے ۔
زلفی صاحب کو پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا ہے جب انہوں نے کورونا زدہ ایران میں پھنسے ہوئے زائرین کو پاکستان بلوا کر ملک کے مختلف شہروں میں بھیج دیا ۔ اس پر وہ تنقید کا ہدف بھی بنے تھے ۔ اسی طرح محرم الحرام کے موقع پر انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے ذاکر کی کھل کر حمایت کی اور پھر سرکاری سرپرستی میں اس کی مجالس کا اہتمام کیا ۔ ان تمام واقعات کے نتیجے میں براہ راست تنقید عمران خان پر ہوئی تھی ۔ آ ج ویڈیو میں جو گفتگو سامنے آئی وہ بھی کسی ذی شعور کی گفتگو نہیں لگتی ۔ سوال صرف ایک ہی ذہن میں آتا ہے کہ ذلفی بخاری عمران خان کے دوست ہیں یا دشمن ؟ اس سوال کا جواب ہمیں نہیں خود وزیر اعظم کو تلاش کرنا ہے ۔
کالم کے اختتام پر معروف شاعر رحمان فارس کی ایک نظم آپ کی نذر
ریاستِ مدینہ ؟؟؟
شدید سردی میں کتنے لاشے برائے تدفین منتظر ہیں
حضورِ والا ! مَحَل کی گرماہٹوں سے نکلیں
چلو تحفظ نہیں، دلاسا تو دینے جائیں
وہ بیٹیاں، بہنیں اور مائیں
شدید صدمے سے منجمد ہیں
وہ منجمد ہیں، جنابِ عالی !
(نہ ہاتھ میں تیر و تیغ کوئی، نہ لب پہ گالی)
حضورِ والا ! انہیں دلاسا تو دینے جائیں
کسی کے کاندھے پہ ہاتھ رکھیں، کسی کی آنکھوں سے اشک پونچھیں
انہیں بتائیں
کہ شاہ زندہ ہے اور ریاست مَری نہیں ہے
(کہ جلد قاتل بھی پکڑے جائیں گے اور انصاف بھی ملے گا)
وزیرِ اعظم ہیں آپ اُن کے
جناب ہیں مائی باپ اُن کے
اگر یہ ممکن نہیں تو صاحب !
انہیں اجازت ملے کہ کتبوں پہ اتنا لکھ دیں
” یہ مُلکِ بےحس کا ایک شہری تھا
اس کی قاتل بھی بے حسی ہے“
( بشکریہ : روزنامہ ” سب نیوز “ اسلام آباد )