یہ رِیت ایک چیف جسٹس آف پاکستان نے ڈالی تھی کہ ہر روز کوئی ناں کوئی ایسا بیان جاری فرما دیتے جو ملک بھر کے اخبارات کی شہ سرخی بنتا۔کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ سیاسی بیان نہ دیں اور ان کے فیصلوں کا یہ عالم ہوتا تھا کہ لکھے جانے سے پہلے ہی زبان زدِ عام ہوتے۔حد تو یہ کہ حساس ترین معاملات پر بھی خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔یوں عدلیہ کے وقار کو انہوں نے بے اعتبار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ موصوف نے عدالت عظمیٰ کے فورم کو اچھا بھلا سیاسی اکھاڑہ بنا دیا۔یوں ہر روز وہ حکومت کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیتے،نجی محافل میں آنے جانے سے قطعاََ گریز نہ کرتے،ان کی اس ادا کو عوامی سطح پر بہت پذیر ائی حاصل ہوئی گویا تماش بینوں کے لئے انہوں نے عدلیہ کو تماشہ گاہ بنا دیا۔
وہ میڈیا کی آزادی کا شاخسانہ تھا کہ ایک پروقارو عزت دار ادارہ اس آزادی کا ایسا شکار ہوا کہ ایک جج کے وہ سارے حجابات جو اس کے اور اس کے فیصلوں کے درمیان ہوتے ہیں سب اٹھ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چیف جسٹس تو کیا پوری عدلیہ ہی عوامی اعتماد سے محروم ہوگئی۔اس میں شک نہیں کہ ہمارا عدالتی ڈھانچہ شروع دن سے نا مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہے اور عدلیہ کے کمزور فیصلے ہی آمریتوں اور آمروں کو سائبان مہیا کرتے رہے۔جبکہ سوموٹو جیسے اختیارات کے استعمال کرنے میں بھی احتیاط سے کام نہیں لیا گیا۔تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک کے کسی ایک جج کا نام بھی گلی گلی بدنام نہیں ہوا،جبکہ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے نام کوچہ کوچہ بدنام ہوئے،بچے بچے کو ان کے نام ازبر ہوئے۔
پھر کچھ عرصہ کیلئے یہ طوفان تھم گیا،جسٹس منیر، جسٹس مشتاق،جسٹس قیوم اور جسٹس افتخار چوہدری اب دھیرے دھیرے ہمارے ذہنوں سے اتر نے لگے تھے،گو ہماری یادوں سے محو نہیں ہوئے کہ پھر ایک جسٹس صاحب نے نئے سرے سے نگار خانہ سجا دیا ہے،موصوف کے بہت سارے المیوں کے بیچ تازہ ترین المیہ ہے کہ انہیں میڈیا کی آزادی پر تحفظات ہیں اپنی چالیس سالہ صحافتی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ کم ازکم سوشل میڈیا کے اس دور میں ایسی کوئی دقت نہیں رہی کہ کسی بھی خبر کی ترسیل مشکل ہو، بلکہ اب تو ذرا سی دیر میں چھوٹی سے چھوٹی خبر جنگل کی آگ کی طرح چہار دانگ پھیل جاتی ہے،اب تو خبر کی حساسیت تک کا خیال نہیں رکھا جاتا،جو صحافی یا میڈیا پرسن جس کھونٹے سے بندھا ہے وہ سب پر عیاں ہے اور مفادات و مراعات کی کشش جنہیں کھینچتی ہے ان کی پردہ داریوں کے راز بھی گاہے گاہے کھلتے ہی رہتے ہیں،ہر شے کے اعدادوشمار سب پر ہویدہ ہیں،صدرمملکت ہوں ِوزراعظم ہوں یا کوئی وزیرو مشیر،سب آئینوں کے روبرو کھڑے ہیں،حجاب تو رہا ہی نہیں۔پھر نہ جانے معزز جسٹس صاحب کو کیوں اعتراض اٹھانا پڑا۔ان کی اور ان کی اہلیہ کی کونسی خبر ہے جو کسی ا خبار کی شہ سرخی نہیں بنی،الیکٹرک میڈیا نے جس کی بھد نہیں اڑائی۔اب تو بے پر کی اڑانے والوں پر بھی کوئی قدغن نہیں رہی جس کے چاہیں چیتھڑے اڑا ئیں،بخیے ادھیڑیں۔
موصوف جسٹس تو اتنے بھولے نکلے کہ بھری عدالت میں میڈیا والوں پر ان کی آزادی کے سلب ہونے کا سوال کردیا،ان کی اس معصومیت اور سادگی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے،وگرنہ کوئی ایسی بات تو نہیں تھی جس کا پتنگڑبنایا جاتا۔ عدالتوں سے باہرتو تماشا لگا ہواہی ہے اب اندر بھی کھلواڑ مچادیا جس کی چنداں ضرورت ناں تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری عدلیہ اپنی کمزوریوں پر قابو پاتی،اپنے نامستحکم ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتی،مگر معاملہ سراسر برعکس ہوتا چلا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت ہونے والی رپورٹ میں،جو دنیا کے 128ممالک کی تحقیق پر مشتمل ہے،اس میں پاکستان 118ویں نمبر پر آیا ہے،رول آف لاء انڈکس کے مطابق نیپال
”اپنی عدلیہ کی کار کردگی کے لحاظ سے 61ویں،سری لنکا 66ویں اور ہمارا دشمن ملک انڈیا 69ویں نمبرپر ہے“۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ارکان پارلیمان کے ترقیاتی فنڈز کے اجرا کے حوالے اپنے تحریری حکم نامے میں جو یہ لکھا ہے کہ ”غیر جانبداری اور بلاتعصب انصاف کی فراہمی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم کے خلاف کیس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہیں سن سکتے “۔ان کے یہ لکھنے سے پہلے جسٹس قاضی عیسیٰ کو خودیہ احساس دامن گیر ہونا چاہئے تھا کہ موصوف اس بنچ کا حصہ بننے سے پہلے انکاری ہوجاتے۔مگر اس کے لئے قانون کی بالادستی پر ایقان ہونا ضروری تھا۔
اگر ہمارا عدالتی ڈھانچہ نامضبوط نہ ہوتا تو کالے کوٹوں والے پورس کے ہاتھیوں کی طرح دندناتے،عدلیہ پر چڑھ دوڑتے ہوئے دکھائی نہ دیتے۔عدالت پر حملہ کرکے دنیا کو کیا پیغام پہنچایا گیا؟ یہی کہ ہمارا قانون پڑھنے اسے نافذکرنے کی ڈگری حاصل کرنے والا بھی ابھی اس شعور سے بہرہ ور نہیں ہوسکا کہ قانون کا محافظ بھی ثابت ہوسکے،وہ تہذیب کی
دھجیاں بکھیر تے ہوئے اپنے پڑھے ہوئے سبق کو بھی بھول جاتا ہے جو شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے اپنی نظم”طلوعِ اسلام“میں دیا کہ
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
فیس بک کمینٹ