پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی طرف سے ’نا مناسب الفاظ‘ استعمال کرنے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا پی سی اوکے تحت حلف لینے والے جج اب باقی لوگوں کو اخلاقیات کا درس دیں گے۔ اسلام آباد میں احتساب عدالت میں پیش ہونے کے بعد اخباری نمائیندوں سے باتیں کرتے ہوئے نواز شریف نے چیف جسٹس ثاقب نثار کے طرز تکلم کو عمران خان کے مماثل قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ جو زبان چیف جسٹس استعمال کررہے ہیں ، اس میں اور عمران خان کے الزامات سے بھرپور لب و لہجہ میں کیا فرق ہے۔ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف یہ سخت تنقید عدالت عظمی کی اس وارننگ کے باوجود سامنے آئی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ عدالتوں کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی۔
سپریم کورٹ حال ہی میں سابق سینیٹر نہال ہاشمی کو غیر مشروط معافی کے باوجود ججوں کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرنے پر ایک ماہ قید اور پچاس ہزار جرمانے کی سزا دے چکی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں پبلک آفس کا نااہل بھی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان سے سینیٹ کی نشست خالی کروالی تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی وزرا نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کو عدلیہ پر تنقید کرنے کے الزام میں توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ ان مقدمات کی سماعت سپریم کورٹ کے مختلف بنچوں میں شروع ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ایک آبزرویشن میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ عدالتوں کے ججوں کو خود پر تنقید کا جواب دینے کا حق حاصل ہے۔ چیف جسٹس کا یہ مؤقف ان کے مختلف سیاسی نوعیت کے بیانات پر ہونے والی تنقید کے بعد سامنے آیا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو سیاسی بیانات پر رد عمل ظاہر کرنے کی بجائے عدالتوں میں فیصلے کرنے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے کام ہر توجہ دینی چاہئے۔
نواز شریف کا تازہ بیان گزشتہ جولائی میں پاناما کیس میں نااہلی کے فیصلہ کے بعد سخت ترین بیان کہا جاسکتا ہے ۔ اس بیان میں انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ کن ججوں کو پی سی او جج کہتے ہیں۔ آج کے بیان میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے تحت حلف لینے والے جج پی سی او جج ہیں ۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ان ججوں کو اخلاقیات کا درس دینے کا کوئی حق نہیں ہے کیوں کہ وہ خود ایک آمر کے خلاف اعلیٰ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے تھے۔ نواز شریف نے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران حال ہی میں سامنے آنے والے سوال نما تبصروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہمیں ڈان، سیسیلین مافیا قرار دینے کے بعد اب چور اور ڈاکو کہا جا رہا ہے۔ یہ لب و لہجہ عمران خان کے بیانات جیسا ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کو زیب نہیں دیتا‘۔
نواز شریف نے نااہلی کے بعد سے سپریم کورٹ کے خلاف تند و تیز لب و لہجہ اختیار کیا ہے تاہم سپریم کورٹ اور اس کی ہدایت پر کام کرنے والی احتساب عدالتوں نے نواز شریف یا ان کے خاندان کو رعایت دینے سے انکار کیا ہے۔ آج بھی اسلام آباد احتساب عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے بدعنوانی کے مقدمات میں ذاتی حاضری سے دو ہفتے کے استثنیٰ کی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا، حالانکہ ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ وہ کلثوم نواز کی عیادت کے لئے لندن جانا چاہتے ہیں جہاں ان کے کینسر کا علاج آخری مراحل میں ہے اور ان کے اہل خاندان کو اس وقت ان کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ کل ہی احتساب بیورو کی طرف سے وزارت داخلہ کو نواز شریف کے علاوہ مریم اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ تاہم وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت صرف عدالتی احکامات پر ہی کسی شخص کا نام ای سی ایل میں شامل کرسکتی ہے۔ نواز شریف اور عدالتوں کے درمیان تصادم کی موجودہ صورت حال میں یہ امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ سپریم کورٹ اس قسم کا کوئی حکم بھی جاری کردے۔
اس دوران سپریم کورٹ دو ایسے مقدمات پر فیصلہ کرنے والی ہے جن کا نواز شریف کے سیاسی کردار پر اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ ان میں ایک مقدمہ میں آئین کی شق 62 کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کیا جائے گا جبکہ دوسرے مقدمہ میں اس انتخابی ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت کے بارے میں فیصلہ ہوگا جس کے تحت تبدیلی کرتے ہوئے نواز شریف کی نااہلی کے باوجود انہیں مسلم لیگ (ن) کا صدر بنانے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔ اسی مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بنچ کے ایک رکن نے سوال کیا تھا کہ کیا کوئی چور کسی سیاسی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے یا جس شخص کو سپریم کورٹ صادق اور امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل قرار دے چکی ہو، کیا وہ سینیٹ کے امیدواروں کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا تھا کہ اگر نواز شریف کو بدعنوانی کے مقدمات میں سزا ہو جاتی ہے تو ایسی نامزدگیوں کی کیا حیثیت ہوگی۔ اب نواز شریف نے سپریم کورٹ کے ان سوالوں کو اپنی عزت نفس پر حملہ قرار دے کر جوابی وار کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو براہ راست مورد الزام ٹھہرا کر یہ سوال اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ ان کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ چیٖف جسٹس اپنی ہی وضاحت کے مطابق تنقید کے جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے ایک بیان یا تقریر میں ان الزامات کا جواب دیں۔ دوسری صورت میں نواز شریف کے نائیبین کو سزا دینے اور نوٹس جاری کرنے کی بجائے براہ راست نواز شریف کو توہین عدالت کے الزام میں طلب کریں اور انہیں سزا دے کر جیل بھیجیں۔ سیاسی الزام تراشی کا جواب دینے کی صورت میں سپریم کورٹ کے سربراہ اور ایک سیاست دان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ اس صورت میں ایک جج کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف مزاحمت کے ذریعے واضح مقبولیت حاصل کی ہے ۔ لہذا عدالت عظمی اگر انہیں توہین عدالت کے الزام میں سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے ان کی مقبولیت اور سیاسی قد میں اضافہ ہی ہوگا۔
سپریم کورٹ نے خود ہی اپنے آپ کو اس مشکل صورت حال سے دوچار کیا ہے۔ اس کا حل بھی اب اسے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ موجودہ عدالتی فعالیت کو آگے بڑھاتے ہوئے اگر ایک مقبول سیاسی لیڈر پر ہاتھ ڈالا گیا تو اس سے ملک میں سیاسی نظام سے زیادہ عدالتی وقار کو دھچکہ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ تو کیا چیف جسٹس اب تحمل سے کام لیتے ہوئے ایسے رویہ کو ترک کرسکتے ہیں جو قانونی اور عدالتی سے زیادہ سیاسی رنگ اختیار کررہا ہے یا وہ اس جنگ کو آگے بڑھانا چاہیں گے۔ فیصلہ تو بہرحال چیف جسٹس کو ہی کرنا ہے۔
فیس بک کمینٹ