پروفیسر احمد علی نے افسانہ لکھا تھا،اسی عنوان سے،مجھے یاد آیا ہماری بھی تو ایک گلی تھی نواں شہر ملتان میں۔ جہاں بھانت بھانت کے لوگ
مقیم تھے۔
عرش صدیقی
جن دنوں وہ اپنا مکان بنوا رہے تھے،تب اپنے سسرال میں رہتے تھے،یہ سسرالی مکان ہمارے سامنے ہی تھا۔ ان کی بچی کا نام منّزہ تھا۔ میں آٹھ دس سال کی ہوں گی اور وہ بچی مجھ سے کوئی چار پانچ سال چھوٹی ہوگی۔ جانے کیوں اسے مجھ سے یا مجھے اس سے لگاؤ بڑھتا ہی گیا۔ وہ ہمارے ہاں آکر سارا سارا دن میرے ساتھ گزارتی،ہم گڑیاں کھیلتے، ہنڈکُلیا پکاتے،اور وہ سب کچھ کرتے جن کے کرنے سے اس عمر کے بچے کِھلکِھلاتے رہتے ہیں۔
پھر ایک دن میں نے امی کو روتا پایا،اور وہ میری انگلی پکڑ کر عرش صدیقی کے ہاں لے گئیں۔ وہاں ایک کہرام مچا تھا۔ بیگم غوثیہ عرش صدیقی نے مجھے دیکھتے ہی گلے سے لگا کر چیخ ماری اور بولیں ” تمہاری منزّہ چلی گئی۔“
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا منّزہ کہاں اور کیوں چلی گئی۔۔
مولوی صاحب
ہمارے گھر کے ساتھ ہی ایک مولوی صاحب رہتے تھے۔ ایک مرتبہ گلی میں اپنے جوان بیٹے کو مار رہے تھے پاپا بیچ میں آ گئے اور کہا میرے ہوتے ہوئے آپ اسے نہیں مار سکتے خیر انہوں نے پاپا کا لحاظ کر لیا۔
ایک شام امی نے کسی وجہ سے دروازہ کھولا تو گلی میں ایک آدمی شاید مرگی کے دورے میں بے ہوش پڑا تھا،منہ سے جھاگ جاری تھے،اتفاق سے مولوی صاحب گزر رہے تھے، امی نے انہیں مخاطب کیا اور درخواست کی کہ اس وقت گھر میں کوئی مرد نہیں،آپ مہربانی کیجئے اس مریض کے لئے کچھ کریں۔ مولوی صاحب یہ کہہ کر چلے گئے کہ ًمیری نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے
وحید صاحب
گلی کے موڑ پر جن صاحب کا گھر تھا ان کے نام کا مجھے علم نہیں ، وحید بڑے بیٹے تھے جو پاپا سے کچھ ہی سال چھوٹے ہونگے۔وہ گھر کے حالات سے تنگ آکر اس زمانے میں آسٹریلیا چلے گئے جب کم ہی لوگ باہر جاتے تھے، فزکس میں ایم ایس سی کیا اور جب کبھی نواں شہر آۓ تو پاپا سے ملے بغیر نہیں گۓ۔ان کا نام یادداشت میں اسی لۓ محفوظ رہ گیا۔ میری پیدائش سے پہلے کی باتیں جو محلے میں گردش کرتی تھیں،اور امی پاپا سے بھی میں سُنتی چلی آئی، کچھ یوں تھیں : صاحب ِ خانہ تبلیغی جماعت کے آدمی تھے اور اپنی مصروفیات میں اس قدر گُم کہ جب ان کی بیوی مر رہی تھیں تو انہوں نے پڑوس کی عورتوں سے کہا تھا: ” گواہ رہنا میرا شوہر اس وقت بھی میرے پاس نہیں “۔
ان صاحب کے چھوٹے بیٹے نے دریاۓ ستلُج میں کود کر خودکشی کرلی۔خیر خودکشی ایک الگ موضوع ہے ، اصل بات یہ بتانی ہے کہ انتہاپسندی ،انتہاپسندی ہی کو جنم دیتی ہے۔ اس لڑکے کی جیب سے جو ڈائری نکلی اس پر لکھا عبدالحمید عدم کا یہ شعر زباں زدِ خاص و عام ہوگیا:
دل خوش ہو ا ہے مسجدِ ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے !
کاظمی صاحب
ہمارے سامنے کی گلی میں رہتے تھے میرے نانا کی عمر کے ہوں گے۔ ان کے ہاں مجلس میں امی کو جانے کی اجازت تھی،بلکہ وہ مجالس ایسی ہوتیں کہ ہر مسلک کی خواتین شریک ہوتیں۔ بیگم کاظمی ایسی وضع دار خاتون تھیں کہ اگر کبھی امی مجلس میں نہ جا سکتیں تو وہ شام کو تبرُّک لے کر خود آجاتیں اور خیریت دریافت کرتیں۔
آٹھ محرم کی شام ان کے ہاں جُھولا نکلنا تھا، ہمارے پچھواڑے کے گھر سے چھوٹا بچہ کھو گیا،بچے کی ماں بےحد لڑاک عورت تھیں،انہوں نے بچے کو ڈھونڈنے کے بجائے آؤ دیکھا نہ تاؤ سیدھی کاظمی صاحب کے پہنچ گئیں اور بیگم کاظمی سے بولیں ” تم نے میرا بچہ کاٹ کر جُھولے پر چڑھا دیا، مجھے جُھولے کا کمرہ کھول کر دکھاؤ “ اب رسماً جب تک جُھولا برآمد نہ ہو کمرہ کُھل نہیں سکتا تھا۔ خاتونِ خانہ نے بہت سمجھایا کہ ہوش کے ناخن لو، تم نے یہ سوچا بھی کیسے؟مگر وہ تو مرنے مارنے پر آمادہ تھیں،خیر بڑی مشکل سے انہیں بچہ ڈھونڈنے پر تیار کیا گیا۔ باہر آئیں تو بچہ کہیں سے ہنستا کھیلتا آ رہا تھا۔ابھی طالبان کا دَور بہت دُور تھا۔۔
یہ واقعہ میرے ہوش سے پہلے کا ہے،انہی کاظمی صاحب کی بیٹی،جس کا نکاح ہو چُکاتھا اور رخصتی میں ایک دن تھا کہ دلہن کی نانی کا انتقال ہوگیا، برات کے آنے میں دو دن تھے۔ کاظمی صاحب پاپا سے مشورہ کرنے آۓ۔پاپا نے کہا رخصتی کیجئے، موت کی خبر فی الحال ظاہر نہ کیجئے۔ اگرچہ شیعہ رسم و رواج میں یہ ممکن ہی نہ تھا لیکن کاظمی صاحب نے پاپا کی بات کو اہمیت دی ۔ وہ شادی انجام پائی اور وہ دلہن دو بیٹوں کی ماں بنی۔
فیس بک کمینٹ