شکر ہے لاہور لٹریچر فیسٹیول کو اس کا اصل مقام مل گیا۔ دو سال سے وہ اپنا ڈنڈا ڈولی لئے کبھی اس ہوٹل میں اور کبھی اس ہوٹل میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کرتا پھر رہا تھا۔ آخر اس سال اسے الحمرا کلچرل کمپلیکس مل گیا۔ اس جشن نے اپنا آغاز یہیں سے کیا تھا۔ اتنے عرصے اسے سیکورٹی کے نام پر بے گھر کیا جاتا رہا حالانکہ اس خوف کے باوجود اسی الحمرا میں ہر سال دوسرے جشن ہوتے رہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ لاہور میں ایک الحمرا ہی تو ہے جو اس قسم کے جشنوں اور ایسی تقریبات کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ ہے۔ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Made to Order تو اصل میں یہ وہی چیز ہے۔ پچھلے سال کا جشن غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے صرف ایک دن تک محدود کر دیا گیا تھا اور اسی وجہ سے بہت سے پروگرام بھی منسوخ کرنا پڑے تھے۔ لیکن اس سال ایسی کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئی۔ تمام پروگرام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ پورے ہوئے۔ اور بروقت پورے ہوئے۔ اب رہی یہ بات کہ جب اور جہاں بھی یہ جشن ہوتے ہیں وہاں یہ سوال بار بار کیا جاتا ہے کہ ان کا فائدہ کیا ہے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس سوال کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے۔ آپ ذرا ان جشنوں میں جا کر دیکھئے۔ ایک ہجوم ہوتا ہے وہاں نوجوان لڑکے لڑکیوں سے بڑے بوڑھوں اور بڑی بوڑھیوں تک کا۔ ادب و ثقافت کے ہر عمر کے شیدائی وہاں نظر آتے ہیں۔ یہ جو شیدائی اور شائقین وہاں آتے ہیں وہ محض تماشہ دیکھنے نہیں آتے۔ وہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لئے آتے ہیں۔ نئی نسل کے لئے تو خاص طور پر یہ ایک قسم کی تربیت گاہ ہوتی ہے۔ وہ ان لکھنے والوں کو دیکھتے اور سنتے ہیں جن کا انہوں نے صرف نام ہی سن رکھا ہے یا ان کی کتاب پڑھی ہے۔ بلکہ یوں بھی ہوتا ہے کہ جب کسی ادیب کی کتاب کا ذکر اس جشن کے کسی اجلاس میں کیا جاتا ہے تو کتابیں پڑھنے والوں میں یہ اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی کتاب خریدیں اور پڑھیں۔ یہ دوطرفہ بلکہ سہ طرفہ عمل ہے اور یہی افادیت ہے ان جشنوں کی۔ اور صاحب، اگر یہ جشن تماشے کے لئے ہی ہیں، تب بھی ان کی بہت بڑی افادیت ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں خوشی اور شادمانی کے لئے موقعے ہی کتنے ہیں۔ ہم سے پتنگ بازی چھین لی گئی۔ نوجوانوں نے سال کے سال ویلنٹائن ڈے کے نام پر خوشی منانا شروع کی تھی، اس سال اس کا بھی گلا گھونٹ دیا گیا۔ اب ایک یہی جشن رہ گئے ہیں جہاں مل جل کر سب خوش ہو لیتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ بھی حوصلہ افزا بات ہے کہ یہ جشن جو کراچی سے شروع ہوا تھا اب اسلام آباد، فیصل آباد، گجرات، ملتان، بہاولپور، خیرپور اور حیدر آباد تک پہنچ گیا ہے۔ اب صرف پشاور اور کوئٹہ رہ گئے ہیں۔ پوری امید ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شکایت کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں کتابیں نہیں پڑھی جاتیں تو اس سے کہئے کہ ان جشنوں میں جاؤ۔ ان کے اجلاسوں میں شرکت کرو اور وہاں لگائے جانے والے کتابوں کے اسٹال دیکھو۔ اور معلوم کرو کہ کتنی کتابیں خریدی گئیں۔
اب آ جایئے تازہ لاہور لٹریری فیسٹیول پر۔ آپ صرف پروگرم پر ہی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انگریزی، اردو اور پنجابی میں بھرپور پروگرام ہوئے بلکہ اس سال تو سندھی ادب پر بھی بات ہو گئی۔ ہمارے افسانہ نگار اور ناول نویس اکرام اللہ ان جشنوں سے دور دور ہی رہتے تھے۔ اس بار وہ بھی پکڑے گئے۔ ان کے ناول ’’گرگ شب‘‘ پر ضیاء الحق کے زمانے میں پابندی لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس ناول میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو دوسرے افسانوں اور ناولوں میں نظر نہ آتی ہو۔ لیکن چونکہ وہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا اور لگائی بجھائی کرنے والے بھی بہت تھے، اس لئے یہ ناول اس کی زد میں آ گیا۔ اور اب تک اس پر پابندی ہے۔ یہ واحد ناول ہے جو پابندی کا شکار ہے۔ ان کا ایک اور افسانہ ’’آنکھ او جھل‘‘ بھی اختلافات کا باعث بن گیا ہے۔ حالانکہ اس کا موضوع یہ ہے کہ جو لوگ ایک وقت میں اقلیت میں ہوتے ہیں اور اکثریت کے ظلم و ستم کا شکار بنتے ہیں جب وہ خود اکثریت میں آتے ہیں، اور اختیار ان کے ہاتھ میں آ جاتا ہے تو وہ بھی اقلیت پر وہی ظلم و زیادتی کرتے ہیں جو اقلیت میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ کی گئی تھی۔ یہ کیسی انسانی صورت حال ہے؟ یہ آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔
لیکن میرے لئے اس جشن کا حاصل وہ اجلاس تھا جو فیض صاحب کی یاد کے حوالے سے تھا۔ کسی بھی بڑی اور نامور شخصیت کے بارے میں ہر شخص کی اپنی ذاتی یادیں ہوتی ہیں۔ کشور ناہید نے اپنی یادیں سنائیں اور افتخار عارف نے اپنی۔ لیکن اصل یادیں ان صاحب کی تھیں جو راولپنڈی سازش کیس میں فیض صاحب کے ساتھ جیل گئے تھے۔ یہ ہیں ظفراللہ پوشنی۔ آج ماشاء اللہ ان کی عمر بانوے سال ہے۔ شکل صورت سے وہ اتنی عمر کے معلوم نہیں ہوتے۔ چاق چوبند اور حافظہ جوانوں والا۔ فیض صاحب کے ساتھ جیل جانے والوں میں پوشنی صاحب سب سے کم عمر قیدی تھے۔ اس وقت ان کی عمر پچیس سال تھی اور وہ فوج میں کیپٹن تھے۔ جیل میں فیض صاحب کے رنگ ڈھنگ کیسے تھے؟ یہ انہوں نے ہمیں بتایا۔ فیض صاحب کو پہلے قیدتنہائی میں رکھا گیا تھا۔ بعد میں وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے آملے تھے۔ اب ساتھی اپنی قید سے پریشان، مگر فیض صاحب خوش کہ ان کی تنہائی ختم ہوئی۔ باقی ساتھی ہنگامہ کرنے والے، شور و شغب کرنے والے، فیض صاحب کم گو، بلکہ کچھ بھی نہ بولنے والے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ان کے ایک ساتھی غسل خانے میں ایسے گھسے کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ بہت کھٹکھٹایا اور شور مچایا تو وہ ایسے نکلے کہ بالٹی میں پانی بھر کے باہر کھڑے ساتھیوں پر ڈال دیا۔ پھر ان ساتھیوں نے بھی بالٹی بھری اور ان صاحب پر ڈال دی۔ اب پانی کی لڑائی شروع ہو گئی۔ اب حالت یہ تھی کہ ادھر یہ جنگ چل رہی تھی اور ادھر فیض صاحب بستر پر لیٹے آرام سے سگریٹ پی رہے تھے۔ ساتھیوں نے یہ دیکھا تو ان پر بھی پانی پھینک دیا۔ وہ خود بھی بھیگے اور ان کا سگریٹ بھی بجھ گیا۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ فیض صاحب اتنی تکلیف کہاں کریں گے کہ وہ بھی بالٹی بھریں گے اور پانی پھینکیں گے۔ مگر فیض صاحب خاموشی سے اٹھے۔ بالٹی میں پانی لیا اور ایک ساتھی کے بستر پر انڈیل دیا۔ یہ تھی فیض صا حب کی معصومانہ شرارت۔ پوشنی صاحب نے ایسے اور بھی کئی قصے سنائے۔اور جیل کے بعد فیض صاحب سے ہو نے والی اپنی ملاقاتوں کا حال بھی سنایا۔ لاہور والوں کے لئے یہ تمام یادیں بالکل نئی تھیں۔ پوشنی صاحب نے ایسی یادیں اپنی کتاب ’’زندگی زندہ دلی کا نام ہے‘‘ میں محفوظ کر دی ہیں۔ بہرحال لاہور والوں کے لئے یہ ایک یادگار اجلاس تھا۔ باقی اس جشن میں اور کیا ہوا؟ اس کے لئے ایک طویل مضمون کی ضرورت ہے۔ یقین ہے کہ یہ کام ڈاکٹر ناظر محمود کر دیں گے۔ ناظر اور صنوبر اسلام آباد سے اس جشن میں شرکت کرنے ہی لاہور آئے تھے۔ اب آپ انتظار کیجئے کہ ناظر محمود ’’جنگ‘‘ میں تفصیلی مضمون کب لکھتے ہیں۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ