اس دفعہ سرکاری سطح پر تو معلوم نہیں مگر سول سوسائٹی نے پورے پاکستان میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ عورت راج کہہ کر جلوس نکالے ، بہت بینرز اور پوسٹرز دل کا غبار نکالنے کیلئے نوجوان بچیوں نے بنائے اور لہرائے، کچھ ایسے تھے جن پر تنگ نظر تو کیا ہر ہوش مند کو اعتراض ہوسکتا تھا میں نے ان کے پرنٹ آؤٹ ان بچیوں کو دکھا کر شرمندہ کرنے کی کوشش کی مگر ایک لہر ہے جوش اور بغاوت کی کہ کوئی عقل کی بات نہیں سننا چاہتا، پھر بھی خوشی ہے کہ اس دفعہ بہت بڑی تعداد میں جوان بچے بچیاں شریک ہوئے اور عورت محاذ عمل کو تقویت بخشی۔مگر میرا سوال پورے پاکستان کے لوگوں اور خاص کر وکلا حضرات کے علاوہ پارلیمنٹ میں موجود خواتین سے بھی ہے کہ ہم نے 1983ء میں قانون شہادت کیخلاف جلوس نکالا تھا، وہ اتنا یادگار رہا کہ اسی جلوس کے باعث 12؍فروری کو پاکستانی خواتین کا دن قرار دیا گیا، اس دن کے لحاظ سے بڑے جلسے ہوتے ہیں،مگر قانون شہادت جو پاس ہوا تھا ضیاء الحق کے زمانے میں، اس کو تبدیل کرنے کی آوازیں کہیں سے بھی نہیں اٹھ رہیں ، امید ہے ہمارے عابد منٹو یا اعتزازاحسن ہی بہت سارے انسانیت کے حوالے سے مقدمات کو جھیلتے ہوئے وہ کام کریں جسے اجتہاد کہا جاتا ہے، علاوہ ازیں ہماری سپریم کورٹ میں ایک بھی خاتون جج نہیں ہے، اس پر بھی چیف جسٹس صاحب کو توجہ دینا ہوگی، ایک اور بات میں اپنے دوستوں خاص کر اظہارالحق صاحب سے کہنا چاہتی ہوں بصد ادب کہ بچوں کو تنبیہ کرنا چاہئے، اس کو قضیہ نہیں بنانا چاہئے۔
محترمہ بشریٰ بی بی سے بھی مجھے کچھ کہنا ہےکو ملک کی چیدہ خواتین کے ساتھ مکالمہ کریں، جو مسائل ان کو درپیش ہیں ان کو حل کرنے کیلئے لائحہ عمل مرتب کریں اور پھر مل کر ہنسیں، گائیں کہ دنیا بھر کی خواتین خوش ہوکر اور عید کی طرح یہ دن مناتی ہیں۔
اچھا اب ایک اور اہم موضوع کہ میں گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب ان اداروں کو دیکھنے گئی جن کو حکومت یا اوقاف کے محکمے نے اپنی تحویل میں لیا ہے۔ مجھے محکمہ اوقاف سے کسی خوش خبری کی توقع نہیں، اس لئے کہ عام سڑک پر چلنے والے لوگ جنوبی پنجاب میں کہہ رہے ہیں کہ یہ ادارے ہر چند دہشت گردوں کی مبینہ مدد کرتے گردانے جاتے رہے ہیں، کل جومدارس اور فلاحی ادارے یہ لوگ چلا رہے تھے ان کو معاشی اور تنظیمی سطح پر باقاعدگی سے نئے لوگ چلا سکیں گے، کیا ان کی فنڈنگ کرنے والوں کے راستے کو مسدود کرکے کہیں سے سرمایہ فراہم کرسکیں گے، جبکہ صورت حال یہ ہو کہ کرائسز سینٹر چلانے والوں کو گزشتہ 9؍ماہ سے تنخواہ ہی نہیں ملی ہے۔ یہ فیصلہ اور قدم بہت مستحسن ہے، مگر ان اداروں کو ہوش مندی سے چلانے کیلئے محکمہ اوقاف کے پاس نہ اتنی افرادی قوت ہے اور نہ کبھی انہوں نے فلاحی کام کیا ہے، کچھ اداروں کو ایدھی فائونڈیشن، اخوت کے ماتحت یا پھر این آر ایس پی کی تحویل میں دیا جائے یا پھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ایک شعبہ ان کے انتظام کو چلانے کیلئے مخصوص کردیا جائے کہ وہ دین اور دنیا دونوں کو احسن طریقے سے چلاسکیں۔
اب ذرا بات ہوجائے، ان مذہبی چینلوں کی جو لوگوں نے ذاتی طور پر قائم کئے ہیں، وہاں پہ استخارہ کرنے سے لیکر ہر مرض کی دوا سجھائی جاتی ہے اور لوگوں کو اللہ سے ہر وقت ڈرایا جاتا ہے، اس کو مہربان تو کہا ہی نہیں جاتا ہے۔ پیمرا کو چاہئے کہ ان خودساختہ مذہبی رہنمائوں سے قوم کو بچائیں کہ اب چینل زیادہ ہوگئے ہیں، پروگرام کم تو ہر تیسرے چینل پر پہلے انڈین فلمیں چلاتے تھے، اب پانچ چھ چینل کارٹون مسلسل چلا رہےہیں، کہیں تو مشاعرے، مباحثے، ادبی موضوعات اور کچھ نہیں تو پرانے کلاسیکی ڈرامے بھی چلا دیں، کہنے کو پی ٹی وی سرکاری ادارہ ہے، ٹی وی کے مہمانوں کو پیسے دیتا ہے، تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ کئی سال سے پروگرام سے پہلے کنٹریکٹ پر دستخط کروالئے جاتے ہیں، ہم سب کو کئی سال سے چیک نہیں ملا، جبکہ بی بی سی والے میرے ایک نظم یا انٹرویو ریکارڈ کرنے کے بعد چیک بھیج دیتے ہیں۔
اب سرکار سے کیا کہیں وہ تو بے چارے 148؍ ادارے فروخت کرنے کو تیار ہے، اگر یہی ارادہ ہے تو یہ 52؍وزارتوں کو کم کریں، کمپیوٹر کا استعمال زیادہ کریں، کاغذ کا استعمال کم کریں، اسٹاف جیسے آپ نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کا کم کیاہے، ہر چند وہ تنخواہ اسی مد میں لئے جا رہے ہیں، باقی اسٹاف کو ادھر ادھر کردیں، اگر یوں ہوا تو وہ 60؍لاکھ بیروزگار نوجوان کہاں جائیں گے کہ انہیں بھی نوکری دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے، واقعی اس حکومت کے سر پر بہت بوجھ ہے اور پھر ہر وزیر کو ٹی وی پہ آنے اور اسمبلی میں بلا ضرورت بولنے کا بھی شوق ہے، میں تو حیران ہوں اسد عمر پر، اچھا بھلا پڑھا لکھا سنجیدہ شخص دکھائی دیتا تھا، یہ ماں کا نام لیکر چوہان کے لہجے میں کیوں بولنے لگا، بقول فیض ’’خیر ہوتیری لیلاؤں کی‘‘
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ