ہمیں یہ کہانیاں مت سنائیں کہ بی این پی کے فلاں فلاں ایم پی اے ہزارہ دھرنے میں گئے، نیشنل پارٹی کے فلاں لوگوں نے حاضری لگائی۔ ہم آپ کی پارٹیوں کے جیالے نہیں، جنہیں ایسی لوریوں سے رام کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں سیدھا سیدھا بتائیں کہ اختر مینگل کہاں ہیں؟ ڈاکٹر مالک کیوں نہیں پہنچے؟ محمود خان اچکزئی کا ان کے پشتون دوست باید ہے کہ اسی سختی سے پوچھیں۔
ایک زمانے میں بلوچ سماج میں سردار گھرانے کا ایک خون دو افراد کے برابر اور ایک میراثی کے دو افراد کا خون ایک فرد کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ جرگہ اسی حساب سے قتل کا تعین قدر کر کے فیصلہ سناتا۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے بلوچستان میں ریاست نے بھلے بلوچ کا خون کوڑی کے مول رکھا ہو، بلوچ قیادت نے مگر بلوچ کے خون کو سرداری اور اس وطن کی دیگر اقوام کے خون کو رعیت کا خون سمجھ رکھا ہے۔
گلے کاٹ کر ذبح کیے گئے دس مزدور، ہمارے لیے تربت میں ڈکیتی کے دوران ماری گئی ملکناز جتنے بھی اہم نہیں؟ دس مزدوروں کا خون ہمارے نزدیک تربت کے ایک نوجوان طالب علم حیات بلوچ جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ ان کی نسل ہماری نسل سے مختلف ہے… کیوں کہ یہ ہماری زبان نہیں بولتے… کیوں کہ یہ "بلوچ” نہیں ہیں۔
مکران میں ایک بے گناہ مارا جائے، پورا بلوچ ڈائسپورا سڑکوں پہ نکل آتا ہے۔ اسی وطن کی سرزمین پر دس مزدور ذبح کر دیے جائیں، ہماری بلوچ یکجہتی کمیٹیاں چپ سادھ لیتی ہیں۔ کیوں کہ یہ ہزارہ ہیں، کیوں کہ یہ شیعہ ہیں، کیوں کہ یہ مزدور ہیں!
تین دن گزر گئے کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں سیکڑوں ہزارہ مرد و زن اپنے بچوں اور بزرگوں سمیت سڑکوں پر ہیں، پورے بلوچستان میں ان کے حق میں کوئی ایک مظاہرہ نہیں ہوتا۔ آخر کیوں؟ اختر مینگل، ڈاکٹر مالک، محمود خان، تینوں اس زمین پہ موجود ہیں۔ آخر کون سے ایسے اہم کام وہ سرانجام دے رہے ہیں، کہ انھیں ان محکوموں کی اشک شوئی کی فرصت بھی نہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹیوں کے اکابرین کہاں ہیں… کوئٹہ پریس کلب کہاں راہ تک رہا ہے۔
یہ ریاست سمیت، سیاسی قیادت سے بھی جوابدہی کا وقت ہے۔ باشعور سیاسی کارکن محض قائد کے نام پر، نسل کے نام پر، تالیاں بجانے والا، نعرے مارنے والا روبوٹ ٹائپ جیالا نہیں ہوتا۔ سیاسی کارکن سوال اٹھاتا ہے، اور جواب میں آپ کی دلکش تقریر نہیں، دلیل چاہتا ہے۔
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں، تری رہبری کا سوال ہے!
فیس بک کمینٹ