میں بہت عرصے سے بیمار نہیں پڑا تھا، چنانچہ عیادت کا مزا ہی بھول گیا تھا، اب تین ہفتے پہلے پاؤں کا فریکچر ہوا تو اندازہ ہوا کہ بھاری بھر کم پلاسٹر کے علاوہ اپنے ایک سو کلو جسمانی وزن کے ساتھ پھدک پھدک کر چلنے کا تماشا اپنی جگہ، عیادت کے لئے آنے والے دوستوں کی محبت بھری گفتگوئیں اور ان کے طبی مشوروں کا سواد ایک اضافی لذت ہے جس سے صحت مند احباب محروم رہتے ہیں۔ علالت کے ان دنوں میں ایسے دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی کہ بقول میرؔ جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں تھیں۔ انہیں معلوم ہوا تو وہ بھی دوڑے چلے آئے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پانچ چھ ایسے دوستوں سے ملاقات نہ ہوتی ہو جن سے کبھی ہفتوں ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ وہ جب عیادت کے لئے آتے ہیں ، تو اداس شکل لے کر آتے ہیں کہ بیمار کی عیادت کا یہی مروجہ طریقہ ہے۔ مگر جب وہ مجھے حسب معمول ہشاش بشاش موڈ میں دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں حالانکہ انہوں نے یہ شعر یقیناً سنا ہوتا ہے۔
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
بہرحال ان کے آنے سے گھر میں رونق کا سماں پیدا ہو جاتا ہے کہ بقول غالب۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی
تاہم واضح رہے یہ شعر میں نے یہاں محض اس لئے لکھا ہے کہ ایسے مواقع پر عموماً اسی طرح کے شعر کوٹ کئے جاتے ہیں ورنہ الحمدللہ نوحہ غم والی کوئی بات نہیں، حادثات زندگی کا حصہ ہیں اور ان سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر نوحہ غم کی بجائے نغمہ شادی ہی سے کام لیا جائے۔
گزشتہ روز ایک ہمسائے جنہیں میرے فریکچر کا علم نہیں تھا، محض کرسٹی کال کے لئے چلے آئے، برآمدے کو خوبصورت بوٹوں سے اٹا دیکھا تو پوچھا ’’لوگ ابھی تک سالگرہ کی مبارک باد کے لئے چلے آرہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کی ’’جناب والا! میری یکم فروری کو سالگرہ تھی، اس موقع پر ملنے والے گلدستوں کی جگہ اب یہ پھول میرے پاؤں کے فریکچر کی میری تکلیف کو میری خوشی میں تبدیل کرنے کے لئے لائے ہیں‘‘۔ یہ سن کر انہوں نے کف افسوس ملنا شروع کردیا، انہوں نے کف افسوس اتنا ملا کہ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں ان کی کف ہی نہ مسلی جائے اور اس کے بعد وہ ساری عمر کف افسوس ہی نہ مل سکیں، اور ہاں عیادت کے لئے آنے والے دوستوں کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، کچھ تو آتے ہیں اور کچھ دیر تک حال احوال پوچھنے کے بعد چلے جاتے ہیں۔ کچھ آتے ہیں اور اتنی دیر تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک میں ان کا حال احوال پوچھنا شروع نہیں کردیتا۔ عیادت کے لئے آنے والے زیادہ تر دوست یہی کہہ کہہ کر میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ چند دنوں کی بات ہے۔ اس کے بعد دوبارہ تم ہوگے اور تمہاری آوارہ گردیاں ہوں گی۔ مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو بے شمار ایسے کیس گنواتے ہیں جو خراب ہوگئے تھے، اور ان میں سے بالآخر کچھ کی ٹانگ بھی کاٹنا پڑ گئی تھی۔ ایسے مواقع پر میرے اندر کا درندہ جاگنے کی کوشش کرتاہے اور اس کی ٹانگ پر کاٹنا چاہتا ہے مگر اسے بہلا پھسلا کر سلا دیتا ہوں ۔
جب سے دوستوں کی عیادت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مجھے ہر دوست کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا پڑتی ہے جس کا میں بالکل عادی نہیں ہوں، سارے دن میں صرف ایک کپ چائے ناشتے میں پیتا ہوں کہ لوگوں سے سننے میں آیا ہے کہ چائے ناشتے کا لازمی جزو ہوتی ہے، سو گزشتہ 25دنوں کے دوران اتنی زیادہ چائے پی چکا ہوں کہ اب یورین میں پتی آنا شروع ہوگئی ہے۔ انگریزی اتنی اعلیٰ زبان ہے کہ اس میں گندے لفظ بھی خوبصورت لگنے لگتے ہیں، اب میں نے کس خوبصورتی سے پیشاب میں پتی آنے کے جملے کو بیوٹی پارلر میں بھجوا کر اسے یورین میں پتی آنے میں تبدیل کیا ہے، اردو کے لئے تحریک چلانے والی عزیزہ قمر کو اس زاویے سے بھی مسئلے کو دیکھنا چاہئے۔ ایک بات اور کچھ دوست میری ٹانگ پر دو کلو وزن کا پلاسٹر دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی ایک آدمی بھیجتا ہوں، وہ یہ پلاسٹر کاٹ پھینکے گا اور تمہیں تیل کی ایک شیشی دے گا جس کا تم نے صرف ایک ہفتے مساج کرنا ہے، اس کے بعد تم چاہو تو میراتھن ریس میں بھی حصہ لے سکتے ہو، میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ یار تین ہفتے یہ پلاسٹر برداشت کر چکا ہوں، بس تین ہفتے اور ہیں، اس کے بعد خیر ہی خیر ہے، وہ میری ’’خوش فہمی‘‘ دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایک دوست اور بھی ہیں، وہ میڈیکل سائنس پر سرے سے یقین نہیں رکھتے، انہیں یقین کامل ہے کہ اس وقت دنیا میں جتنی بیماریاں ہیں، وہ اس میڈیکل سائنس ہی کی وجہ سے ہیں، ان کا خیال ہے کہ ہارٹ سرجری بھی نرا فراڈ ہے کیونکہ ایک بابا جی سینے پر صرف انگلیاں پھیر کر دل کی ساری شریانیں کھول دیتے ہیں۔ آرتھوپیڈک سرجنز کو تو وہ صفحہ ہستی سے مٹانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں، ان کے خیال میں ہڈیوں کا علاج صرف پہلوانوں کے پاس ہے کیونکہ کشتی کے دوران اکثر ان کے ’’ہڈ پائوں‘‘ ٹوٹتے رہتے ہیں مگر اگلے دن اپنے علاج سے وہ دوبارہ اکھاڑے میں ہوتے ہیں، گزشتہ روز تو وہ اپنے ساتھ ایک پہلوان کو لے کر آگئے جو خود لنگڑا کر چل رہا تھا، مجھے مخاطب کیا اور فرمایا ’’تم نے بولنا نہیں‘‘ اور پھر پہلوان سے کہا ’’اس کا پلستر کاٹو‘‘ پہلوان نے اپنی دھوتی کے ڈب میں سے ایک کٹر نکالا اور پیشتر اس کے کہ وہ میرا آپریشن شروع کرتا، میرا بیٹا میری مدد کو آیا اور پہلوان جی کو بہت عزت و تکریم سے گھر سے نکال دیا۔
سو دوستو! یہ ہے وہ صورت احوال جس سے میں ان دنوں گزر رہا ہوں اور ہماری قوم بھی گزر رہی ہے، قوم کو خوشخبریاں سنانے والے بھی ہیں اور انہیں بری خبریں سنانے والے بھی، میری پالیسی یہ ہے کہ میں نہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہو کر حالات سے آنکھیں بند کرتا ہوں اور نہ مایوس ہو کر ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے پتہ ہے میں علیل ہوں اور مجھے علاج کی ضرورت ہے۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ اللہ تعالی مجھے صحت یاب بھی کرے گا۔ قوم کو بھی اسی سوچ کی ضرورت ہے اور مجھے خوشی ہے کہ ہماے عوام کی اکثریت میڈیا سے نہیں اپنے ذہن سے سوچتی اور اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ