شیخ رفیق احمد
یہ پیپلزپارٹی کے دور میں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر رہے تھے۔اس سے قطع نظر پاپا کے اتنے قریبی دوست تھے کہ ہمارے نواں شہر کے مکان میں آ کر قیام کیا کرتے تھے، وہ میرے بچپن کے دن تھے، جب بڑوں میں گفتگو رہتی تھی کہ شیخ رفیق کی بیگم ذیابیطس کی مریضہ تھیں اور یہ بھی کہ دس گیارہ سال بعد ان کے ہاں اولاد پاپا ہی کے علاج سے ہوئی تھی۔ ان کے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو میں نے تب دیکھا جب میں میٹرک میں ہونگی اور وہ سات ،پانچ سے لےکر دو سال تک کے ہوں گے۔ وہ بچے نہیں قیامت تھے، ہم سب کا ان کے گھر لاہور میں بیٹھنا دُوبھر ہوگیا تھا۔ سُننے میں آیا کہ بڑا بچہ چھت کی تیسری منزل سے گرا لیکن نیچے رکھے ہوئے گھڑے میں پھنس گیا اور بچ گیا، بعد میں وہی بچہ اعلٰی تعلیم کے لئے ماسکو گیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے شیخ رفیق ایک سادہ مزاج آدمی تھے اور ان کی بیگم بھی بہت سادہ سی تھیں۔ تاہم ان کے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک لطیفہ یاد آگیا :
ایک شخص نے اپنے بچے کسی دوسرے شہر دوست کے ہاں بھیجے یہ کہہ کر کہ یہاں سیلاب آ رہا ہے بچوں کو تم رکھ لو۔ شام تک دوست کا ٹیلیگرام آ گیا کہ بچوں کو واپس بلا لو، سیلاب اِدھر بھیج دو۔
سید قسور گردیزی
گھر والوں کے ساتھ ان کے ہاں کی شادیوں میں کئی بار شرکت کی ہے۔ جب میں دسویں جماعت میں تھی، پھر جب بی اے کا زمانہ تھا، نہ صرف براتوں اور ولیموں میں بلکہ امّی کے ہمراہ مہندیوں تک میں۔ ان کے گھرانے کی عورتوں کو سونے میں پیلا دیکھا اور ضیافتوں میں درجنوں اقسام کے کھانے بھی دیکھے۔ مجھے بچپن ہی سے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اتنا معلوم ہے کہ وہ پاپا کے نظریاتی دوست تھے، ان کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔ اور یہ میرے ہوش سے پہلے کی بات رہی ہوگی، جو کانوں میں پڑی ہوئی ہے۔ اُن دنوں شاید ایوب کا مار شل لا ء اپنے سخت ترین دور سے گذر رہا ہوگا۔ پاپا کا کلینک تب سدو حسام روڈ پر تھا۔اُن کے بقول ایک دن ایک فوجی گاڑی کلینک کے سامنے سے گزری اور پاپا نے دیکھا کہ قسور گردیزی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنے جا رہے تھے،پاپا جونہی کلینک کے دروازے میں آۓ تو قسور گردیزی صاحب نے اپنے ہتھکڑیوں والے ہاتھ اونچے کرکے پاپا کو دکھاۓ۔ جو بھی میں نے سنا تھا وہ گوش گزار کر دیا۔
میں اب جب کبھی قسور گردیزی روڈ(ملتان) سے گذرتی ہوں جو کبھی بہاولپور روڈ کہلاتی تھی تو یہ تمام واقعہ اور وہ سارا رہن سہن، ذہن کے دریچوں،اور یادداشت کی راہداریوں میں گردش کرنے لگتا ہے۔ عیش و عشرت میں پَلے لوگ بھی نظریاتی زندگی کی خاطر کتنی قربانیاں دیتے ہیں۔
ملک عطاءاُللہ
حسین آگاہی(ملتان) کی سڑک کی چڑھائی سے پہلے بائیں طرف ایک بہت ہی اونچا لمبا اور گھنا پیپل کا درخت تھا،جس پر شام پڑے بےشمار چڑیاں اتنا چہچہاتیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی اور میں مبہوت ہو کر اس درخت کو دیکھا کرتی، میری سماعت میں ابھی تک وہ چڑیاں چہچہا رہی ہیں اور وہ چھتنار پیپل ویسے ہی آنکھوں میں جھوم رہا ہے ۔ دائیں ہاتھ پر ایک کتابوں کی دوکان تھی، نام تھا شاید ًنیا مکتبہ ً۔ ہماری تفریحات میں ایک تفریح اس دوکان کا پھیرا بھی تھا۔ یہ صاحب بھی پاپا کو بہت عزیز تھے۔ جب بھی ہم جاتے کتاب لازماً خریدی جاتی۔ میرے چُھٹپن کے دن تھے، سو مجھے وہاں سے خریدی گئی کتابوں میں جو یاد ہیں وہ بڑا ریچھ،اور کسی یوروپین مصنف کا ترجمہ، سیب کا درخت۔ باقی ادبیات کی کتابیں جو زیادہ تر انگریزی کی تھیں اور عموما ً روسی زبان کا ترجمہ ہوتیں،وہ پاپا اور بھائی جان کے حصّے میں آتیں۔ ملک عطاءاللہ دبلے پتلے دراز قد آدمی تھے اور پاپا سے نظریاتی طور پر اتنے قریب تھے کہ جب اسلام آباد میں 1995میں پاپا علیل تھے،تو وہ خاص طور پر انہیں دیکھنے آۓ۔ کیسے کیسے لوگ پاپا سے محبت کرتے تھے، حیرت ہوتی ہے۔