خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں حکمران تحریک انصاف کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ جمیعت علمائے اسلام (ف) نے متعدد علاقوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی بھی قابل قدر سیاسی نمائیندگی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے حالانکہ انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات میں اس پارٹی کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا۔
تحریک انصاف کے لئے خاص طور سے پشاور کے مئیر کا نتخاب ہارنا شرمندگی اور پریشانی کا سبب ہونا چاہئے جہاں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار زبیر علی نے اپنے مد مقابل تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں پر واضح برتری حاصل کی ہے اور تقریباً بارہ ہزار زیادہ ووٹ حاصل کرکے شہر کا پہلا مئیر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ انہیں 63 ہزار سے زائد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ تحریک انصاف کے امیدوار رضوان بنگش کو50ہزار 659 اور پیپلز پارٹی کے امیدوار زرق ارباب کو45 ہزار ووٹ ملے۔ صوبے میں چھے سال بعد بلدیاتی انتخاب منعقد ہوئے ہیں۔ یہ انتخابات فاٹا علاقوں کے صوبے میں ادغام کے بعد پہلی بار منعقد ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے لئے ان انتخابات میں ناکامی اس لحاظ سے بھی پریشان کن ہے کہ یہ پارٹی 2013 سے خیبر پختون خوا میں صوبائی حکومت کی نگران ہے۔ اس کے علاوہ عمران خان کی قیادت میں 2018 سے مرکز میں بھی پی ٹی آئی ہی کی حکومت ہے۔ واضح رہے باقی صوبوں کی طرح خیبر پختون خوا کی حکومت نے بھی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات منعقد کروانے کا اہتمام کیا ہے۔
صوبے کے 17 اضلاع کی 64 تحصیلوں میں آج بلدیاتی انتخاب منعقد ہؤا۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق ان تحصیلوں میں سے اب تک 18 تحصیلوں کے چئیرپرسن کی پوزیشن کے لئے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے امیدوار کامیاب ہورہے تھے جبکہ تحریک انصاف کو 14 تحصیلوں کے چئیر مین کے مقابلے میں برتری حاصل تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی 9 مقامات پر اور آزاد امیدوار بھی 9 تحصیلوں میں کامیاب ہورہے ہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کو دو دو تحصیلوں میں چئیرمین کا عہدہ مل سکتا ہے۔ ان انتخابات میں مجموعی طور پر اپوزیشن جماعتوں کو حکمران تحریک انصاف کے مقابلے میں برتری حاصل رہی ہے۔ البتہ جمیعت علمائے اسلام (ف) صوبے کے بلدیاتی انتخابات کی فاتح رہی ہے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کے علاوہ صوبائی وزرا شوکت یوسف زئی اور عاطف خان نے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کو تسلیم کیا ہے۔ صوبائی وزرا کا خیال ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام نے احتجاجاً تحریک انصاف کے خلاف ووٹ دیے ۔ شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ دو سے تین ماہ میں مہنگائی کم ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف سے ناراض ووٹر واپس آجائے گا۔ البتہ شبلی فراز نے مہنگائی کے علاوہ پارٹی کے اندرونی اختلافات کو بھی بلدیاتی انتخابات میں مایوس کن نتائج کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف ہی تحریک انصاف کے مقابلے میں اتر آئی تھی جس کا اسے نقصان ہؤا۔ شبلی فراز نے کہا کہ انتخاب کے بعد پارٹی تمام عوامل کا جائزہ لے گی اور دیکھا جائے گا کہ اس ناکامی کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔
حکمران جماعت کے نمائیندوں نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے باوجود امید ظاہر کی ہے کہ پارٹی اپنی کمزوریوں پر قابو پاکر مستقبل میں ایک بار پھر انتخابی کامیابی حاصل کرے گی۔ شبلی فراز بھی مہنگائی کو تحریک انصاف کی شکست کی ایک وجہ مانتے ہیں لیکن صوبائی وزرا کے برعکس انہوں نے دو تین ماہ میں قیمتوں میں کسی ڈرامائی کمی کی امید ظاہر نہیں کی اور کہا کہ قیمتوں میں اضافہ عالمی عوامل کی وجہ سے ہے۔ دنیا کے سب ملکوں میں قیمتوں میں اضافہ ہؤا ہے۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف باہمی اختلافات دور کرکے موجودہ سیاسی مشکل سے باہر نکل آئے گی۔ رات گئے تک پارٹی کے چئیرمین اور وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے ان نتائج پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا تھا۔اس کے برعکس اپوزیشن لیڈروں نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی کو ملک کے سیاسی رویہ میں تبدیلی اور تحریک انصاف کے مستقل زوال سے تعبیر کیا ہے۔ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے لیڈر مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے کہ اس انتخاب سے واضح ہوگیا ہے کہ جے یو آئی ایف خیبر پختون خوا کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ ہم صوبے کے حقیقی نمائیندے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض عناصر قومی سطح پر ہماری کامیابی سے پریشان ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ شاید امریکہ اور مغرب کے لئے جمیعت علمائے اسلام قابل قبول نہیں ہوگی۔ کیوں کہ ہم دین کی بات کرتے ہیں ۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکہ افغان طالبان کے ساتھ معاملات کرسکتا ہے تو ہمارے ساتھ بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہ ہماری جماعت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور ہم ہی قوم کو موجودہ بحران سے نکال سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ اب سیاست دانوں پر کیچڑ اچھالنے اور انہیں بدنام کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے کیوں جو عناصر سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی مہم چلاتے رہے ہیں ، وہ ان سے کہیں زیادہ بدعنوان ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں تحریک انصاف کی شکست کو تبدیلی کے نعرے کی مکمل ناکامی سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی جا رہی ہے۔ وہ بھی رسوائی، بدنامی اور کروڑوں بددعائیں سمیٹ کر ۔ بائیس کروڑ کے ملک کو مہنگائی، لاقانونیت، نالائقی اور نااہلی کی دلدل میں دھکیل کر۔ ہر شعبہ میں بدترین اور تاریخی ناکامی کے انمٹ داغ اپنے ماتھے پر سجا کر وہ جا رہی ہے تبدیلی‘۔ مریم نواز کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کا باب پاکستانی سیاست میں تمام ہؤا ۔ عوام اب اس حکومت سے عاجز آچکے ہیں اور اب کسی بھی انتخاب میں اسے کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔
دوسری طرف نواب شاہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا کہنا تھا کہ تجربات نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت ہی ملک کو چلا اور سنبھال سکتی ہے۔ ملک پر جب بھی کوئی مصیبت آئی پیپلزپارٹی نے ہی اس کو سنبھالا ہے۔ ہم اب بھی تیار ہیں لیکن بات سیدھی ہے کہ پہلے ان حکمرانوں کی چھٹی کرو، پھر ہم سے بات کرو تو پھر ہم ملک سنبھالیں گے۔ آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پہلے روز ہی کہا تھا کہ یہ حکومت نہیں چلے گی چوں چوں کا جو مربہ بنایا ہے وہ نہیں چل سکتا۔ اس حکومت نے تو ملک کا خانہ خراب کر دیا ہے۔ مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے ۔منی بجٹ پیش کیا جارہا ہے، غریب عوام سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ ہم عوام کے مسائل سے آگاہ ہیں‘۔آصف زرداری نے براہ راست خیبر پختون خوا کے بلدیاتی نتائج پر تو تبصرہ نہیں کیا لیکن موجودہ حکوت کے متبادل کے طور پر خود کو پیش کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی آنے والی ہے۔ ان کی باتوں سے یہ تاثر لینا مشکل نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی خود کو تحریک انصاف کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے عوام کی رائے کی بات نہیں کررہی بلکہ اسٹبلشمنٹ سے براہ راست موجودہ حکومت کی چھٹی کروانے اور پیپلز پارٹی کو موقع دینے کا ’مطالبہ‘ کررہی ہے۔ دلچسپ پہلویہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخاب میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد کچھ ایسا ہی مطالبہ کیا ہے۔ ان کا بھی آصف زرداری کی طرح یہی کہنا ہے کہ صرف ان ہی کی جماعت ملک کو موجودہ مسائل سے نکال سکتی ہے۔ یعنی جو پیش کش پیپلز پارٹی کے لیڈر کررہے ہیں ، اس سے ملتی جلتی پیشکش پاکستان جمہوری تحریک کے صدر کی جانب سے بھی کی جارہی ہے۔ ایک صوبے کے بلدیاتی انتخاب سے سامنے آنے والے نتائج کی روشنی میں ملکی سطح پر تبدیلی کی باتیں کرنا، نہ تو آئینی عمل کا طریقہ ہے اور نہ ہی اس سے جمہوری تقاضے پورے ہوسکتے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی ناکامی پارٹی کے لئے ضرور دھچکہ ہے لیکن اس سے صوبائی یا قومی اسمبلی میں پارٹی کی سیاسی پوزیشن پر اثر نہیں پڑے گا۔ اس کا مظاہرہ آج شوکت ترین کو واضح اکثریت سے سینیٹر منتخب کرواکے کیا بھی گیا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کو یہ ضرور سمجھنا ہوگا کہ اب وہ محض دوسروں پر الزام تراشی اور سابقہ حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرا کر عوام کی سیاسی حمایت حاصل نہیں کرسکے گی۔ اب بھی اس کے پاس کچھ وقت ہے۔ اگر وہ 2023 میں دوبارہ کامیابی کی خواہشمند ہے تو اسے الزامات ، نعروں اور سہانے مستقبل کے خواب دکھانے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اب عوامی مسائل کا ادراک کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کا ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ سامنے لانا ہوگا۔ عمران خان کو تقریروں کے زور پر اپنی مقبولیت اور سیاسی اصابت پر اصرار کرنے کی بجائے عوام کی مشکلوں اور تکلیفوں کا احساس کرنا ہوگا اور یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کی حکومت داخلی اور خارجی سطح پر یکساں طور سے ناکام رہی ہے۔ اب اصلاح احوال کے لئے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن لیڈروں کو ایک صوبے کے انتخابات کی بنیاد پر حکومت کا تختہ الٹنے کے خواب دیکھنے کی بجائے یہ واضح کرنا چاہئے کہ وہ بہر صورت جمہوری طریقہ اختیار کریں گے اور دھاندلی یا نامزدگی کے جو الزامات عمران خان پر عائد کئے جاتے ہیں، مستقبل میں وہ اپنا دامن ویسے ہی الزامات سے آلودہ نہیں ہونے دیں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اقتدار حاصل کرنے کے لئے اسٹبلشمنٹ سے امداد کی بھیک مانگنے کی بجائے یہ واضح کرنا چاہئے کہ مستقبل کے کسی ایسے انتخاب کو قبول نہیں کیا جائے گا جس میں کسی خاص گروہ یا جماعت کو نکالنے یا لانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ جمہوری عمل کو شفاف بنائے بغیر کوئی ایک پارٹی یا فرد اس ملک کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ