ملتان اور بہاولپور جیسے قدیم اور تاریخی شہروں کے درمیان میں واقع لودھراں شہرآجکل پورے ملک میں زیر بحث ہے۔لودھراں کے حلقے این اے 154میں ہونے والے ضمنی انتخاب کے حیرت انگیز نتیجے نے جہاں سیاسی پنڈتوں کو انگشت بدنداں کردیا ہے وہاں تحریک انصاف کے غروروتکبر کے غبارے سے ہوا بھی نکال دی ہے ۔این اے 154صرف ایک الیکشن ہی نہ تھا بلکہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب کی سیاسی آب وہوا کی پیش گوئی بھی ہے۔اس الیکشن میں بظاہر جیت مسلم لیگ ن کی ہوئی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جیت عبدالرحمان کانجو کی حیرت انگیز سیاسی دوراندیشی اور جوڑ توڑ کا نتیجہ ہے۔ اس کامیابی میں اقبال شاہ قریشی کی درویش صفت شخصیت کا عمل دخل تو ہے لیکن اس سے زیادہ ترین خاندان کا خطرناک حد تک بڑھا ہوا اعتماد بھی شامل ہے ۔لودھراں کی سیاست پر نظرڈالیں تو یہاں برادریوں کی بنیاد پر شخصیت پرستی کا رجحان غالب دکھائی دیتا ہے ۔ ایک طرف بلوچ برادری ہے جس میں جند وڈا بلوچ کے بعد اعجاز بلوچ ، صدیق بلوچ جیسے عوامی سیاست میں رچے بسے ہوئے سیاستدان شامل ہیں تو دوسری جانب سید برادری ہے جن کے مریداور عقیدت مند کثیر تعداد میں موجود ہیں ۔اسی حلقے میں اعوان ، ا رائیں ، گھلو ، گجر اورراجپوت بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔یہاں سے ہمیشہ وہی جیتا جو ان بڑی برادریوں سےتھا یا پھر وہ جیتا جس کو ان کی حمایت حاصل رہی ۔صدیق بلوچ کی بدقسمتی کہ وہ نااہلی کی چکی میں پس گئے اور اس کا فائدہ جہانگیرترین کو کامیابی کی صورت میں ملا مگر افسوس سرمایہ دارسیاست دان علاقائی سیاست کو سمجھنے میں ناکام رہا اور کامیابی کےلئے دولت کی چمک پر انحصار کیا ۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جہانگیرترین جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اچھا اضافہ تھے ان میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی ہے اور انہوں نے علاقے میں اپنے پلے سے کروڑوں روپے کی ترقیاتی کام بھی کروائے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ حلقے کا عام آدمی خود کو ان کے سامنے کمتر سمجھتا ہے ۔ اس سب کے باوجود جہانگیرترین اچھی شہرت کے حامل ایک صاف ستھرے سیاستدان کی شکل میں ابھررہے تھے کہ نااہلی کی زد میں آگئے جس سے جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کو خاصا نقصان ہوا اور مزید ہوگا جس کے اثرات آئندہ عام انتخابات میں سامنے آئیں گے ۔ جہانگیرترین کے بعد موروثی سیاست پر حد سے زیادہ تنقید کرنے والی جماعت نے علی ترین کو ٹکٹ دیدیا جس کے پاس ”پدرم سلطان بود“ کے علاوہ کوئی صلاحیت نہ تھی ۔نووارد علی ترین کے کندھوں پر ذمہ داری پڑی تو اس نے اس کو کسی حد تک کامیابی سے نبھایا لیکن وقت کم تھا ۔کامیابی کےلئے پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ۔ ترین ہاؤ س نے اپنے تنخواہ دار ملازمین اور رعایا پر اعتماد کیا جس نے ساتھ بھی دیا لیکن یہ سب کچھ کافی نہ تھا۔ اگر جہانگیرترین حلقے میں کسی بڑی برادری کو اپنے ساتھ ملا لیتے تو انکی کامیابی یقینی تھی ۔لیکن یہ کام کیا عبدالرحمان کانجو نے جنہوں نے روٹھے ہوئے دیرینہ ساتھی پیررفیع الدین شاہ اور دیگر کو منایا اور گھر گھر جاکر ووٹ مانگے ۔ عزت کے بھوکے ووٹرز کےلئے یہ بڑی بات تھی ۔یہاں یہ بھی امر قابل ذکر ہے کہ اقبال شاہ قریشی کا خاندان علاقے میں سوشل ورک کے حوالے سے اچھی شہرت کا حامل ہے اس خاندان نے کئی مربع زرعی اراضی خدمت خلق کےلئے وقف کررکھی ہے اور بڑی بات یہ کہ خود اقبال شاہ عام آدمی کی باآسانی دسترس میں ہیں دوسری جانب جہانگیرترین اور علی ترین سکیورٹی حصار میں گھرے وہ سیاستدان ہیں جن سے ملنے کےلئے ان سے پہلے کافی لوگوں سے ملنا پڑتا ہے ۔ضرورت سے بڑھی خود اعتمادی اور تکبر کا یہ عالم کہ جہانگیرترین نااہلی کے باجود شاہ محمود قریشی کو اہمیت دینا گوارا نہیں کرتے ۔ کچھ ہی عرصہ قبل ملتان میں ورکرز کنونشن میں پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو جس بری طرح نظر انداز کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لودھراں میں شاہ محمود قریشی علی ترین کی مدد کو نہیں آئے سوائے عمران خان کے ہمراہ جلسے میں آمد کے انہوں نے کسی سے ایک ووٹ بھی نہیں مانگا لودھراں میں مقامی پارٹی رہنماءبھی جہانگیرترین سے خائف دکھائی دیتے ہیں اور یہاں تک کہا گیا کہ وہ اپنے ملازمین اور پارٹی کارکنوں میں فرق کو سمجھیں ۔پی ٹی آئی کی جانب سے پارٹی سربراہ سمیت دیگر مرکزی رہنماءلودھراں پہنچے اور پسماندہ علاقے میں بادشاہوں جیسا وقت گزارا لیکن انکی آمد کا کیا فائدہ ہوا ؟ایک مرتبہ پھر جیت ن لیگ کی ہوئی اور ن لیگ نے اپنی کھوئی ہوئی سیٹ پھر سے حاصل کرلی ۔پیراقبال شاہ قریشی نے ایک لاکھ 16ہزار 590ووٹ لیئے اور علی ترین نے 40لاکھ روپے کی بریانی کھلا کر 91ہزار 230ووٹ اکھٹے کئے یہاں یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگاکہ لودھراں میں پیپلزپارٹی کو انتہائی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا 2002ءمیں 76ہزار سے زائد ووٹ اور 2008ءمیں 79ہزار ووٹ لینے والے پیپلزپارٹی کے امیدوار مرزاناصربیگ صرف 3ہزار 189ووٹ لے کے ضمانت ضبط کروابیٹھے ان سے زیادہ ووٹ لبیک تحریک نے حاصل کئے ۔یقینا یہ نتائج پیپلزپارٹی کےلئے لمحہ فکریہ ہیں جس کی قیادت آئندہ انتخابات میں کامیابی کے دعوے کرتی نہیں تھکتی انہیں سوچنا ہوگا کہ اب عوام کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں رہا ۔ لودھراں الیکشن کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے الیکشن میں ن لیگ پر پیسہ خرچ کرنے کا الزام شرمناک ہے ۔ انہیں کھلے دل سے شکست قبول کرکے ہار کا باعث بننے والے عوامل پر توجہ دینی چاہئے ۔لودھراں ضمنی الیکشن میں اگر یہ کہا جائے کہ پارٹی سے زیادہ شخصیات کی جنگ ہوئی تو غلط نہ ہوگا ، جہانگیرترین ون مین شو کرتے دکھائی دیئے تو عبدالرحمان کانجو اور اقبال شاہ درویشی چولا پہن کر شہرمیں نکل پڑے ۔ن لیگ کی مرکزی قیادت کی جانب سے بے حسی کی حد تک الیکشن کو نظر انداز کیا گیا شاید قیادت کو کامیابی کی اُمید نہ تھی ۔ تاہم ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اسی طرح جہانگیرترین کی نااہلی کی کوکھ سے علی ترین نے جنم لیا ہے ۔گو علی ترین الیکشن ہار گئے لیکن انہوں نے بہترین انگز کھیلی تھوڑے وقت میں انہوں نے ثابت کیا کہ ان میں اپنے والد سے زیادہ بہتر سیاست بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ عوامی مزاج کے حامل علی ترین کو اگر عام انتخابات میں پارٹی نے امیدوار نامزد کیا تو انکی کامیابی کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے نوجوان سیاستدان میں مخالفین سے مفاہمت اور دوسروں کی بات سننے کی صلاحیت اسکے روشن مستقبل کی نوید ہے ، نااہل ترین کے بعد ناکام ترین اپنی انہیں صلاحیتوں سے کامیاب ترین بن سکتا ہے ۔
فیس بک کمینٹ