گزشتہ سے پیوستہ
کیا عجیب لوگ ہیں یہ! بالکل لقا کبوتروں کے اس جوڑے کی طرح جو تمام عمرایک دوسرے کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں ایک دوسرے کی خوشی کی خاطر۔ ایک دوسرے سے اپنی اپنی تکلیفیں چھپاتے رہتے ہیں صرف ہنسنے بسنے کیلئے ۔کبھی چُوچُو ‘ پوپی‘ گگڑو کے ساتھ کھیل کود کر تو کبھی ہم سب کی محبتیں پال کر۔ ہماری خوشیوں اور ہمارے دکھوں کے ساتھ۔ مگر شایددونوں کو اندازہ نہیں تھا کہ تکلیفیں کبھی نا کبھی اپنے اندر کا کمینہ پن ضرور ظاہر کرتی ہیں۔
ایک بار پھر اسکی آواز گونجی؛
”ہاں ڈوک بولو نا! اب کیا کرنا ہے“
بمشکل ہم نے اس سے نظریں ملائیں تو اس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح پھیلی اس کی مخصوص مسکراہٹ نے بڑھ کر گلے لگا لیا۔ حوصلہ کر کے ہم نے اسے علاج کے ہر مرحلے کے بارے میں تفصیل سے بتایا توکچھ سوال وجواب کے بعد وہ فیصلہ کن انداز میں بولا؛
”او کے ۔ تم کل ہی کیمو تھراپی کا شیڈیول لو اورکرتے ہیں دو دو ہاتھ اس بیماری سے بھی“
یہ تھی حوصلے کی وہ چٹان جس کے سہارے ہم سب جی رہے تھے۔ پھر ہم سب نے یہ بھی دیکھا کہ کیمو تھراپی (جو بذات خود ایک تکلیف دہ طریقہ علاج ہے) کے اذئیت ناک مراحل سے گزرتے ہوئے جب اس کی آواز نے بھی اس کاساتھ چھوڑ دیا تو اس نے اپنے مضبوط اعصاب کے ہاتھوں میں اپنا قلم تھما دیا ۔ اوریانہ فلاشی اس کے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک تھی۔ وہ خون تھوکتا رہا‘ اُلٹیاں کرتا رہا‘ بھوک اور تکلیف سے لڑتا رہا مگر اوریانہ فلاشی کے ناول ” A MAN“ کی پرتیں کھولنے سے باز نہ آیا۔ سات ماہ کی ایک سخت آزمائش سے گزرتے ہوئے اس نے ناصرف اپنی بیماری کے خلاف ایک کامیاب جنگ لڑی بلکہ اس ناول کا ایک خوبصورت ترجمہ کر ڈالا۔ عین اس دن جب لاکھوں دلوں کی اس دھڑکن کا پچھترواں جنم دن تھا‘ ”ایک مرد“ کے نام سے اس کا یہ ترجمہ منظر عام پر آیا۔ اس کے چاہنے والوں کیلئے یقیناََ اس سے زیادہ قیمتی تحفہ کوئی نہیں تھا۔ صرف یہی نہیں اس کی آواز بھی لوٹ آئی‘ اس نے اپنی بیماری کو بھی شکست دیدی تھی۔ وہ دوبارہ سے زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ پھر وہی ایف ایکس تھی جو اس کی صحتیابی کی خوشی میں سرشار اسے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لئے اُڑتی پھرتی نظر آنے لگی۔ چاہنے والے یار دوست اس پر واری جارہے تھے‘ سوشل میڈیا اس کی تصویروں سے بھرا پڑا تھا‘ شاگردوں کے جھمگھٹے اسے پھر سے گھیرنے لگے‘ بھابھی کے چہرے پربڑے عرصے بعد اطمنان بھری خوشی ناچنے لگی تھی۔
تاری (طارق سعید؛ خالدی کا چھوٹا بھائی جو رات دن اپنے بھائی کی خدمت میں جاگتا رہاتھا) نے بھی سکھ کاسانس لیا اور وہ پھر سے محبتیں بانٹنے میں جُت گیا۔گویا
بہار آئی تو جیسے یک بار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے‘ شباب سارے
مگر کسے معلوم تھا کہ زندگی سے بھرپور صرف ایک ماہ کا قلیل عرصہ ہی گزرے گا کہ نئے سرے سے حساب سارے بھی کھل جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو ایک بار خالدسعید سے مل لیا‘ وہ ہمیشہ کیلئے اس کا ہو گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح اگر کسی نے ایک بار اس کی کسی تخلیق کا مطالعہ کرلیا‘ وہ پھر کبھی اس کے ٹرانس سے باہر نہیں نکل سکا۔اس نے اپنی مضبوط قوت ارادی اوراعصابی حوصلے سے موت کو غچہ ہی نہیں دیا تھا بلکہ تخلیقی دنیا میں ایک نیا جنم لے کر واپس آیا تھا۔مگرلگتا تھا کہ اس کی اسی
ادا پر اجل بھی اپنا د ل دے بیٹھی تھی۔ اور پھر اس کے عشق میں رقابت اتنی آڑے آئی کہ وہ اسے ہم سب سے لے اُڑی۔زندگی سے بھرپور اس جیتے جاگتے چلبلے سے نوجوان پر ایک بار پھر اجل نے ڈورے ڈا لنے شروع کر دیئے جبکہ کسی کا دل توڑنا خالدی کی خصلت ہی نہیں۔ سو خود کو سوئیکارہونے سے نا روک سکا۔اس بار بھی اجل کا پیامبر سرطان ہی نکلا جس نے پہلے اس کے دماغ اور پھر جگر کو قابو کر لیا۔ مقابلے کی تگ و دو ایک بار پھر شروع ہوئی۔مگر اس دفعہ نا تو بھابھی کے رتجگے کام آ سکے‘ نا تاری کی بھاگ دوڑ‘ نا دوستوں کی دعائیں اور نا ہی اس کے عاشقوں کی اسے اپنا خون دینے کی منتیں۔ کیموتھراپی اور ریڈیو تھراپی دونوں نے اپنا پورا زور لگا ڈالا۔علاج کی اذئیت اپنی جگہ‘ مگر اس نے اپنے تخلیقی اعصاب کو برقرار رکھا۔ یہ اس کی ہمت اور جوانمردی کی ایک نا ختم ہونے والی کہانی ہے۔ وہ درد سے کراہتا بھی رہا’ مگر اس نے ملتان آرٹس فورم کی ہفتہ وار تنقیدی نشستوں کی رپورٹس کا ایک اور مجموعہ ”کولاج” مکمل کیا اور کیا خوبصورت اور فکشنائیزڈ رپورٹس تخلیق کیں۔ وہ خون بھی تھوکتا رہا مگرساتھ ساتھ اس نے”فسانہ ہائے دل” کے نام سے تقریبا”پانچ سو صفحات پر مشتمل اپنی پانچ مختلف تخلیقات کو ازسر نو ترتیب دیا۔ اس کی بھوک مرچکی تھی مگر اس نے گیبریل گارسیا مارکیز کے ناول Memories of My Melancholy Whores کا ترجمہ”پہلی پریت کی انتم ہار” کے نام سے مکمل کیا۔ وہ دوائیں بھی پھانکتا رہا مگراس نے نفسیات کے حوالے سے تین کتابوں کا ترجمہ ”ناﺅس” کے نام سے مکمل کیا۔ معدے کی بغاوت نے بھی دشمنی کی رہی سہی کسر پوری کر دی مگر اس نے اردو اکادمی ملتان کے حوالے سے اپنے مضامین اور خاکوں کو ”پرکبان“ کے نام سے کتابی شکل دے ڈالی۔ گویا اس نے قلم اور کتاب سے اپنا اٹوٹ رشتہ صبر آزما علالت کے باوجود بھی قائم رکھا ۔اور پھر جب وہ یہ سارے کام مکمل کر چکا تو چپکے سے آنکھ بند کر کے خاموش ہو گیا ۔اجل اپنے عشق میں سرخرو ٹھہری اور اسکی وہ سدا بہار مسکراہٹ ہم سے چھن گئی جس کی آغوش میں ہر شخص اپنے غم بھلا دیتا تھا۔ وہ جو ہم سب کی پہلی پریت تھا‘ ہم سب کی انتم ہار بن گیا۔
اپریل کی انتیسویں رات کے خاموش ماتم میں سسکیاں بھرتی قبرستان کی ہولناک خاموشی کانپتے ہاتھوں سے ایک تخلیقی عہدکوسپرد خاک کر رہی تھی۔ قبرستان کی دیوار سے ٹیک لگائے علی نقوی بچوں کی طرح گھٹی گھٹی سی سسکیاں بھرتا ہر ایک کو اس کی تازہ تخلیق ”ناؤ س“ کا ٹائٹل دکھاتا پھر رہا تھا جواسی دن منظر عام پر آئی تھی۔ایک کونے میں صلاح الدین حیدر اپنے ہمدم دیرینہ کی یاد میں گم سم اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے جذبات کی شدت کو قابوکرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ بار بار وہ نفی میں اپنا سر جھٹکتے جیسے موجود مگر تلخ حقیقت کو رد کررہے ہوں جبکہ طارق سعید (جس نے اپنے بھائی کی خدمت میں دن رات ایک کر رکھا تھا) کے چہرے سے ٹپکتی بے بسی سب کے سامنے تھی۔۔۔اور انورمسعود کا ایک شعر ہتھوڑے کی طرح ہمارے دماغ پر برس رہا تھا؛
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سپرد خاک کیا
اجل ایک رقیب روسیاہ کی طر ح مسکرا رہی تھی کہ اس نے ہمارا محبوب چھین لیا تھا۔مگر اس بات کا اندازہ ابھی اجل کو بھی نہیں تھا کہ وہاں کی دنیا میں بھی اس کے بیشمار محبوب ہیں جن سے ایک عرصے بعد وہ پینگیں بڑھانے والا تھا۔
آج جب ہم ان سطروں کی صف بندی کررہے تھے تو اسے کھونے کے دکھ کی شدت ہمارے ذہن اور قلم کی روانی کو کے آگے بار باربند باندھ رہی تھی اور کوشش کے باوجود ہم جذبات کی رو میں بہہ کر بے بس ہوئے جارہے تھے۔ہمیں یوں لگا جیسے و ہ کہیں اریب قریب ہی ہے اورکن انکھیوں سے ہمیں تاک رہا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح رات گئے وہ ہسپتال کے بستر پر سونے کا بہانہ کر کے آنکھیں موندے لیٹا ہمیں اپنی پائنتیوں میں بیٹھادیکھ تڑپ اٹھتا اور ڈانٹ کر کہتا ؛
”تم ابھی تک سوئے کیوں نہیں؟ صبح ہونے والی ہے۔منحوس (یہ بھی اس کا ہمیں پیار میں دیا گیا ایک لقب تھا جس کے ذریعے وہ ایک مسکراتی خفگی کا اظہارکیا کرتاتھا ) کچھ دیر کیلئے آرام کر لو “
اسی شس و پنج میں دل سے ایک ہوک اٹھی اور ہچکیوں میں ڈھلتی چلی گئی۔ ایک دم سے اس نے سامنے والے شیلف میں رکھی ”معنی کی تلاش “کا سہارا لیتے ہوئے ”بالشتئے سُن“کی ٹائٹل پکچر سے سر نکال کرسگریٹ کا ایک لمبا کش بھرا اور دھویں کی دھندھلاہٹ کے پرے سے مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے چلایا؛
’ ’میں کہیں نہیں گیا منحوس۔میں یہیں ہوں ۔تمہارے پاس۔ذرا اوریانہ فالاشی کے ”خط اس بچے کے نام جو پیدا نہیں ہو سکا“ میں جھانکو تو سہی ۔تمہیں جیتا جاگتا خالد سعید نظر آ جائے گا۔وہ گرد سے اٹی ” کتھا ایک ناری کی“کو جھاڑ کر دیکھو تو سہی۔ یہیں
کہیں تمہیں میرالاشعور بھی مل جائے گا جسے میں نے زیادہ وضاحت کے ساتھ ”نیلی شام“ میں شامل اپنی نظموں میں بھی ظاہر کر دیا تھا۔اور اگر تم میرے وجود کو چھونا چاہتے ہو تو ”ایک مرد“ کو سمجھنے کی کوشش کرو جسے میں نے اپنی تمام تر اذئیتوں اور کرب ناک
لمحوں کے باوجود مکمل کیا“
پھر ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے پوچھا؛
”سوال کے ہاتھ‘ سمے کی مچھلی“ یاد ہے تمہیں؟اس میں میرا مافی الضمیرتمہیں ہوکے بھرتا ملے گا“
خلاف توقع اس نے سگریٹ کی راکھ جھاڑی‘ ایک اور لمبا کش بھر تے ہوئے بولا؛
”بند کرو میرا سوگ منانا۔ میں تمہیں بہت یاد آتا ہوں نا؟ تو یہ کرو کہ میرے موضوعات کی نفسیاتی توجیح ڈھونڈو کہ آخر میں نے ان کا ا نتخاب کیوں کیا۔تراجم کے پس منظر میں وہ کون کون سی مماثلتیں تھیں کہ میں ان کی طرف راغب ہوا۔ نظموں اور افسانوں کی فضا کے وہ کون سے معروضی حالات تھے جنہوں نے مجھے ان کی تخلیق پر اکسایا۔ جس دن تم یہ سب سمجھ جاؤ گے ‘ اس دن مجھے اندازہ ہو گا کہ تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو اورکتنا مجھے یاد رکھتے ہو“
آنسوؤ ں کی ایک لڑی آنکھوں سے ٹپکی اورپابلو نیوردا کی نظموں کے تراجم پر مبنی اس کے مجموعے ”تمہارے پیر مرمریں“ کے بیک ٹایٹل پر چھپی اسکی تصویر میں جذب ہو گئی۔