منٹو کے ناقدین نے اسے مختلف القابات سے نوازا ہے۔ یعنی منٹو فحش نگار ہے۔ منٹو لذتیت کاشکار ہے۔ منٹو کو خون دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ اور یہ کہ وہ طوائف اور عورت کی پامالی پر خوش ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسے بے رحم حقیقت نگار اور Synic یا کلبیت پسند بھی کہا گیا ہے لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ منٹو بے رحم حقیقت نگار ہے تو کیو ں ہے؟ بے رحم حقیقت نگار وہ ہوتاہے جو خود لکھتے ہوئے اورکہتے ہوئے رو نہ رہا ہو۔ جو محض جذباتیت کا شکار نہ ہو۔ اگر منٹو بے رحم حقیقت نگار ہے تو ہم پریم چند کو بھی بے رحم حقیقت نگار کہہ سکتے ہیں جو ”دودھ کی قیمت “ اور ”کفن“ کا خالق ہے۔اس نے بھی دردناک موضوعات پرطبع آزمائی کی ہے۔ منٹو بھی معاشرے کے ایسے موضوعات کو چھیڑ کر سنگ دل کہلاتا ہے۔وہ معاشرے کے ناسور کوچھیڑتے ہوئے ڈرتا نہیں۔بلکہ ماہر سرجن کی طرح اس کا آپریشن کرتا ہے۔ اور ہمیں اس کا گندہ مواد دکھاتا ہے۔منٹو کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی گندگی سے ڈرتا نہیں، وہ اس گندگی سے ناک پر رومال رکھ کر نہیں گزرتا بلکہ وہ اس پر بیٹھ کر کریدتا ہے اور ہمیں اپنے اعمال دکھاتا ہے۔بزدل وہ لوگ ہیں جو بجائے اس کا تدارک کرنے کے منٹو کو گالیاں دیتے ہیں۔منٹو کے اس رویے کے متعلق ”ابوللیث صدیقی کے نظریات کے مطابق
”منٹو جزئیات نگاری میں ایسا عمل جراحی کرنے لگتا ہے جیسے کوئی سرجن ہو لیکن یہ عمل جراحی کسی ہسپتال کے آپریشن تھیڑ میں ہو تو کوئی حرج نہیں، منٹو اسے شارع عام پر کرنے لگتا ہے۔“
میتھیو آرنلڈ کے مطابق کسی بھی تخلیق کے لیے دو قوتیں ضروری ہوتی ہیں۔ایک زمانے کی قوت اور دوسری فنکار کی اپنی قوت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ منٹو کا زمانہ کیسا تھا۔جس نے اسے بے رحم حقیقت نگار بنادیا۔منٹو بلاشبہ ایسا بڑا افسانہ نگار ہے جسے سب سے زیادہ قارئین میسر آئے۔پون صدی سے اب تک دو ہی ایسے افسانہ نگار پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے بے پناہ شہرت پائی۔ان میں ایک نام کرشن چندر اور دوسرا منٹو کاہے۔یہ دونوں افسانہ نگار عوام اور خواص میں یکساں مقبول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ افسانہ دو مرتبہ تخلیق ہوتا ہے۔ایک دفعہ زندگی اور دوسری دفعہ کسی فنکار کے اندر۔منٹو میں کہانی لکھنے کی جتنی صلاحیت تھی شاید ہی اتنی کسی اور افسانہ نگار میں ہو۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ افسانہ زندگی میں ہوتا ہے تخلیق نہیں کیا جاتا۔ اگر اس کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو منٹو کو اس کے زمانے نے بے رحم حقیقت نگاری پر مجبور کر دیا۔
بیسویں صدی کے شروع کا دور بڑا انقلابی تھا۔منٹو اور کرشن بھی اسی انقلابی دور کی پیداوار تھے۔1857ء کے بعد انگریزوں نے ذرائع آمدورفت کو بہت ترقی دی۔ یہ ترقی برصغیر پاکستان اور بھارت والوں کی سہولت کے لیے نہیں تھی بلکہ یہ بھی حکومت کرنے کا ایک حربہ تھا ۔ اس کے بعد انگریزوں نے جو سب سے بڑا ظلم کیا وہ یہ کہ قرضے انگریز لیتے تھے اور ادا برصغیر کے لوگوں کو کرنے پڑتے تھے۔جس سے یہاں کی معیشت کو ایک دھچکا لگا۔ لڑتے انگریز تھے اور جوان برصغیر فراہم کرتا تھا۔اور یہی دور تھا جب دستکاری کا خاتمہ ہو رہا تھا اور مشین کا آغاز تھا۔ صرف ریل گاڑی ہی کو لے لیجیے ۔ یہ بھی یہاں کے لوگوں پر بہت اثر انداز ہوئی ۔کیونکہ اس ملک میں ذات پات کاخاص احترام کیا جاتا تھا اور گاڑی میں جو بھی پیسے دیتا بیٹھ سکتا تھا۔ اس طرح دھرم کے باسیوں کو بہت تکلیف ہونے لگی۔انگریزی علوم کی وجہ سے بھی لوگوں میں ایک ہل چل پیداہو رہی تھی۔ڈارون، فرائیڈ اور کارل مارکس کے نظریات بھی اثر پذیر ہو رہے تھے۔سیاست کے میدان میں بھی ایک اضطراب تھا۔ لگتا تھا کہ اب زنجیریں کٹ جائیں گی۔ دہشت پسند تنظیمیں وجود میں آ رہی تھیں۔یہ زمانہ دت اور بھگت سنگھ کا زمانہ تھا۔بموں کے دھماکے ہو رہے تھے۔ نت نئےحادثات رونما ہو رہے تھے۔ جن میں جلیانوالہ باغ اور بنگال کا قحط سرفہرست تھے۔ اس زمانے کا نوجوان جانتا تھا کہ برطانوی سامراج ”تقسیم کرو اورحکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ادبی افق پر بھی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ نئے نئے ادبی پرچے نکل رہے تھے۔ عورتوں نے بھی لکھنا شروع کردیاتھا۔اور ان میں حجاب اسماعیل کا نام نمایاں ہے۔اس وقت ریڈیو، ٹی وی نہیں تھا۔ اس لیے نظم یا افسانہ فوراً قاری پراثر انداز ہوتا تھا۔ اس دور میں تلخی اور زہرناکی تھی۔اس لیے یہ سب کچھ منٹو کی تحریروں میں بھی پایا جاتاہے ۔اپنے افسانوں کے بارے میں منٹو لکھتاہے
”زمانے کے جس دور میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں، اگر آپ اس سے واقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔“
منٹو کے علاوہ اس دور کے دوسرے ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں کی تحریروں کا جائزہ لیں۔ یہ نقص اور برائیاں ان میں بھی نظر آتی ہیں۔
منٹو نے 1947ء کے فسادات پر بھی افسانے لکھے ہیں۔ ان افسانوں کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو سب سے زیادہ ظلم عورتوں پر ہوا۔ ان پر نہ صرف جنسی تشدد کیا گیا بلکہ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کیا گیا۔ہمارے ادب پراس خون کے چھینٹے نمایاں ہیں ویسے تو ان فسادات نے پورے برصغیر میں آگ لگا دی تھی۔لیکن زیادہ ظلم بنگال اور پنجاب میں ہوا۔ ان فسادات کے بعد تین چار قسم کے ادیبوں کے رویے سامنے آئے ۔ایک قسم ان ادیبوں کی تھی جن کی تخلیقی صلاحیت کو ان فسادات نے جلابخشی، انھیں موضوع مل گیا۔اگرچہ انھوں نے یہ افسانے رو رو کر لکھے ہیں لیکن انھیں موضوع ملنے کی خوشی بھی نمایاں ہے۔ دوسری قسم کے ادیبوں کو ہم قومی ادیب کہہ سکتے ہیں جو اپنا قومی وقار بلند کرنے کے لئے لکھ رہے تھے اور مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمان بے گناہ ہیں ۔سارا ظلم سکھوں نے کیا ہے۔ایسے ادیبوں میں ایم اسلم اور نسیم حجازی نمایاں ہیں۔
تیسرا گروہ ترقی پسند ادیبوں کا تھا۔ان کا رویہ تھا کہ انسان کو خون کی ہولی سے بچایا جائے۔ ان کے نزدیک مسلمان بھی انسان تھا اور سکھ بھی۔ اس لیے ترقی پسند افسانہ نگار اپنی کہانیوں میں اگر دس گھر مسلمانوں کے جلاتے تو دس گھر سکھوں کے بھی منہدم کرتے۔ اگر بیس سکھ مارے جاتے تو بیس مسلمان بھی مارے جاتے۔ ترقی پسندوں کا خیال تھا کہ تجزیہ کرنے سے نفرت بڑھے گی، کم نہیں ہو گی۔ انھوں نے سب کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ ہوا اس کو نہیں بلکہ جو کچھ ہوناچاہیے اس کو پیش کیا اور فیصلہ کیا کہ حالات بہتر بنانے کے لیے دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایاجائے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہم بچوں کی ایسی تربیت کریں گے کہ وہ جنگلی نہ بنیں۔ گویا ترقی پسندوں نے بھی ادب میں ایک فارمولا پیش کر دیا۔جس کے تحت لکھنا ضروری تھا۔ اس طرح لوگوں نے ان کامذاق بھی اڑایا کہ یہ فارمولا ادب پیش کر رہے ہیں۔
ادیبوں کا ایک گروہ بے رحم حقیقت نگاری کا قائل تھا۔ان کے نزدیک ادیب کو اپنے عہد کی سچی گواہی دینی چاہیے۔اس نے جو کچھ دیکھا اسے وہی کچھ پیش کرنا چاہیے۔ اسے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اسے کیا کرنا چاہیے ۔ بس اس کا فرض ہے کہ وہ حقیقت کا آئینہ دکھائے۔ ایسے ادیبوں میں سعادت حسن منٹو سرفہرست تھا۔اگر فسادات کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اس میں جزوی صداقت نظر آتی ہے کلی نہیں۔ اس طرح ان فسادات کے پیچھے ہمارے اپنے ذاتی مقاصد اور رنجشیں نظر آتی ہیں۔اگر ان عوامل پر غورکیا جائے تو ہماری اپنی منافقتیں ابھر کرسامنے آجاتی ہیں۔ مالی فائدے حاصل کرنے کے لیے بھی فسادات کے دوران تہذیب کا چراغ گل ہوگیا۔انسان وحشی ہو گیا۔اور پھر انسانیت کی توہین صرف فسادات کے دوران ہی کم نہیں ہوئی بلکہ بعد میں بھی لوٹ مار جاری رہی۔
اورپھر کیمپوں میں کیا ہوا ۔ ان کیمپوں میں ہمارے مسلمان بھائی نہیں تھے۔ کیا یہ اس مقدس سرزمین کے نوجوان نہیں تھے۔جنھوں نے کئی کنواریوں کو ماں بننے پر مجبور کردیا۔ انھیں کیمپوں میں ایک بسکٹ کے عوض عصمتوں کو تارتار کیا گیا اور جنسی ہوس ناکیوں کے ریکارڈ قائم کیے گئے اور یہ ہوس ناکی تھی جس نے ذات، مذہب، رشتوں، نسلوں اور قوموں تمام کو ختم کر دیا تھا۔ ایسے دور میں سعادت حسن منٹو جیسا فنکار بھلا کب خاموش بیٹھ سکتا تھا۔اس نے اپنے افسانوں میں اس دور کی حقیقی تصویریں دکھائی ہیں۔جو کچھ ہوا اس نے سب پیش کردیا۔
فیس بک کمینٹ