کورونا وائرس نے پوری دنیا کی زندگی کے رنگ و بو چھین لئے ہیں ،سائنس جو ترقی کے بام عروج پر خود کو کھڑا پاتی تھی ،اس ننھے سے خوردبینوں سے بمشکل دکھائی دینے والے وائرس کے سامنے سرنگوں ہے ،غم حیات کی مثل انسانی جسم و جاں سے لپٹے اس آزار نے انسان کو گھر کے درودیوار میں مقید کر دیا ،ہاں مگر جو اس روگ میں مبتلا ہیں وہ حکومتی ہسپتالوں کے رحم وکرم پر ہیں ،ایسا رحم وکرم جو اِن روگیوں تو کیا ان کے مسیحاؤں تک کی حیات کے در پے آزار ہے اور یہ مسیحا بھی کیالوگ ہیں کہ زندگی ہتھیلیوں پررکھے رات دن ایک جنون میں مبتلا ہیں ایسا جنون جسے ”رقصِ جنوں “کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
وہ جواں عمر ڈاکٹر جن کی جوانی بام عروج پر تھی کہ آسودہ خاک ہوئے ان کے پیاروں سے کوئی پوچھے کہ ان پر کیا بیتی ،حکومت نے ان کے ورثا ءکے زخموں پر کون سے پھاہے رکھے ؟کس امید کے دلاسے پر انہیں جینے کا حوصلہ دیا؟دیا بھی یا نہیں ،کہ ہمارے قومی رویوں میں بے اعتنائی کا عارضہ بھی ایک وائرس کی طرح ہے جس کے اندر بے رحمی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔
ملتان میں کیا ہوا ایرانی شہروں قُم اور مشہد،زبردستی بھیجے جانے والے زائرین کے ساتھ قافلہ سالار نے کیا کچھ کم کیا تھا کہ رہتی سہتی کسر ملتان قرنطینہ والوں نے پوری کی ،کہ مارچ میں آنے والے زائرین کو مختلف حیلوں بہانوں سے قرنطینہ سنٹرمیں محبوس رکھا ،ان کے ہنگاموں ، احتجاج، دھرنے اوربھوک ہڑتال پر کوئی توجہ نہ دی ،یہ بجا کہ وقتاََ فوقتاََ کئے جانے والے ٹیسٹوں میں زائرین میں سے بعض کے ٹیسٹ مثبت آتے رہے مگر جن کے منفی آتے تھے ان کے کس گناہ کی پاداش میں انہیں گھروں کی اور نہ جانے دیا جن میں نوجوان خواتین بھی شامل تھیں ۔
عالم تو یہ بھی رہا کہ قرنطینہ میں مقیم نوجوانوں کے کبڈی کھیلنے کی وڈیوز وائرل کی گئیں ،جس میں تماشائیوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی ،یہاں تک کہ قرنطینہ سنٹر میں ایک مذہبی محفل کا انعقاد بھی کیا گیا ،جس میں social distence کی خوب دھجیاں اڑائی گئیں ۔
لاک ڈاؤن کیا ہے ایک ہنگامی اقدام جس میں وائرس کے پھیلنے کے خطرے کے پیش نظر لوگوں کو اپنے گھروں یا حکومتی مراکز میں رہنے کا پابند کردینا ،لیکن ان کے لئے ضروری سروسز جاری رکھنے کا اہتمام قائم رہنے دیا جاتا ہے ۔بقول معروف مذہبی سکالر مولانا وحید الدین خان(انڈیا)” لاک ڈاؤن حقیقت کے اعتبار سے تدبر و تفکرکے لئے جبری سچوویشن ہے ،یہ گویا اسپیڈ بریکر ہے تاکہ انسان دوڑ بھاگ کی زندگی سے دور رہ کر اپنا احتساب کرے ۔وہ یہ سوچے کہ اس کا صحت مند جسم اس کی اپنی تخلیق نہیں ہے ،کھانا،پانی اور آکسیجن وغیرہ اس کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے،بلکہ دنیاکے خالق نے اس کو یہ چیزیں عطاکی ہیں ،وہ اس حقیقت کو ڈسکور کرے کہ وہ دنیا میں آل پاور فل نہیں ہے ،
بلکہ آل پاورفل اس کا خالق ہے ۔انسان کو ماڈرن سائنسی ایجادات بطور انعام نہیں ملے ہیں بلکہ بطورِ امتحان ہیں ،تاکہ ان کے ذریعے خالق کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے اور پُر امن انداز میں تمام انسانوں کو خالق کے منصوبہءتخلیق سے آگاہ کرے۔وہ پر تعیش لائف اسٹائل کواپنا نشانہ بنانے کی بجائے سادہ زندگی ،اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرے وہ اپنے اندر ربانی شخصیت کی تعمیر کرے “۔
مگر ہم نے لاک ڈاؤن کو کیا سمجھا ہے ،ہم من حیث القوم اپنے رویوں پر غور کریں ،قرنطینہ سنٹرز کی ذمہ داری حکومتی اہل کاروں پر عائد ہوتی ہے وہ اپنے فرائض سے روگردانی اپنائے ہوئے ہیں ،لاک ڈاؤن کے قواعد و ضوابط کے ذمہ دارعوام ہیں مگر وہ یکسر اس کی پروا نہیں کر رہے کہ نرمی کے اوقات میں یکلخت گھروں سے کئی کئی افراد ایک ساتھ نکل پڑتے ہیں ،اس طرح نظام زندگی اتھل پتھل ہوجاتا ہے ،جب تک ہمارے رویوں میں اعتدال کا فقدان رہے گا ،پراگندہ حالی ہماراپیچھا نہیں چھوڑے گی ۔
حکومت اور عوام دونوں کائنات میں برپا ہونے والے تغیر کو سمجھیں ،اس کی حقیقت کو جانیں ،ہمارا المیہ یہ ہے کہ ناخواندگی زیادہ ہے مگر غور کریں تو جو خواندہ ہیں وہ بھی تہذیبی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں مثالی کر ادا نہیں کر رہے ،ہر کوئی اپنی ذات کے خول میں بند ہے ،اپنی منفعت کی سوچ میں گم ہے ،قومی وقار تو ایک طرف ،شخصی وقار کا احساس بھی ماند پڑتا نظر آتا ہے ،کیا یہ بھی کورونا وائرس ہی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے رویوں میں بَلا کی خود غرضی سرایت کرتی جا رہی ہے ،زندگی بار بار نہیں ملتی ،ایک بار ملنے والی زندگی کو ہم نے اپنے ناروا رویوں کی نذر کردیا تو یہ دنیا تو ہمارے لئے ناکامیوں اورنامرادیوں کا گہوارہ بننی ہی ہے ہم اگلی دنیا کا نامہ ءاعمال بھی سیاہیوں بھرا لے کر جائیں گے ۔
فیس بک کمینٹ