آٹھویں کراچی لٹریچرفیسٹیول میں ”لٹریچرکتناتھا،رواں برس کے عنوانات سے اندازہ کیاجاسکتاہے۔کتابوں کی تقریبات ،تصاویر کی نمائش،ایوارڈز کی تقریبات،رقص وموسیقی کی محفلیں،اسٹینڈ اپ کامیڈی کے علاوہ جو کلیدی سیشن ہوئے،ان میں چند ایک ادب کے نام لیواتھے،ورنہ دیگر سیشن کے عنوانات کی نوعیت کچھ اس طرح کی تھی ،جیسا کہ ، موسیقی کاسفر،غیرت کے مختلف ادوار،ماحولیاتی تبدیلی اورایٹمی جنگ،مڑی تڑی تاریخ اورنصاب،پاکستان کے قوانین میں اقلیتیں،پاکستان ،سخت اور لچکدار قوم؟جنوبی ایشیا پر بین الاقوامی اورعلاقائی سیاست کے اثرات،افغانستان کے ساتھ تعلقات،علاقائی اورقومی شناخت ، تحفظ اورمعاشیات،خارجہ پالیسی کے تناظر میں،پاکستان کے فیشن،فلم،میوزک کامستقبل،فائن آرٹ کے معاملات،تقسیم اور ہجرت،تعلیم کے فروغ میں ہار اورجیت کی بحث۔ان کودیکھ کر بتائیے کہ اس میں ادب کی خدمت اورمطالعے کے فروغ کاکون ساپہلو ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیداہوتاہے،پاکستان کے شعروادب کی نمائندگی کرنے والے اس فیسٹیول میں ، پاکستان کے مثبت تاثر کے لیے کچھ ہوا؟جے پور لٹریچر فیسٹیول میں حافظ سعید کسی سیشن کا موضوع بن سکتے ہیں تو یہاں بال ٹھاکرے کی شخصیت کیوں موضوع نہیں بن سکتی؟ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد کی ہلاکت کبھی کسی سیشن کاموضوع ہوگی؟ پشاور کے کیڈٹ اسکول میں شہید ہونے والے بچے کیوں کبھی یہاں موضوع نہ بن سکے؟کراچی شہردو دہائی تک ”نامعلوم“افراد کے ہاتھوںیرغمال بنارہا،ہزاروں جانیں گئیں،جن میں کئی قلم کاربھی شامل ہیں،وہ ان موضوعات کی ترتیب میں کہیں نہیں ہیں۔کسی بھی سال اورکسی بھی فیسٹیول میں کیوں اس طرح کے موضوعات کا احاطہ کرنے کی سعی نہیں کی گئی جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ حکومتی ادارے ہوں یانجی تنظمیں،وہ یہ ادبی میلے کرتی ہیں۔آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا،اس کے پیچھے چند ایک اشخاص کے ذاتی ثمرات بھی پنہاں ہیں،جن کو ہر باشعور دیکھ اور محسوس کرسکتاہے،چلیں سمجھ آتاہے ،جب نیرنگ سیاست پر ایساوقت آیاہو،وہاں ادب کے نام پر بھی کچھ تعمیری ہونا بعید نہیں ۔ اس صورتحال میںچاہے کوئی نہ بات کرے،لیکن ان اہل قلم کوتاریخ کے سامنے جوابدہ ہونا ہوگا،جن کی کہانیوں کے کردار مظلوم تھے،جن کی شاعری کے موضوعات ناانصافی اوراستحصال تھے،جن کی سماجیات میں حق تلفی، بناوٹ ،جھوٹ اورخوشامد تھی،وہ ادب کی بناوٹی سرگرمیوں اورکمپنی بہادر کے میلوں ٹھیلوں میں گم رہے۔ان کے لکھے ہوئے حروف ہی ،تاریخ میںان کے خلاف گواہی بن جائیں گے ۔یادرکھیے ،تاریخ کاحافظہ بہت تیز اورنظر باریک ہوتی ہے۔
یہ فیسٹیول اتنا پرسان حال ،نیم مردہ اور جعل سازی کا مرکب بن چکاہے،جس کو برداشت کرنا ممکن نہیں ۔مزید باریکیاں دریافت کرنے کی خواہش ہو توپاکستان کے سابق وزیر داخلہ اورپاکستان میں پہلی انگریزی فلم بنانے والے فلم ساز”جاوید جبار“سے رابطہ کرسکتے ہیں۔معروف مدرس اورماہرلسانیات”ڈاکٹر روف پاریکھ “سے بھی پوچھا جاسکتاہے،جواوکسفرڈیونیورسٹی پریس ،کراچی کے ساتھ،لغت کے شعبے کے لیے کام کرتے ہیں ،مگر آج تک کسی سال بھی ،کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شریک نہیں ہوئے۔انگریزی زبان میں ہفتہ وار ادبی کالم بھی لکھتے ہیں۔ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔
ان دوشخصیات کے علاوہ بھی کئی ادبی شخصیات خاموش ہیں۔پاکستان کے انگریزی ادب کی ایک نئی آواز،ذوالفقارعلی بھٹوکی پوتی،فاطمہ بھٹو،دنیا بھر کے ادبی میلوں میں شریک ہوتی ہیں ،وہ فکشن نگارہیں،مگرنان فکشن موضوعات پر عالمی اخبارا ت کے ادارتی صفحات کاحصہ بنتی رہی ہیں۔کمپنی بہادر کے 8برسوں میں ،ان کا تذکرہ بھی ندارد ہے،وہ بھی کراچی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اوکسفرڈیونیورسٹی پریس ،کراچی کی اردوانگریزی لغت ،جس کو شان الحق حقی نے مرتب کیاتھا،جبکہ اس میں ماہرلسانیات اور شاندار مترجم سلیم الرحمن کی معاونت بھی دستیاب تھی۔دونوں ہم عصر تھے اورایک دوسرے کے دوست بھی۔شان الحق حقی کوکبھی یاد نہیں کیا۔دیگر کئی بڑی ادبی شخصیت کا تذکرہ میں گزشتہ برسوں کی تحریروں میں کرچکا ہوں،ان پر توجہ کرنے کاتکلف بھی نہیں کیاگیا۔معروف انگریزی ناول نگارمحمد حنیف نے ،نئی آوازوں کی تلاش میں بھی اتنی عجلت پسندی کامظاہرہ کیاگیا،ایک ناول نگار،جوہمارے دوست اور بہت اچھے شاعرہیں ،مگرابھی ان کاپہلاناول ،جو کتابی شکل میں شایع بھی نہیں ہوا،ان کو اسی برس ،فوری طورپر،نئی آوازوں میں، ناول نگار کے طورپرتسلیم کرلیاگیا۔اسی شہر میں متعدد نئی ،کئی ایک معروف آوازیں بھی ہیں ،جنہوں نے ایک سے زیادہ اورکئی اچھے ناول لکھے،مگرانہیں ابھی تک کوئی محمد حنیف میسر نہیں آئے۔ ان دنوں ، اوکسفرڈیونیورسٹی پریس ،کراچی کوکاروباری ضرورت کے تحت،ایک نئی اور جامع لغت کانیا ایڈیشن شائع کرنامقصودہے،جس کے لیے ایک بار انہوں نے پھرڈاکٹر نعمان الحق کے ذریعے سلیم الرحمن صاحب سے رابطہ کیا،جس پر انہوں نے معذرت کرلی۔فوری طورپر کچھ رقم بھی پیشگی دینے کی پیشکش کی گئی،جس پر بقول سلیم الرحمن صاحب”مجھے معاملہ مشکوک لگا،میں نے منع کردیا،کیونکہ اس سے پہلے میں سارہ نقوی اورشان الحق حقی کی لغت پر بھی معاونت کرچکا تھا،جس کی ایک جلد بھی ،مجھے دینے کوروادارنہیں تھے،میرے بہت اصرار پر ،پھر ایک ایک جلد بھجوائی گئی،میں نے اسی وقت طے کرلیاتھا،ان کے لیے اب کوئی کام نہیں کروں گا۔“اس کے علاوہ بھی انہوں نے تفصیل سے کمپنی بہاد ر کے منفی رویوں پر بات کی۔
ڈاکٹر سلیم الرحمن نے دومہینے پہلے ،مجھ سے انٹرویومیں یہ گفتگو کی ہے،ضرورت پڑنے پر جس کی ریکارڈنگ بھی پیش کی جاسکتی ہے۔یہ ہے علمی خدمت اورمطالعے کے فروغ کا اصل ورژن۔کتب کے اعزازات کی ریوڑیاں بھی ”اندھابانٹے اپنوں میں“کے مصداق ہے،کوئی اوکسفرڈیونیورسٹی پریس ،کراچی کامصنف ہے،توکوئی فیسٹیول ڈائریکٹر کاشناسا۔ اوکسفرڈیونیورسٹی پریس ،کراچی سے کسی عام مصنف کوکوئی کتاب شایع کروانا مقصود ہوتوان کے روایتی ضابطے کی کاروائی کے مطابق،ایک سال کاعرصہ درکار ہوتاہے،جس میں مصنف کو بتایاجاتاہے کہ اس کی کتاب شایع ہوسکے گی،یانہیں ،البتہ جن کی ادارے سے کوئی تعلق داری نکل آئے،اس کے لیے راوی بڑی تیزی سے چین لکھتا ہے۔اس تناظر میں سیاستدان،این جی اوز،بڑے اداروں کے صحافی،دیگر کی کتابوں کودیکھاجاسکتاہے۔
اس طرح کی شخصیات کی صلاحیتوں کا اعتراف اور ان کی کتاب چھاپنے کافیصلہ کرنے میں زیادہ وقت کی ضرورت نہیں پڑتی،ہنگامی بنیادوں پر مگر خوش اسلوبی سے یہ کام نمٹا لیاجاتاہے۔پاکستان کے کئی مقامی اور چھوٹے تاجر ،اس ادارے کی نصابی کتابوں کے حوالے سے جعل سازی کرنے پر دھرے جاچکے ہیں ،مگر یہ جعل سازی ،جس میں نصاب کی کتابیں بیچنے والے ، اب نصاب بیچنے پر اتر آئے ہیں۔ادب کی پیکنگ میں پاکستانیوں کا تشخص فروخت ہورہا ہے،اس کا کوئی حساب کتاب رکھے گا۔ سلیم الرحمن سے جب ان ادبی تماشوں پر ،انٹرویو کرتے ہوئے ،میں نے سوال پوچھا”ادب کے نام جوکچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے،اس پرآپ کو غصہ نہیں آتا؟“توان کا جواب ہی عہدحاضر کاادبی منظر نامے کاعکاس ہے۔وہ کہتے ہیں۔”ملک میں اورجوکچھ ہورہاہے،اس کے بعد یہ توبہت معمولی چیز ہے۔ہمیں کوئی کھانے اورپینے کی چیز بغیر ملاوٹ کے نہیں ملتی،دوائیں جعلی ہیں،حکومت نے طے کرلیاہے کہ تعلیم اور صحت ،اس کی ذمے داری ہی نہیں ہے،پھرظاہر ہے،جب اوپر یہ حال ہے،توادب میں ایسی ہی حرکتیں ہوں گی۔“
کتابوں کی کمپنی بہادر،ادب اورمطالعہ فروغ کے نام پر ، غیرادبی سرگرمیوں کامسلسل جشن جاریہ، برپا کیے ہوئے ہے۔۔۔
فیس بک کمینٹ