شہکار ادب لکھ کے بھی محروم توجہ
میں سب سے بڑااور مری اوقات بہت کم
23 نومبر جمعرات کی سہ پہر کبیروالا کے پنجابی شاعر عبدالستار خاور نے فون پر اطلاع دی کہ استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدر ی کی بیوہ کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کی نماز جنازہ بعد نماز مغرب دارا لعلوم عیدگاہ کبیروالا میں ادا کی جائے گی۔ استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدری بلا شبہ وہ شخصیت ہیں کہ ادب کے حوالے سے جب بھی کبیروالا کا ذکر ہوگا تو ڈاکٹر بیدل حیدری کا نام ہی کبیروالا کی ادبی شناخت کی صورت میں لیا جائے گا ۔ اہل علم لوگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ادب کسی بھی معاشرے میں انسانی جسم کے اندر خون کی گردش کی طرح ہوتا ہے جس طرح انسانی زندگی کا تصور خون کی گردش کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح زندہ معاشرے میں ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا ہونا اور ان کی پذیرائی لازمی امر ہے ۔ جو قومیں ادب کی لطافت سے محروم ہوجاتی ہے پھر ان میں عدم برداشت، شدت پسندی بڑھتے بڑھتے دہشت گردی کا روپ دھار لیتی ہے اور پھر اس مردہ معاشرے میں سانس تک لینا محال ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر بیدل حیدری کے بارے میں یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ آپ ادب کے وہ سورج تھے جن کی روشنی سے کئی ستارے آسمان ادب پر اپنی روشنیاں بکھیررہے ہیں ، مگر ادب کا یہ سورج جب اپنے جسمانی وجود کے لحاظ سے غروب ہوا تو ان کی نماز جنازہ پڑھنے والے بہت کم لوگ تھے اور ان سے فیض حاصل کرنے والے طوطے کی طرح اپنی آنکھیں پھیر چکے تھے۔ جمعرات کی شام جب استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدری کی شریک حیات کا جنازہ دارالعلوم لایا جارہا تھا تو اسے دیکھتے ہوئے مجھے یہ بات کہنے میں قطعاً کوئی جھجھک نہیں کہ یہ جنازہ ان کی بیوہ کا نہیں تھا بلکہ ہمارے مردہ معاشرے کا جنازہ لایا جارہا ےتھا کیونکہ اس درویش خاتون کی چارپائی کے ساتھ فقط چند افراد کا ہونا ہی اس بات کا ثبوت تھا اور پھر یہ بھرم دارا لعلوم کے طلباء و اساتذہ نے رکھا کہ نماز جنازہ ادا کرتے وقت تین قطاریں بن گئیں اور ان کی شرکت سے نماز جنازہ میں ایک معقول تعداد شامل ہوگئی۔ اس سے زیادہ تلخ بات اگلے دن ہوئی کہ جب استاد سخن ڈاکٹر بیدل حیدری کی بیوہ کا سوگ منانے والا کوئی نہ تھا۔ مرحومہ کی فاتحہ اور تعزیت کے لیے کوئی فرووہاں موجود نہ تھا ، بیدل حیدری کی صاحبزادی اپنی بیٹی کے ساتھ گھر میں اکیلی ہی ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہی تھیں ۔ بیدل حیدری کا ایک بیٹا بابر تو اپنے والد کی زندگی میں ہی ٹریفک حادثے میں زندگی ہار گیا جبکہ دوسرا بیٹا ہمایوں لاکھوں نوجوانوں کی طرح اس معاشرے کی نیک نام اور معززشخصیات کے پرکشش منافع بخش کاروبار منشیات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ اپنی والدہ کے انتقال کے دوسرے روز ہمایوں اپنی والدہ کے اظہار تعزیت کے لئے آنے والے لوگوں کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی خوراک پوری کرنے کسی منشیات فروش کے اڈے پر پہنچ گیا۔ ویسے ہو سکتا ہے اسے اتنا سا شعور ہو کہ میری والدہ کی تعزیت کے لیے کسی نے آنا تو ہے نہیں تو وہ اپنے کرایہ کے گھر بیٹھ کر کیوں وقت ضائع کرے ۔ آج میں ڈاکٹر بیدل حیدری کی روح سے یہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو کیا ضرورت تھی کہ تقسیم کے وقت اپنی ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی چھوڑ کر اپنے خاندان کی ہمراہ پاکستان چلے آئے اور پھر کیا ضرورت تھی کہ لاہور آنے کے بعد شہر کبیروالا چلے آئے ۔ آپ اپنی فیملی کو کس کے سہارے چھوڑ کر چلے گئے کہ بیٹا نشہ کرنے لگا ۔ آپ کی اہلیہ اور بیٹی زندہ رہتے ہوئے پل پل مرتے رہے ۔یہ ماں بیٹی ان لوگوں کی لاپرواہی کا شکار بھی ہوئیں کہ جو لوگ ڈاکٹر بیدل حیدری کی زندگی میں ان کے قدم چومنے کے لیے بے قرار رہتے تھے پھر وہ دکھائی ہی نہ دیئے ۔اس کیفیت میں ڈاکٹر بیدل حیدری کا ہی ایک شعر یاد آرہا ہے کہیں انتہا کی ملامتیں، کہیں پتھروں سے اٹی چھتیںترے شہر میں مرے بعد اب، کوئی سرپھرا نہیں آئے گاتیسرے دن بروز ہفتہ ان کی رہائش گاہ پر اس مرحومہ کی مغفرت کے لیے اجتماعی دعا کا مسیج ملا اورجب اس دعائیہ تقریب میں شامل ہوئے تو ایک اور تکلیف دہ کیفیت سے دوچار ہونا پڑا اور میرے ذہن میں بار بار غالب کا یہ شعر گونج رہا تھا کہ۔۔۔ ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریانہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کہیں مزار ہوتا