2020ایک مشکل سال تھا ۔ ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ اس گزرے برس نے پوری عالمی دنیا کو کرونا جیسے موذی مرض، بدترین معاشی بدحالی سمیت سیاسی اور نفسیاتی مسائل میں ہی الجھائے رکھا ۔لیکن اس کے باوجود پاکستان اس لحاظ سے ضرور خوش قسمت رہا کہ اسے عالمی دنیا کی طرح وہ مالی او رانسانی نقصان نہیں ہوا جو دیگر بڑے ممالک کو برداشت کرنا پڑا ہے ۔لیکن اس کے باوجود سیاسی او رمعاشی محاذ ہمارے لیے ایک تکلیف دہ برس تھا۔ہم ابھی تک پچھلے برس کی بڑی مشکلات سے باہر نہیں نکل سکے اور بدستور معاشی محاذ پر کئی طرح کے نئے چیلنجز سے گزررہے ہیں ۔کرونا کی دوسری وبا کی لہر بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے اور دیکھنا ہوگا کہ عالمی دنیا سمیت خود پاکستان کتنی جلدی کرونا کی صورتحال سے باہر نکلے گا ۔
2021کو دنیا بھر میں ” امید کا برس“ کا نام دیا جارہا ہے ۔دیکھنا ہوگا کہ یہ 2021 گزرے 2020سے کیسے مختلف ہوگا اور بالخصوص ہم پاکستانی اس نئے برس میں کیا کچھ بہتری کی صورت میں حاصل کرسکیں گے ۔2020میں ایک بڑا مسئلہ حکومت او رحزب اختلاف کی سطح پر جاری جنگ یا بداعتمادی کی سیاسی فضا نے بھی ہماری مشکلات بڑھائی ہیں ۔عمران خان کی حکومت بڑی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ سامنے آئی تھی ۔لیکن بدستور حکومت کا حکمرانی کا بحران موجود ہے ۔بہت سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ نیا برس یعنی 2021بھی سیاسی و معاشی محاذ پر مختلف خرابیوں کی صورت میں ہی چلے گا ۔ حزب اختلاف اس نئے برس2021کو عمران خان حکومت کے خاتمہ اور نئے انتخابات کا سال قرار دیتی ہے ۔جبکہ حکومت کے بقول یہ نیا برس معاشی ترقی سے جڑا ہوگا۔
2021میں ایک بات طے ہے کہ جس انداز سے موجودہ سیاسی نظام چل رہا ہے وہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ اس نظام کے بارے میں ناکامی کا سیاسی اعتراف خود وزیر اعظم بھی کرچکے ہیں ۔یعنی پاکستان کا سیاسی وجمہوری نظام ایک بڑی تبدیلی چاہتا ہے اور یہ تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہے ۔اس کا اعتراف سیاسی محاذ کے ساتھ ساتھ دیگر فریقین بھی کررہے ہیں ۔حکومت کو پہلی بڑی کامیابی اس برس میں پہلی بار سینٹ کی سطح پر سیاسی برتری کی صورت میں ملے گی ۔ حکومت سینٹ میں سیاسی برتری کے بعد اپنی مرضی کی قانون سازی کرنے کی سیاسی پوزیشن میں ہوگی جس میں اسے اپنے سیاسی مخالفین پر برتری ہوگی ۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ سینٹ کے انتخابات کے بعد وزیر اعظم کے وعدے پر عملا گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ کی حیثیت حاصل ہوسکتی ہے ۔یہ کام حکومت او رحزب اختلاف کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے ہوگا جو ایک بڑی تبدیلی کا سبب بنے گا ۔
پی ڈی ایم کی تحریک کو عملی طور پر عمران خان حکومت کے خاتمہ کے لیے سامنے آئی ہے اس کے داخلی تضادات بہت زیادہ نمایاں ہونگے اور یہ حکومت گرانے یا فوری نئے انتخابات کے امکانات کو پیدا نہیں کرسکیں گے۔محض تقسیم پی ڈی ایم میں ہی نہیں ہوگی بلکہ ان میں شامل بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور جے یو آئی میں بڑی سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں ۔پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی کی جماعتوں کی بڑی سیاسی قیادتوں کا کردار بھی محدود ہوگا ۔شریف خاندان اور زرداری خاندان کی سیاسی مشکلات کم نہیں ہونگی او ر ان کو نیب کے تناظر میں کئی انتظامی ، سیاسی اور قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ان ہی جماعتوں میں سے نئی قیادت کے امکانات بھی ابھر سکتے ہیں ۔اس امکان کو بھی رد نہیں کیاجاسکتا کہ اس برس جون کے بعد نظا م میں کچھ بڑی اہم تبدیلیاں بھی دیکھنے کو مل سکتی ہیں جس میں صدارتی نظام کا نکتہ بھی عملا موجود ہوسکتا ہے ۔ایک امکان یہ ہی ہے کہ موجودہ اسمبلیوں سے ہی ملک میں نظام کی تبدیلی کی بحث کا آغاز ہوگااو راس کا نتیجہ اسمبلیوں سے کسی قرار داد کی صورت میں سامنے آئے گا اورمعاملہ ریفرنڈم کی طرف بھی جاسکتا ہے ۔
اس نئے برس احتساب کے معاملے میں بھی بڑی پیش رفت ہوگی اور کئی حکومتی ارکان بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں ۔ حکومت سینٹ میں اپنی برتری حاصل کرنے کے بعد نیب کے قانون میں بنیادی ترامیم کرکے احتساب کے نظام کو آگے بڑھانا چاہتی ہے ۔ اس گزرے برس میں بہت سے لوگ جو آپ کو عمران خان کی حکومت کے بہت قریب نظر آتے ہیں اس میں بھی ٹیم کے تناظر میں بہت سی نئی تبدیلیوں کی صورت میں نئے چہرے بھی سامنے آسکتے ہیں ۔اسی برس ملک میں کسی نہ کسی شکل میں مقامی حکومتوں کے انتخابات بھی متوقع ہونگے ۔وزیر اعظم عمران خان عملی طور پر مقامی یعنی ضلعی نظام کو مضبوط کرنے کے حامی ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت سمیت دیگر بڑی جماعتیں اس نظام میں کم سنجیدہ ہیں ۔ اگر کوئی نظام کی تبدیلی کی بات آگے بڑھے گی تو ضلعی نظام وفاق کے بعد زیادہ اہمیت اختیار کریں گے ۔ہمارے فیصلہ سازی سے جڑے اہم افراد یا اداروں میںیہ اتفاق نظر آتا ہے کہ گورننس کے نظام کو مستحکم کرنے لیے اور عوامی سطح پر جو حکمرانی کے سنجیدہ مسائل ہیں ان کا حل مضبوط مقامی نظام حکومت سے جڑ ا ہوا ہے ۔اس برس سیاسی ، انتظامی اورقانونی محاذ جو اصلاحات ہونی ہیں اس کا بھی براہ راست تعلق نظام کی تبدیلی سے ہی جڑا ہوا ہے ۔کیونکہ موجودہ نظام میں اصلاحات اور سیاسی بداعتمادی کا ماحول اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ مسئلہ حل کی طرف نہیں جارہا جو حکمرانی کے نظام کی اصلاح چاہتا ہے ۔
ایک بڑا چیلنج اس برس بھی معاشی صورتحال کی بہتری سے جڑا ہوا ہے ۔ بالخصوص عام آدمی کو ریلیف کا ملنا بنیادی نکتہ ہے ۔تعمیراتی ، ٹیکسٹائل ، ٹیلی کام ، ٹورازم ایسے شعبہ ہیں جہاں حکومت کو بڑا یقین ہے کہ حالات تبدیل ہونگے اور تعمیراتی شعبہ مےں جو مراعات کی توسیع کی گئی ہے وہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ کاروباری طبقہ کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے لیکن جب تک اس معاشی بہتری کے نتائج عام آدمی کو نہیں ملیں گے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال نہیں ہوگا۔یہ برس حکومتی کارکردگی کے لیے بھی بڑا اہم ہے اور اگر اس برس عوامی تصور حکومت کی بہتر حکمرانی کا نہیں بن سکا اور رلوگوں کو واقعی ریلیف نہ ملا تو حکومت کو اس کی بھاری قیمت اسے سیاسی میدان میں دینی پڑے گی ۔
خارجی محاذ پر ہماری سیاسی اور عسکری قیادت نے واضح کردیا ہے کہ ان کا بڑا انحصار اب چین پرہی ہوگا ۔ چین پر انحصار کرنے کی وجہ سے ہی یہ محسوس ہوتا ہے کہ علاقائی اور عالمی سیاست کے ہمارے کارڈ بھی تبدیل ہونگے ۔ نئے اتحاد اور ملکوں سے تعلقات میں نئے امکانات پید ا ہونگے ۔بھارت او رپاکستان کے درمیان یا کشمیر کے معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت اس برس بھی ممکن نہیں البتہ سی پیک کے بعد حالات میں بہت کچھ تبدیل ہوگا ۔سی پیک کی کامیابی کے کچھ اثرات نمایاں ہونگے او راس کی وجہ یہ ماہد ہ دو ریاستوں کے درمیان ہے او راسے کسی نہ کسی شکل میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے ۔افغانستان سے امن ماہدہ کی صورت میں کافی بہتری کے امکانات ہیں ۔ البتہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی کاروائی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔کیونکہ بھارت اپنے داخلی بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے اس کا رخ پاکستان کی طرف ڈال سکتا ہے ۔اس لیے اس کی موجودہ پاکستان مخالف جارحانہ پالیسی اس کی سیاسی مجبوری بھی ہے ۔یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم پر فوری طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباو ہے اورہم اسے تسلیم کرنے جارہے ہیں اس کا اس نئے برس میں کوئی امکان نہیں او رجب تک کوئی حل مسئلہ فلسطین کا قابل قبول سامنے نہیں آتا ہم آگے نہیں بڑھیں گے ۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ