قومی اسمبلی نے حکومت کی خواہش کے مطابق آج منی بجٹ یا ان مالی تجاویز کی منظوری نہیں دی جو آئی ایم ایف سے طے پانے والے معاہدہ کے نتیجہ میں نافذ کرنا ضروری ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پاکستان کا معاہدہ قائم رہ سکے اور نویں جائیزے کے بعد ایک ارب ڈالر سے کچھ زئد رقم قومی خزانے میں وصول ہوسکے۔ سب اس سنگین صورت حال کو سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن عملی طور سے ہر نام نہاد ذمہ دار شخص قومی بحران کو اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اس کا آغاز خود شہباز شریف اور حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) نے کیا جب چار ماہ پہلے مفتاح اسماعیل کو اچانک تبدیل کرکے اسحاق ڈار کولندن سے بلا کر انہیں وزارت خزانہ سونپی گئی۔ ماہرین اور تجزیہ نگار جانتے تھے کہ اسحاق ڈار کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے اور وہ ملک کو درپیش مالی دباؤ میں کوئی معجزہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خاص طور سے ملک میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی تحریک انصاف ایک کے بعد دوسرا ہتھکنڈا اختیار کرکے بے یقینی کی کیفیت پیدا کررہی تھی اور معاشی بحران سے نکلنے کے لئے امداد کرنے والے ممالک واضح کرچکے تھے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کئے بغیر پاکستانی معیشت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور وہ ایسے ملک میں مزید سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ خاص طور سے چین کی طرف سے دکھائی جانے والی سرد مہری قابل ذکر ہے جس نے نہ صرف مزید فنڈز فراہم کرنے سے انکار کردیا بلکہ پہلے سے فراہم کردہ قرضوں کو یہ کہتے ہوئے رول اوور کرنے سے گریز کیا گیا کہ یہ تو بنکوں اور مالیاتی اداروں نے فراہم کئے ہیں۔ ان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
”اس صورت حال میں پاکستان کے لئے اہم تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ مزید تنازعہ مول نہ لیا جائے بلکہ مفتاح اسماعیل نے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں کی جانے والی بے اعتدالیوں کے بعد جس مہارت سے آئی ایم ایف سے معاہدہ پورا کرنے کی بات چیت مکمل کی تھی، وہ سلسلہ جاری رہتا اور ناخوشگوار حالات میں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی طرف توجہ مبذول رکھی جاتی۔ البتہ اس موقع پر بڑھتی ہوئی قیمتو ں اور مہنگائی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو یہ اندیشہ لاحق ہونے لگا کہ اس کا ووٹ بنک ختم ہورہا ہے۔ نواز لیگ کی مقبولیت کوسہارا دینے کے لئے اسحاق ڈار کو لندن سے لاکر وزیر خزانہ بنادیا گیا جنہوں نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے بارے میں پرجوش بیانات دے کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور ڈالر کی شرح پر قابو پانے کے لئے دیرینہ ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اصرار کیا جو اس سے پہلے بھی ملکی معیشت کو ادائیگیوں میں عدم توازن کی خطرناک صورت حال کی طرف دھکیل چکے تھے۔ سیاسی حکومتوں کے ایسے ہی عاقبت نااندیشانہ اور غیر پیداواری طریقوں کی روک تھام کے لئے عمران خان کے دور حکومت میں آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بنک کو خود مختار ادارہ بنانے کا قانون منظور کرنے پر اصرار کیا تھا۔ اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بننے کے بعد اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کو نظر انداز کیا اور قیاس کیا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو ایک بار پھر ’راہ راست‘ پر لایا جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے سیلاب کی صورت حال کو استعمال کرنے کی سرتوڑ کوشش کی گئی۔ اس کے علاوہ امریکہ اور چین سے سفارتی رابطوں کے ذریعے آئی ایم ایف کو رعایات دینے پر آمادہ کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
تاہم ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘کے مصداق اسحاق ڈار کی ہٹ دھرمی اور عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ڈالر کی مختلف شرحیں متعارف ہوئیں اور بیرون ملک سے تارکین وطن کی ترسیلات میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی۔ یہ ترسیلات درحقیقت ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ جب سرکاری پالیسی کی وجہ سے بنکنگ ذرائع کے مقابلے میں عام منڈی میں ڈالر کے عوض پاکستانی روپیہ سستا ملنے لگا تو بیرون ملک سے زر مبادلہ بھیجنے والوں نے غیر سرکاری ذرائع اختیار کرنا شروع کردیے۔ اس صورت حال میں حکومت کو اہم درآمدات کے لئے ڈالر فراہم کرنا مشکل ہوگیا اور بیرونی ادائیگیوں کے نتیجے میں اسٹیٹ بنک کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر سے بھی کم ہوگئے۔ اسحاق ڈار نے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ روکنے کی کوشش بھی کی تاکہ کسی طرح ملک میں افراط زر کو کنٹرول کیا جاسکے۔ تاہم یہ سارے ہتھکنڈے ملکی معاشی صورت حال سے لگا نہیں کھاتے تھے ۔ متعدد اقدامات مثلاً ڈالر کی شرح کے حوالے سے اسٹیٹ بنک کی خود مختاری کو محدود کرنا یا پیٹرولیم مصنوعات میں طے شدہ معاہدے کے مطابق اضافہ نہ کرنا ، جیسے فیصلوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ بعینہ وہی صورت حال پیدا کردی جو عمران خان کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو منجمد کرنے کے اعلان کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تعطل کا شکار ہؤا تھا اور اسحاق ڈار کے اقدامات سے بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی۔
تحریک انصاف کے دو ر میں کیے جانے والے فیصلوں کے بارے میں تو یہ دلیل دی جاسکتی تھی کہ سیاسی بقا کے لئے عمران خان نے غلط فیصلے کیے لیکن نئی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط کا احترام کرے گی۔ البتہ اسحاق ڈار نے گزشتہ چار ماہ کے دوران جو طریقے اختیار کیے، ان کی وضاحت کے لئے ان کے پاس کوئی معاشی دلیل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے اس پروگرام کا نواں جائزہ تاخیر کا شکار ہؤا اور جب ملک ڈیفالٹ کے بالکل قریب پہنچ گیا تو وزیر اعظم نے چین کے تعاون سے براہ راست آئی ایم ایف کو راضی کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے بالآخر آئی ایم ایف کا وفد اسلام آباد آیا ۔لیکن اس نے متفقہ فیصلوں پر عمل درآمد سے پہلے معاہدہ بحال کرنے اور قسط فراہم کرنے سے انکار کردیا۔ اسی لئے حکومت نے آئی ایم ایف سے معاملات درست کرنے کے لئے پہلے مالیاتی آرڈی ننس کے ذریعے فیصلے نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن صدر عارف علوی نے ملکی مفاد کی بجائے تحریک انصاف کی سیاست کو مقدم جانا اور اس آرڈی ننس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اب یہی تجاویز منی بجٹ کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی گئی ہیں جنہیں حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جیسے حلیفوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ اس اختلاف کو ختم کرکے کسی بھی طرح منی بجٹ منظور کروانے کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس سوموار تک ملتوی کیا گیا ہے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں شاید ویک اینڈ کے دوران اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں اور سوموار کے اجلاس میں منی بجٹ منظور ہوجائے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان نے اس طریقے سے کوئی مراعات حاصل کرنے سے زیادہ اپنے اپنے ووٹروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے تو عوام پر محاصل عائد کرنے کی مخالفت کی تھی لیکن اسحاق ڈار اور شہباز شریف کی غلطیوں کی وجہ سے انہیں مجبور ہونا پڑا اور وہ ملک کو بچانے کے لئے منی بجٹ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوگئے۔ یہ بالکل وہی رویہ ہے جو مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے یہ کہتے ہوئے اختیار کیا ہے کہ وہ حکومت کے مالی اقدامات سے متفق نہیں ہیں۔ یعنی آپ کی پارٹی فیصلے کررہی ہے لیکن پارٹی کی چیف آرگنائزر کسی بھی طرح خود کو اس سے بری الذمہ قرار دینا چاہتی ہیں تاکہ ووٹروں کو منہ دکھا سکیں۔ دوسرے لفظو ں میں کہا جاسکتا ہے کہ ملکی معیشت عالم نزع میں ہے لیکن تمام سیاسی گروہ اور لیڈر اپنی مقبولیت سنبھالنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اسی مریم نواز نے گزشتہ ماہ کے آخر میں لاہور واپسی پر اپنی پہلی تقریر میں ہی اسحاق ڈار کو ملکی معیشت کا مسیحا قرار دیا تھا۔
یہ حالات واضح کررہے ہیں کہ ووٹ بنک بچانے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔ شہباز شریف کو اقتدار سنبھالے ایک سال ہونے کو ہے، اب وہ زیادہ دیر تک ملک کو درپیش تمام مسائل کی ذمہ داری سابقہ حکومت پر عائد کرکے سرخرو نہیں ہوسکتے۔ جیسے کہ اسحاق ڈار منی بجٹ تقریر میں تحریک انصاف پر فرد جرم عائد کرکے خود اپنی فاش غلطیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ اس صورت حال سے یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ انتخابات مؤخر کروانے کے ہتھکنڈوں سے بھی شاید ووٹروں کو خوش کرنے کا مقصد حاصل کرنا ممکن نہ ہو۔ ایسے میں مزید غلطیاں کرنے اور ملک کو بدستور بحران و انتشار کا شکار رکھنے کی بجائے وزیر اعظم شہباز شریف کے لئے بہتر ہوگا کہ وہ فوری طور سے عام انتخابات کا اعلان کردیں۔ قومی اسمبلی تحیل کردی جائے اور معاملات عبوری حکومت کے سپرد کرکے وہ خود عوام کے پاس جاکر اپنا سیاسی مقدمہ پیش کریں۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات مؤخر رکھنے کے لئے اختیار کیے جانے والے ہتھکنڈے بھی ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ 90 روز میں پنجاب میں انتخابات کا حکم دے چکی ہے اور سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے چیف جسٹس سے اس بارے میں سو موٹو نوٹس لینے کی سفارش کی ہے۔ ممکنہ طور پر واضح آئینی ہدایت کی وجہ سے سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت میں انتخابات کروانے پر زور دے گی۔ یوں بھی حکومت کو صرف عمران خان کے سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے بلکہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی اس کی شنوائی نہیں ہورہی۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ ملک کا مزید نقصان کرنے سے پہلے انتخابات کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔
شہباز شریف اگر مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیں تو تحریک انصاف اور عدلیہ کے ساتھ انتخابات کے شیڈول پر اتفاق پیدا کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔ عمران خان متعدد بات کہہ چکے ہیں کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے لئے حکومت سے بات کرنے پر تیار ہیں۔ حکومت اگر بجٹ کے بعد یعنی اگست /ستمبر میں عام انتخابات کا ارادہ رکھتی ہے ، تو بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے لئے بہتر ہوگا کہ شہباز شریف فوری طور سے مستعفی ہوکر زمام اقتدار عبوری حکومت کے سپرد کردیں جو آئیندہ بجٹ بھی پیش کرسکتی ہے۔ ویسے بھی اگر دو بڑے صوبوں میں عبوری حکومت کے دورانیہ میں ’توسیع‘ ممکن ہے تو وفاق میں بھی عبوری حکومت کی مدت بڑھائی جاسکتی ہے۔ البتہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے ملک کو شدید سیاسی و آئینی بحران سے ضرور بچایا جاسکتا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )