قائد اعظم محمدعلی جناح کو مائنس کرکے لیاقت علی خان بااختیار وزیر اعظم بننے کی جستجو میں راولپنڈی کی جلسہ گاہ میں مائنس کر دئے گئے۔ پھر بتدریج سفید و خاکی افسر شاہی کے سرغنوں غلام محمد، اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان کی ٹرائیکا نے ملکی اقتدار پر غلبہ حاصل کر لیا۔
بالآخر ٹرائیکا کے طاقتور ترین شخص اورمسلح افواج کے سربرا ہ جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا کو مائنس کرکے لندن روانہ کردیا اور ۱۹۵۸ کو ریاستی اقتدار پر آمرانہ پنجے گاڑ دیے۔ ۱۹۵۶ کا آئین ختم کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور نام نہاد فیلڈ مارشل کا لقب اپنے سینے سے چپکا لیا۔ جنرل ایوب خان دس سال تک براہ راست پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو بوٹوں تلے روندتا رہا۔ جنرل ایوب خان نے قائد اعظم کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ۱۹۶۵ کے صدارتی الیکشن میں تاریخی دھاندلی کرکے سیاست سے مائنس کر دیا۔ جنرل ایوب خان کو ۱۹۶۸ میں ایک عوامی تحریک کے نتیجہ میں اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ جنرل ایوب خان کے بعد مسلح افواج کے سربراہ یحیی خان نے اقتدار پر قبضہ جما لیا ۔
جنرل یحیی خان نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ۱۹۷۰ میں پاکستان کے پہلے عام انتخابات منعقد کرائے۔ ان انتخابات کامیابی حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو مائنس کرنے کے خونخوار آپریشن میں یحیی خان نے پاکستان کو ہی مائنس کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن تو مائنس نہیں ہوسکے مگر وہ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کرکے ایک خودمختار ملک بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
مارچ ۱۹۷۱ میں پاکستان دو لخت ہوا تو خاکی افسر شاہی اقتدار اعلیٰ سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئی۔ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان میں ۱۹۷۰ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ دو سال کے مختصر عرصہ میں بھٹو کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت تمام پارلیمانی جماعتوں کی تائید و حمایت سے ۱۹۷۳ کا متفقہ آئین مرتب اور نافذ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ۱۹۷۳ کے آئین کو ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی، سول و پارلیمانی بالادستی اور جمہوری عمل کا آغاز کہا جا سکتا ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد ریاستی اقتدار اعلیٰ پر ناجائز قابض سفید و خاکی افسر شاہی کے آمرانہ اور جمہوریت دشمن مزاج اور مفادات کو آئین و قانون کی حکمرانی اور سول بالادستی ایک آنکھ نہیں بھائی۔ جمہوریت دشمن اور آمرانہ مزاج خاکی افسر شاہی نے پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو بڑی مشکل سے چھ سال برداشت کیا۔ جبکہ اقتدار پر ناجائز قابض غیر منتخب حکمران جنرل ایوب خان دس سال، جنرل یحیی خان تین سال، جنرل ضیاالحق گیارہ سال اور جنرل مشرف تقریباً نو سال ملک پر مسلط رہے۔ جنرل ضیاالحق نے متفقہ آئین دینے والے پہلے جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سیاست اور زندگی سے مائنس کر دیا۔ ترازو اور خاکی افسر شاہی نے ملک کو متفقہ آئین دینے کا صلہ بھٹو شہید کے عدالتی قتل کی صورت میں دیا۔
دو بار منتخب ہونے والی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید دونوں بار مقتدرہ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئیں۔ انہیں دونوں بار آئینی اقتدار کا عرصہ مکمل نہیں کرنے دیا گیا۔ میاں نواز شریف تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر ایک بار بھی اقتدار کا آئینی دور مکمل نہ کر پائے۔ بے نظیر بھٹو شہید کو دسمبر ۲۰۰۷ میں لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل کر کے سیاست سے مائنس کر دیا گیا۔ مقتدرہ نے میاں نواز شریف کو بالآخر اعلیٰ عدلیہ کی سازشوں کے ذریعے مائنس کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین مائنس ہو کر لندن کے مستقل باسی بن چکے ہیں۔
آج ایک بار پھر ایک مقبول سیاسی لیڈر سابق وزیر اعظم عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔ مقتدرہ کو پی ٹی آئی تو کسی نہ کسی شکل میں قبول ہے مگر اس کے لیڈر عمران خان کو سیاست سے ہمیشہ کے لئے مائنس کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ مقتدرہ کو خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت تو قابل قبول ہے۔ مگر پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین عمران خان کے لئے اقتدار تک پہنچنے کے تمام راستے بند رکھنے کا تہہ کر لیا گیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگی مخلوط حکومت مقتدرہ کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل پہچانے میں معاون و مددگار ہے۔ ن لیگی قیادت موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران دور حکومت میں ن لیگی راہنماؤں پر ناجائز مقدموں اور مظالم کا بدلہ چکانا چاہتی ہے۔ پی پی پی کے قیادت بھی عمران خان کو سبق سکھانے میں پیچھے نظر نہیں آتی مگر اپنے جمہوری ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی اور عمران خان سے مذاکرات کرنے کی حمایت کرتی ہے۔
سیاست میں مقتدرہ کی غیر آئینی مداخلت اور سیاستدانوں کی موقع پرستیاں پاکستانی سیاست کا المیہ رہا ہے۔ اقتدار کے بھوکےاور جمہوری قدروں سے نابلد سیاستدان مقتدرہ کی پشت پناہی سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے کے لئے عمران خان نے بھی یہ ہی راستہ اپنایا اور میاں نواز شریف بھی انہی راستوں کے مسافر رہے ہیں۔ میاں نوازشریف اور عمران خان کو اقتدار سے محروم کرنے میں انہیں قوتوں کا بنیادی کردار رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا لولا لنگڑا اقتدار بھی انہیں قوتوں کا مرہون منت ہے۔
آج کے حالات میں پاکستان کا آئینی اور جمہوری مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ غیر منتخب ریاستی اداروں کے آئینی حدود میں رہنے کے آثار دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ حکمران جماعتوں اور پی ٹی آئی کی قیادتوں کے درمیان نفرت اور دوریاں آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے ہر گز اچھا شگون نہیں ہیں۔ اس طرح سیاستدانوں کی موقع پرستیاں اور ذاتی عناد سے مقتدرہ کے ماورائے آئین کردار کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ شہباز حکومت مقتدرہ کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے تو عمران خان بھی مقتدرہ سے تعلقات بحال کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شایدعمران خان مقتدرہ کے ماورائے آئین سیاسی کردار کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
جمہوریت پسند تجزیہ کار متفق ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد سے ایک جمہوری و آئینی میثاق پر اتفاق رائے پیدا کرکے مقتدرہ کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کی راہ ہموار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، اورمولانا فضل الرحمن کو باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کو آمرانہ قوتوں کے شکنجے سے نکال کر آئین اور جمہوریت کے راستے پر گامزن کرنے میں اپنا جمہوری کردار ادا کرنا چاہیے۔ عمران خان کے سیاست سے مائنس ہونے سے بچنے کا راستہ بھی یہی ہے۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ وقت کے ظالم تھپیڑے شاید عمران خان کو یہ موقع دوبارہ میسر نہ آنے دیں۔
فیس بک کمینٹ