یورپین یونین کے علاوہ متعدد دیگر ممالک کے سفیروں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرائن پر روسی حملہ کی مذمت میں پیش کی جانے والی قرار داد کے حق میں ووٹ دے۔ مقامی میڈیا کی اطلاع کے مطابق پاکستان نے ایک روز پہلے سوموار سے جنرل اسمبلی میں شروع ہونے والی بحث میں شرکت سے گریز کا فیصلہ کیا تھا۔ سفارتی ذرائع نے روزنامہ ڈان کو بتایا تھا کہ پاکستان اس معاملہ میں فریق نہیں بننا چاہتا اگرچہ ہماری خواہش ہے کہ اس تنازعہ کا پرامن اور قابل قبول حل تلاش کرلیا جائے۔
یورپی و دیگر ممالک کی طرف سے ایک خاص ملک کی جارحیت کے خلاف مؤقف اختیار کرنے کے حوالے سے پاکستان پر سفارتی دباؤ ڈالنے کی کوشش ایک منفرد طریقہ کار ہے ۔ یہ مؤقف ایک باقاعدہ خط کی صورت میں سامنے لایا گیا ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئیترس کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ روس نے ایک ہمسایہ ملک کی خود مختاری اور سرحدی سالمیت کی خلاف ورزی کرکے سنگین جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس جنگ میں سول علاقوں پر حملوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اس لئے روس پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ دنیا اس جارحانہ اقدام کو مسترد کرتی ہے ۔ روس کو فوری طور سے جنگ بند کرکے اپنی فوجیں یوکرائن کے علاقوں سے واپس بلانی چاہئیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس سلامتی کونسل کی ایک خصوصی قرارداد کے ذریعے طلب کیا گیا تھا کیوں کہ روس کے ویٹو کی وجہ سے سلامتی کونسل جنگ بندی کے لئے کوئی قرار داد منظور نہیں کرسکی تھی۔ حملہ سے ایک روز بعد ہی 25 فروری کو اس بارے میں ایک قرار داد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں زیر غور آئی تھی جس میں روس سے فوری طور سے یوکرائن کے خلاف جنگ بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا ۔ روس نے اسے ویٹو کردیا اور یوکرائن میں جنگ کو اپنے وسیع تر مفاد اور سلامتی تحفظ کی جنگ قرار دیا تھا۔ اس قرار داد پر سلامتی کونسل کے اراکین چین ، بھارت اور متحدہ عرب امارات نے بھی رائے شماری میں حصہ لینے سے انکار کردیا تھا تاہم باقی ماندہ 11 رکن ممالک نے قرار داد کی حمایت میں ووٹ دیا۔ البتہ روسی مخالفت یا ویٹو کی وجہ سے اسے مؤثر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے پاس چونکہ سلامتی کونسل کے ذریعے روس کو جارح قرار دینے کا آپشن موجود نہیں ہے ، اس لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے ۔ جنرل اسمبلی کا یہ ہنگامی اجلاس اس سے قبل صرف دس بار طلب کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس خصوصی حالات میں ایسے موقع پر طلب کیا جاسکتا ہے جب سلامتی کونسل کسی تنازعہ کو ختم کرانے میں ناکام ہوجائے۔ اگرچہ دو سو ارکان سے زیادہ پر مشتمل اس عالمی فورم کے پاس کسی جنگ کو بند کروانے یا اپنی کسی قرار داد کو نافذ کروانے کا کوئی اختیار نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر دنیا کے ممالک کی بہت بڑی اکثریت سخت الفاظ میں روسی کارروائی کی مذمت کرے گی تو اس سے روس پر سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک ہر سطح پر روس کو تنہا کرنے کی حکمت عملی پر کام کررہے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستان نے اس تنازعہ میں ’غیر جانبدار‘ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوموار سے یوکرائن پر روسی حملہ پر ہونے والی بحث میں بھی پاکستان نے شرکت سے معذوری ظاہر کی ہے۔ حالانکہ چین اور بھارت سلامتی کوسنل کی رائے شماری میں حصہ نہ لینے کے باوجود جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں اور اس تنازعہ پر کسی فریق کا ساتھ دینے کی بجائے خود مختارانہ رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان نے البتہ یہ راستہ بھی اختیار کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کیا ہے۔ تاکہ اسے کسی بھی طرح روس کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہنا پڑے جو ماسکو کی ناراضی کا سبب بن جائے ۔
یہ حکمت عملی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ماسکو کے دوران بھی اختیار کی گئی تھی حالانکہ صدر ولادیمیر پوتن نے 24 فروری کو جب اچانک یوکرائن پر حملہ کا اعلان کیا تھا تو پاکستانی وزیر اعظم سرکاری دورے پر ماسکو میں موجود تھے اور اسی روز سہ پہر میں صدر پوتن سے ان کی ملاقات متوقع تھی۔ یہ ملاقات ابتدائی طور پر ایک گھنٹہ کے لئے طے کی گئی تھی لیکن حملہ سے پیدا ہونے والی سنگین سفارتی و سیکورٹی صورت حال کے باوجود ملاقات سے تھوڑی دیر پہلے ہی اطلاع دی گئی کہ ملاقات اب تین گھنٹے طویل ہوگی۔ پاکستانی وفد نے اس پر حیرت یا تحفظات کا اظہار کرنے اور ملاقات کو شیڈول وقت کے اندر ختم کرنے پر اصرار کرنے کی بجائے ، روس کی اس پیشکش کو اپنی کامیابی سے تعبیر کیا۔ حالانکہ ایک پر امن اور کمزور ہمسایہ ملک پر حملہ کے دوران ماسکو میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی اور ولادیمیر پوتن سے ملاقات کے حوالے سے متعدد سوالات کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع اس کی یہ وضاحت کرتے رہے ہیں کہ یہ دورہ بہت مدت پہلے شیڈول کیا گیا تھا ، اس لئے اسے منسوخ کرنا یا دورے کے وسط میں ختم کرے واپس آنا وسیع تر قومی مفاد کے برعکس ہوتا۔ عمران خان نے گزشتہ روز قوم سے خطاب میں بھی یہی مؤقف اختیار کیاہے کہ وہ کسی جنگ کا حصہ بننے نہیں بلکہ روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر بات چیت کرنے کے لئے ماسکو گئے تھے کیوں کہ روس سے پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے منصوبہ پر کام کرنا چاہتا ہے۔
روس کے ساتھ نرم سفارتی طرز عمل کی ایک وجہ تو پاکستان کی انرجی ضروریات ہیں۔ اس کے علاوہ علاقائی تعاون کو فروخت دے کر ملک میں اقتصادی احیا کا خواب پورا کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستانی قیادت یہ بنیادی نکتہ سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرتی ہے کہ علاقائی تجارتی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے بھارت جیسے بڑے اور بااثر ہمسایہ ملک سے تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ حالت جنگ قائم رکھ کر علاقائی تعاون کے کسی منصوبہ کو پاکستان کی معاشی بحالی کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ بدنصیبی سے پاکستانی خارجہ اور سیکورٹی پالیسی کا بنیادی نکتہ بھارت سے تصادم کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے بھی انتہا پسندانہ مذہبی ایجنڈے اور پاپولسٹ سیاست کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تصادم ختم کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی لیکن حالیہ برسوں میں پاکستان کی طرف سے زیادہ سخت رویہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک طرف تسلسل سے یہ کہا جارہاہے کہ پاکستان جیو پالیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس پالیسی اختیار کررہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی بھارت سے دشمنی کو گہرا کرنے کی کسی کوشش سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ خارجہ پالیسی کا یہ تضاد پاکستان کے لئے کسی دوررس فائدہ کا سبب نہیں بنے گا۔
یوکرائن تنازعہ میں روس کی مذمت کرنے سے پاکستان کے گریز میں بھارت کا فیکٹر نہایت اہم ہے۔ اسی لئے پاکستان ، یوکرائن کی اخلاقی و سفارتی حمایت سے بھی دامن بچا رہا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور تمام مسلمہ ضابطوں کے مطابق روس نے جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ روس اس معاملہ میں حملہ آور ہے جبکہ یوکرائن اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہے۔ یورپ میں شروع ہونے والے اس مسلح تصادم کی وجہ سے اس بر اعظم کے باقی ماندہ ممالک بھی طویل اور مشکل جنگ سے پیدا ہونے والے اثرات سے ہراساں ہیں۔ متعدد ممالک کو یوکرائن کے خلاف روسی کارروائی کے بعد یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ روس ایسی ہی کارروائی ان میں سے کسی ملک کے خلاف بھی کرسکتا ہے۔ تاہم اسلام آباد کا خیال ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو نظر انداز کرکے جس طرح بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھائی ہیں، پاکستان ، چین کے بعد روس سے رجوع کرکے اپنی پوزیشن مضبوط کرسکتا ہے۔ تاہم یہ قیاس آرائی بعض غلط اندازوں پر استوار ہے اور معروضی حالات کی مکمل تصویر کو سامنے رکھ کر نہیں بنائی گئی۔
فی الوقت بھارت نے یوکرائن تنازعہ پر امریکہ کے دباؤ کے باوجود روس کے خلاف مؤقف اختیار نہیں کیا۔ بھارت اپنے اسلحہ کی زیادہ ضرورت اب بھی روسی درآمدات سے پوری کرتا ہے بلکہ حال ہی میں امریکی مخالفت کے باوجود روسی میزائل سسٹم کی خریداری کا معاہدہ کرکے روس کے ساتھ قربت کا ایک نیا سنگ میل عبور کیا گیا ہے۔ اس صورت حال میں ابھی ایسے حالات نہیں ہیں کہ روس ، پاکستان کے ساتھ مراسم استوار کرنے میں بھارت مخالف حکمت عملی اختیار کرے گا۔ اسی طرح اگر یہ دلیل اہم ہے کہ روس علاقائی مواصلت و تجارت کے حوالے سے پاکستان کا فطری حلیف اور بڑی طاقت ہے ، اس لئے اس سے براہ راست مخالفت مول لینا پاکستانی مفاد میں نہیں ہوگا تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی برآمدات کا بڑا حصہ یورپی یونین اور امریکہ کو بھیجا جاتا ہے۔ یوکرائن کے مسئلہ پر امریکہ و مغربی یورپ اور روس کے درمیان اگر گروہ بندی شدید ہوتی ہے تو پاکستان کو اپنے فوری تجارتی مفادات کے لئے امریکی بلاک کے ساتھ مراسم استوار رکھنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان اس وقت بیرون ملک پاکستانی تارکین وطن کی ترسیلات پر انحصار کررہا ہے۔ یہ تارکین وطن زیادہ تر امریکہ، یورپ یا اس کے زیر اثر ممالک میں ہی مقیم ہیں۔
تاہم یوکرائن پر روسی حملہ کا سب سے بنیادی اور اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حملہ تمام بین الاقوامی ضابطوں اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔ روس اس جارحیت کو اپنی سلامتی سے منسلک کرکے ایک کمزور ملک کی آزادی و خود مختاری ختم کرنے کے درپے ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکہ نے بھی ماضی قریب میں متعدد بار ایسی جارحیت کا مظاہرہ کیا لیکن امریکی غلطیوں کو نمایاں کرکے روس کی انسان دشمن قانون شکنی کے لئے دلیل فراہم نہیں کی جاسکتی۔ جارحیت جس طرف سے بھی ہو اور جہاں پر بھی اس کا مظاہرہ کیا جائے ، اسے مسترد کرنا بین الاقوامی امن اور وسیع تر انسانی بہبود کے لئے ضروری ہے۔ پاکستان ، امریکہ کی غلطیوں کا حوالہ دے کر ایک کھلم کھلا جارحیت کا ساتھ نہیں دے سکتا اور نہ ہی غیر جانبداری کے نام پر ایک خطرناک جبگ کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ غیر جانبداری کا مقصد کسی عالمی بلاک کا حصہ بننے سے گریز ہوسکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اصولوں کی بنیاد پر عوامی بہبود اور انسانوں کی حفاظت کے لئے ہمہ قسم جارحیت اور جنگ کو مسترد کرنا بے حد ضروری ہے۔
اس مخمصے میں پاکستان بین الاقومی مراسم کے ایک بنیادی اصول کو نظر انداز کررہا ہے۔ پاکستان چونکہ خود بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور افغانستان کی طرف سے بھی اس کے خدشات دور نہیں ہوئے ، اس لئے اسے ہر قیمت پر ہمسایہ ملک کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کے اصول کا ساتھ دینا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ