12فروری کو رواں پارلیمانی مدت کے آخری ضمنی الیکشن میں این اے154لودہراں سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پیر سید اقبال شاہ نے تحریک انصاف کے سینئررہنما جہانگیرخان ترین کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے امیدوار علی خان ترین کو 27ہزار سے زائد ووٹوں کی برتری سے شکست دے کر اپنی سیٹ واپس لے لی ہے۔ 2013کے الیکشن میں اسی نشست سے حلقہ کے ہر دلعزیز اور سدا بہار رکن صوبائی اسمبلی رہنے والے صدیق خاں بلوچ جہانگیر خان ترین کو ہرا کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جو بعد ازاں جہانگیر ترین کی عدالتی کارروائیوں کے نتیجہ میں نااہل ہوئے اور الیکشن ٹربیونل نے اس حلقہ کے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا جس پر دو سال قبل ضمنی الیکشن ہوا اور اس میں جہانگیر خان ترین اپنے روایتی حریف صدیق خاں بلوچ کو40ہزار سے زائد کی برتری سے ہرا کر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، مگر پانامہ کی آندھی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کیساتھ ساتھ تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے اور سپریم کورٹ سے نااہل قرار پائے۔ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوا تو بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی ایسا تگڑا امیدوار نہیں جو تحریک انصاف کی عوام میں بڑھتی ہوئی مقبولیت تبدیلی کی لہر اور جہانگیر ترین کی ”چمک” کا مقابلہ کر سکے خود مسلم لیگ کا کوئی رہنما الیکشن لڑنے کوتیار نہ تھا یہاں تک کہ صدیق خاں بلوچ جیسے سیاسی کھلاڑی نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اور ٹکٹ کا قرعہ مخدوم عالی تحصیل دنیا پور سے تعلق رکھنے والے درویش صفت مسلم لیگی رہنما پیر اقبال شاہ کے نام نکلا جو مشرف دور میں یونین ناظم اور تحصیل ناظم دنیا پور بھی رہ چکے ہیں اور ان کے ایک صاحبزادے پیر مدثر قریشی اپنی آبائی یونین کونسل مخدوم عالی سے چیئرمین اور دوسرے پیر عامر اقبال قریشی دوسری مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی ہیں ایسا لگ رہا تھا کہ یہ الیکشن یکطرفہ ہے اور علی خان ترین باآسانی یہ الیکشن بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے، مگر12فروری کی رات جب نتائج آنا شروع ہوئے تو ساری پیشن گوئیاں، قیاس آرائیاں ،شرطیں اور چالیں الٹی نظر آنے لگیں اور مسلم لیگ (ن) بڑا اپ سیٹ کرکے اپنی چھینی ہوئی نشست تحریک انصاف اور جہانگیر خان ترین سے واپس لے چکی تھی۔ مسلم لیگ(ن) کی جیت اور تحریک انصاف کی ہار پر ہر کوئی اپنی اپنی سوچ اور انداز سے تبصرے کررہا ہے تجزیہ دے رہا ہے اس میں ہمارے کئی ایسے ٹی وی اینکرز اور دانشور بھی شامل ہیں جنہوں نے کبھی لودہراں دیکھنا تو درکنار شاید نام بھی نہ سنا ہوگا اور وہ اس سے آشنا بھی جہانگیر خان ترین کی وجہ سے ہوئے ہوں گے ۔ تحریک انصاف کی ہار کی بڑی وجہ بظاہر حد سے زیادہ خود اعتمادی اور آسان ہدف دکھائی دیتا ہے
مگراس کے پیچھے کئی اور حقیقتیں بھی ہیں جن پر تحریک انصاف کو غور
کرنا ہوگا اور تبدیلی کے خواہاں عمران خان اور ان کی جماعت اگر واقعی ملک
میں تبدیلی لانے کی خواہاں ہے تو وہ اس ہار کو سنجیدگی سے لے کیونکہ یہ
ہار نہیں عمران خان کیلئے خطرے کا الارم ہے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
تبدیلی لانے کے دعویدار عمران خان اور ان کی جماعت تاحال عملی سیاست سے کوسوں دور ہیں اور وہ زمینی حقائق سے نہ صرف ناآشنا ہیں بلکہ ان کے پاس
اس کا کوئی تریاق بھی نہیں بنی گالا میں بیٹھ کر پالیسیاں بنانا، ہوائی جہازوں پر آکر جلسوں سے خطاب کرنا ، ایسی سیاست شاید یورپ یا دوسرے جمہوری ممالک میں تو چلتی ہو گی مگر ہمارے ہاں سیاست کرنا اور الیکشن لڑنا اور
طرح کا کھیل ہے عمران خان کو شاید ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ جلسوں
میں کھڑے ہو کر جس موروثی سیاست کے خاتمہ کیلئے وہ تبرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اسی کی بقاء کیلئے ووٹ مانگ رہے ہوتے ہیں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی جہاں بہترین انتخابی حکمت عملی کا نتیجہ ہے وہاں اس میں پیر اقبال شاہ کی ذاتی
شخصیت کا بھی بڑا عمل دخل ہے پیر اقبال شاہ انتہائی سادگی پسند، شریف
النفس اور درویش صفت انسان ہیں نو منتخب رکن قومی اسمبلی نے اپنے حلقہ
میں صحت اور تعلیم کیلئے ذاتی زرعی اراضی سے رقبہ دے کر بے پناہ منصوبے
مکمل کرارکھے ہیں میری ایک مرتبہ پیر اقبال شاہ سے اس وقت
ملاقات ہوئی جب وہ مشرف دور میں تحصیل ناظم کے امیدوار تھے بعد ازاں پیر اقبال شاہ قریشی تحصیل ناظم دنیا پور بنے اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر خان ترین نے لودہراں میں بےشمار فلاحی کام کرائے سینکڑوں ترقیاتی منصوبے اپنی ذاتی جیب سے مکمل کرائے اور کرارہے ہیں عوام کو تعلیم و صحت جیسی سہولیات کی فراہمی پر بھی توجہ دے رہے ہیں مسلم لیگ (ن) بھی اندرونی خلفشار اور دھڑے بندی کا شکارتھی دنیا پور سے لودہراں لائے گئے امیدوار پیر اقبال شاہ قریشی کو مقامی تنظیموں اور عہدے داروں کی حمایت بھی حاصل نہ تھی اور میدان علی خان ترین کیلئے بالکل صاف لگتا تھا مگر آخر میں پورے میچ کا پانسہ پلٹ گیا جس کا تحریک انصاف ادراک نہ کر سکی عمران خان خود کو بڑا اچھا کپتان کہتے ہیں مگر وہ ان کی ٹیم لودہراں کے کپتان بانی ضلع لودہراں سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور صدیق خان کانجو کے صاحبزادے وزیر مملکت عبدالرحمن خان کانجو سے مات کھا گئی دولت کے بل بوتے پر سیاست میں آنے والے جہانگیرترین حلقہ کی روایتی سیاست کو نہ سمجھ سکے اور میدان سے آؤٹ ہوگئے مسلم لیگ(ن) نے ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلائی جبکہ تحریک انصاف کے لاہور اور دیگر شہروں سے آنے والے مرکزی قائدین ترین فارم میں سپرنگ گالا منانے میں مصروف رہے اور یہ بھول گئے کہ ووٹ مانگنے سے ملتے ہیں میٹنگز کرنے اورسیلفیاں بنا کر فیس بک پر پوسٹ کرنے سے نہیں لوگوں نے جماعتی وابستگی سےہٹ کر پیر اقبال شاہ کے حق میں ووٹ دیا اور وہ کامیاب ٹھہرے ضمنی الیکشن کا جو نتیجہ آنا تھا آچکا ہے جہانگیر خان ترین اور تحریک انصاف کو اپنی اس ہار کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اگر وہ واقعی نئے پاکستان اور نئے لودہراں کے خواہاں ہیں تو انہیں ہیلی کاپٹر سے اتر کر نیچے زمین پر آنا ہوگا برادریوں کے سربراہوں ڈیرہ داروں جاگیرداروں وڈیروں اور تمن داروں کی بجائے عام لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہو گا گلی گلی کوچہ کوچہ بستی
بستی جھونپڑی جھونپڑی جانا ہو گا ہر کسی کو چچا، تایا، ماموں، خالو،
بزرگ، بھتیجا، بھانجا، اماں، بہن، بیٹی بنانا ہو گا اور بڑوں کے چنگل سے
خود کو آزاد کراکر عام لوگوں کیساتھ بیٹھنا ہو گا اگر وہ ایسا کرسکتے ہیں
تو شاید تبدیلی کا نعرہ عملی حقیقت بن جائے ۔ سچ یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں شرافت اور پیار جیتا اور دولت ہار گئی۔
فیس بک کمینٹ