ڈاکٹر غزالہ خاکونی کو میں نے پہلی مرتبہ اک ایسی ادبی تقریب میں دیکھا جس کا انعقاد مرحومہ ثمر بانو کی تنظیم حریم فن نے کیا تھا۔ نامور شاعر عاصی کرنالی کی اہلیہ ثمربانو خود بھی منفرد لہجے کی شاعرہ اور افسانہ نگار تھیں۔
تقریب میں میں صحافی ، شاعرہ اور ادیبہ نوشابہ نرگس کے قریب بیٹھی ایک شاعر کو سن رہی تھی کہ ایک قدآور گوری چٹی خوبصورت لڑکی اپنی لمبی کھلی زلفوں کے ساتھ محفل میں وارد ہوئی ۔اس محفل میں اس نے اک بولڈ افسانہ پیش کیا تو کچھ لوگ چونک اٹھے۔
غزالہ جو محسوس کرتی وہ نظم کر لیتی ۔۔
اس کی کتابیں اس کے ان جذبوں کی عکاس ہیں جو کچی عمر کی لڑکیوں کے ہوتے ہیں یا معاشرتی رویوں سے مایوس اک ایسی دوشیزہ کے جو تتلیوں کی طرح اڑنا چاہتی ہے مگر رسم ورواج کے ہاتھوں اس کے پر بندھے ہیں۔
ڈاکٹر غزالہ خاکوانی منافقت سے پاک سچی کھری باتیں کرنے والی لڑکی تھی۔اسلام آباد شفٹ ہونے کی وجہ سے میری اس سے زیادہ ملاقات نہیں رہیں ۔لیکن ملتان واپسی پہ میں نے اپنے پروگرامرز سے کسی مشاعرے میں غزالہ کو شامل کرنے کا مشورہ دیا تو معلوم ہوا کہ اب وہ تنہائی پسند ہو چکی ہے۔اس کی صحت بھی سازگار نہیں ہے۔
ملتان میں ملاقاتوں کے دوران میں نے اسے مشاعروں میں واپس لانے کی کوشش کی اس کے مشاعرے کی ریکارڈنگ شاید ملتان ریڈیو پہ محفوظ ہو ۔وہ ذہنی تناؤ کا شکار تھی۔ چند شاعروں سے اسے ناروا سلوک کا گلہ بھی تھا۔اک حسین لڑکی کے سراپے سے طبی مسائل سے متاثر اس کے خدوخال میں رعنائی بھی تھی اور سوگواریت بھی۔۔۔ مجھ سے ملاقات کے دوران اس نے اپنی تنہائی کم کرنے کے لیے کسی بچے کو گود میں لینے کا اردہ کیا تھا۔اللہ کریم اس کی مغفرت فرماے۔آمین۔
فیس بک کمینٹ