کوئٹہ : بلوچستان میں دس کان کنوں کے قتل کے خلاف دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ برادری کا دھرنا پانچویں دن میں داخل ہو گیا ہے اور دھرنے کے شرکا وزیراعظم عمران خان کی آمد تک اس کے خاتمے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
کان کنوں کی ہلاکت کا واقعہ سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب مچھ میں کوئلہ فیلڈ میں پیش آیا تھا جب مسلح افراد نے ہزارہ کان کنوں کو شناخت کے بعد ہاتھ پاؤں باندھ کر ان کے گلے کاٹ دیے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے بدھ کو دھرنے کے شرکا کو اپنی آمد کا یقین دلاتے ہوئے ہلاک شدگان کی تدفین کی درخواست کی تھی تاہم جمعرات کو بھی دھرنے کے مقام پر شدید سردی کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل ہیں، میتوں کے ہمراہ موجود ہے۔ بی بی سی اردو کے محمد کاظم کے مطابق مغربی بائی پاس پر جاری اس دھرنے میں پانچویں روز شرکا کی تعداد گذشتہ چار روز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
عمران خان کے کوئٹہ کے دورے کا تو کوئی شیڈول سامنے نہیں آیا ہے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز سمیت حزبِ اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی مرکزی قیادت اور دیگر رہنما جمعرات کو دھرنے کے شرکا سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق جمعرات کو کوئٹہ شہر میں کان کنوں کی ہلاکت کے واقعے کے خلاف مکمل ہڑتال بھی کی گئی۔ شٹرڈاؤن ہڑتال کی کال مرکزی انجمن تاجران بلوچستان نے دی تھی اور ہڑتال کے باعث شہر کے تمام اہم کاروباری مراکز بند اور نظامِ زندگی معطل رہا۔
بلاول بھٹو زرداری وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ دھرنے میں موجود تھے جہاں متاثرین سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ ’ہم کوئٹہ سیاست نہیں دکھ کے لیے آئے ہیں۔ جب بھی کوئٹہ آتے ہیں دکھ میں شریک ہونے کے لیے یہاں پہنچتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک ایسی دھرتی ہے جہاں ہمارے شہیدوں کو بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے، لاشوں کو بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے۔‘بلاول کا کہنا تھا کہ ملک میں سب کچھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے مگر مزدور کا خون سستا ہو رہا ہے۔ ’آپ کا مطالبہ ایک ہی ہے کہ ہمیں جینے دو۔ آپ کا یہی مطالبہ کراچی اور اسلام آباد کی سڑکوں پر پیپلز پارٹی کے ورکرز بھی اس میں آپ کے ساتھ شریک ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم اس ریاست سے اپیل کرتے ہیں کہ جو ملک میں سب سے زیادہ محب وطن ہیں وہ آپ کے سامنے بیٹھے ہیں۔ ہم صرف اور صرف انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، جینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے، اے پی ایس کے بچوں کو انصاف دلائیں گے مگر یہ پلان ناکام ہے۔ ‘بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ نہیں سننا چاہتے کہ بیرونی سازش ہے، اگر ہم اپنے شہریوں کو قتل کروا رہے ہیں تو یہ ہماری ریاست کی ناکامی ہے۔‘
ان کے خطاب سے قبل جمعیت علمائے اسلام کے جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری اور مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے بھی دھرنے کے شرکا سے خطاب کیا ہے۔
سانحہ مچھ کے لواحقین سے تعزیت کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں نائب صدر مسلم لیگ (ن) مریم نواز کا کہنا تھا کہ آپ پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس پر دلی تعزیت کرتی ہوں، 5 دن سے دیکھ رہی ہوں اور آپ کی تکلیف کا احساس بھی ہے، ان میتوں میں سے ایک میت اس کی بھی ہے جس کے خاندان کا کوئی فرد نہیں تاہم میرے پاس تعزیت کے لیے الفاظ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچی کسی بے حس کو پکاررہی تھی کہ آپ نہیں آئے تو والد کو نہیں دفناؤں گی لہذا وزیراعظم اپنی انا چھوڑ کر کوئٹہ جائیں اور لواحقین کا غم بانٹیں۔
مریم نواز نے کہا کہ ریاست کاکام عوام کو تحفظ دینا ہے لیکن افسوس ہے ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، یہ کہتے ہیں جب تک وزیراعظم نہیں آئیں گے ہم لاشیں رکھ کر بیٹھے رہیں گے، ہم لاشوں پر سیاست نہیں کررہے تاہم وزیراعظم عمران خان کو یہاں آکر ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا پڑے گا۔
دوسری جانب پاکستان کے مختلف شہروں میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے قتل کے خلاف مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری ہے۔ کراچی میں 15 سے زیادہ مقامات بشمول ابوالحسن اصفہانی روڈ پر عباس ٹاؤن کے مقام پر، گلستانِ جوہر میں کامران چورنگی، نارتھ کراچی میں پاور ہاؤس چورنگی، ایم اے جناح روڈ پر نمائش چورنگی، قومی شاہراہ پر ملیر 15، شارعِ فیصل پر ناتھا خان برج، ملیر میں کالا بورڈ، گلشنِ اقبال میں یونیورسٹی روڈ سمیت مختلف مقامات پر دھرنے جاری ہیں۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چائنا چوک کے مقام پر بھی احتجاجی دھرنا جاری ہے جبکہ لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے دیا جا رہا ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )