ہماری ثقافت میں میلے موسموں سے منسوب ہیں اس لیے ملتان کی منہ زور گرمی جب ذرا سا منہ موڑ لیتی ہے تو ہم اہلیانِ ملتان گذشتہ تین برسوں سے ایک میلہ سجانے میں جُت جاتے ہیں ۔۔اس سال ہم 13 اور 14 نومبر بروز ہفتہ اور اتوار ملتان لٹریری فیسٹیول ملتان آرٹس کونسل کے عظیم الشان آڈیٹوریم میں پھر سے سجانے کے لیے نہ صرف پُر عزم ہیں بلکہ سال گذشتہ (کہ جس میں کووڈ ہمارے سروں پر سایہ فگن تھا) کی نسبت بہت زیادہ پُر اعتماد بھی ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ لوگ کہ جن کو ایک ادبی میلے کی آڈینس ہونا چاہیے انہوں نے ویکسین تو لگوا ہی لی ہوگی، اور اگر کوئی ایسا بھی ہے کہ جس کو ویکسین لگنے کے بعد بازو پر مقناطیس چپک رہا ہو یا کوئی اپنے ویکسنیٹڈ بازو سے بلب جلا کر دکھا سکتا ہو تو اسکے لیے سٹیج پر اس پرفارمنس کے لیے پورے دس منٹ اور حوصلہ افزائی کے انعام کا وعدہ میں آج کیے لیتا ہوں۔۔ اور اس سب پر آخری بات یہ کہ اگر آپ نے ویکسینیشن کرا لی ہے تو بعض جہالت زدہ اصحاب کے بقول دو سال بعد تو آپ نے رہنا نہیں لہٰذا چار اچھی باتیں سُن کر ہی دنیا سے جائیں۔۔
اس سال ہم نے ادبی میلے کا ایک تھیم منتخب کیا ہے
”ہم، ثقافت اور ہمارا وقت“
ہم سے مراد ہر وہ شخص یا گروہ ہے کہ جو سوچنے اور سمجھنے کو تیار ہے، ثقافت وہ ہے کہ جو ہم ترک کر چکے اور وقت وہ ہے کہ جو ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے… آئیے اس پر ذرا تفصیل سے بات کرتے ہیں۔۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں کہ جس میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ مکالمہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے میرے نز دیک اس میں جہاں ایک طرف وقت کا جبر ہے وہیں دوسری طرف ہماری ترجیحات بھی ہیں جو لوگ ماضی کے غلام ہوں، حال سے بے خبر ہوں اور مستقبل سے یا تو خوفزدہ ہوں یا مستقبل کے بارے میں خوفناک خوش فہمی کا شکار ہوں انکے یہاں مکالمہ پروان نہیں چڑھ پاتا جس خطے کے لوگوں کا تمام تر پستی کے باوجود خبط عظمت ختم نہ ہوتا ہو تو وہ مکالمہ کی اہمیت سے کبھی واقف نہیں ہو پاتے، ثقافت لطیف شے ہے غالب نے کہا تھا
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینہ بادِ بہاری کا
جہاں تک مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہر لطیف شے بہت ساری کثیف چیزوں کا مرکب ہوتی ہے اسی طرح کسی خطے کی ثقافت بنانے کے لیے کچھ غیر تکمیل شدہ حسرتیں، کچھ مکمل ادھوری کہانیاں، کچھ غم انگیز لطیفے، کچھ قہقہے مار کر ہنسنے والے غم، کسی مصلوبِ وقت کی یاد میں ناچتے لوگ، ایک بھوک سے پیٹ بھر کر سویا ہوا گروہ، ایک قبر سے آتی کسی لوک گیت کی آواز، ایک معذور شاعر کہ جو اپنے معذ ور بازوؤں سے معاشرے کو جھنجھوڑتا رہا، ایک مٹی گوندھ کر ثقافت محفوظ کرتا کمہار، ایک صحافی کہ جس کی انگلیاں اسکے اپنے خون سے کسی کا نوحہ لکھتے لکھتے گل گئیں، ایک شعبدہ باز کہ جس کو معاشرے کو اس لیے ہنسانا پڑا کہ اسکے بچے بھوکے تھے، اور نا جانے کیا کیا۔۔ دیکھیے کہ کیسی خوبصورت چیز ہے کہ جس کو ہم ثقافت کہتے ہیں۔۔
وقت کیا ہے؟؟ یہ ایک سوال ہے کہ جس کا جواب ہمیں وہ دیں گے کہ جو اس میلے کا سب سے اہم حصہ ہوں گے یعنی کہ آپ کیونکہ میرے لیے تو وقت سے بڑا فراڈیا، نوسر باز اور نوٹنکی کوئی نہیں جس کو یقین نہیں آتا وہ مارچ 2020 اور اپریل 2020 کا فرق یاد کرے جس کو یقین نہیں آتا وہ 9/11 اور 9/10 کا فرق سمجھنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی پاکستانی ہے تو وہ 25 جولائی سے پہلے کے پرانے اور 26 جولائی 2018 کے نئے پاکستان پر غور کرے تو یقیناً اسکی تشفی ہو جائے گی۔۔
اگر اس سب کو ملا کر دیکھا جائے تو ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج کی دنیا میں جہاں ہزاروں ثقافتیں موجود ہیں وہیں ایک شے ہے کہ جس کو ماہرین معاشیات گلوبل کلچر کہہ رہے ہیں مثلاً جتنی بھی سوشل میڈیا ایپلیکیشنز ہیں وہ ایک کلچر کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں فیس بک، ٹوئٹر، یوٹیوب ،ٹِک ٹاک ایک گلوبل کلچر کے بننے والی نئی شکلیں ہیں کہ جہاں ایک اور طرح کے مکالمے کی فضا بن رہی ہے نئے رجحانات نئے امکانات بھی پیدا کر رہے ہیں اور خدشات بھی لیکن یہ کیا کہ دنیا پھر بھی تقسیم در تقسیم در تقسیم ہوئے جارہی ہے؟؟ ہم نے اپنے سن 2019 کے ادبی میلے کا موضوع بھی یہی رکھا تھا کہ
"ہمارا مکالمہ نتیجہ خیز کیوں نہیں ہوتا”
آج کہ جہاں انفارمیشن اور ڈیٹا کا ایک طوفان ہے کہ جو ہر وقت سکرینوں پر موجزن رہتا ہے لوگوں کے علم میں اضافے کا باعث کیوں نہیں بن پاتا؟؟ ہر وقت ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی بھی انسانوں کو ایک دوسرے کی دلجوئی پر مجبور کیوں نہیں کرتی؟؟ چوبیس گھنٹے نیوز رپورٹ کرتے ٹی وی اور سوشل میڈیا چینل بھی کیوں معاشرے کو بہتر نہیں بنا پا رہے؟؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ کافی نہیں اس کا مطلب ہے کہ کچھ اور ہے جو درکار ہے؟؟
"وہ ثقافت ہے” کیونکہ سائنس کی دنیا جس کلچر کو پروموٹ کر رہی ہے وہ سرمایہ کار کے ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے اور سرمایہ کار کا کُل مقصد بے یقینی کی صورتحال یعنی "کیوس” کو برقرار رکھنا ہے سوشل میڈیا پر ہر صارف کے مطلب کی بات اسکو وافر مقدار میں سنا کر اسکے ہم خیال لوگوں کا اسکے ارد گرد ہالہ بنا کر اسکو یہ بتایا جاتا ہے کہ جو تمہارا نظریہ ہے وہ ہی واحد سچ ہے اور تم سے متصادم نظریہ رکھنے والے کو زندہ اس لیے نہیں رہنا چاہیے کیونکہ وہ تمہارے عظیم نظریہ کے اطلاق میں رکاوٹ بن رہا ہے، اس لیے ہر صارف صرف وہی دیکھتا ہے کہ جو اس کو بھاتا ہو اس طرح معاشرہ گروہوں میں تقسیم ہوتا ہے، اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ آپس میں دست بہ گریبان ہو جاتے ہیں۔۔ اگر آپ کسی ایک سیاسی یا نظریاتی گروہ کی حمایت کرتے ہیں تو آپکو مین سٹریم اور سوشل میڈیا میں ایسے ہزاروں مواقع مل جائیں گے کہ جو آپکے من پسند خیالات کے حق میں ہر روز سیکڑوں پوسٹس کرتے ہوں گے اپنی من پسند بات کی موجودگی میں کون وہ بات سنے جو اسکو پسند نہیں اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں سے عدم برداشت جنم لیتی ہے ….
جبکہ یہ معاملہ ثقافت میں ایسے نہیں ہے ثقافتی گروہ سماج کے رہنے والوں کا سہولت کار ہوتا ہے، ہم میں سے کئی ہیں کہ جنہوں نے ایک سڑک کے کنارے پھٹا لگائے قصاب سے گوشت خریدا ہے مجھے اس پھٹے کے گرد کھڑا ہجوم ایک ثقافتی گروہ معلوم ہوتا ہے کہ جو ساتھ کھڑے سے نہ اسکا مذہب پوچھتا ہے نہ اس قصائی سے اسکی ذات اور زبان جب کہ دوسری جانب وہ قصاب ہے کہ جو گوشت بناتے بناتے لطیفے اور چٹکلے اس لیے سناتا رہتا ہے کہ گاہک کھڑے کھڑے بور ہی نہ ہو جائیں، جب کہ ایک پڑھنے لکھنے سے نا بلد ہجام اس لیے اپنی دوکان میں اخبار لگواتا ہے کہ لوگوں کے پاس کرنے کو انتظار کے علاوہ بھی کچھ رہے، جب ایک محلے کے کسی گھر میں کچھ اچھا پک جائے تو ایک ایک پلیٹ سب کے گھر بھیج دی جائے، پیدال جاتے ہوئے نہ معلوم کو بھی یہ سوچ کر بائیک پر بٹھا لیا جائے کہ گرمی بہت ہے، ثقافت تہذیب کی لونڈی ہے، ثقافت تمدن کی داشتہ ہے، ثقافت انسانیت کی محبوبہ ہے، ثقافت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں مظلوم پر بین کرتی ہے اور ظلم کے خلاف تلور چلاتی ہے، ثقافت آدمی سے انسان بننے کے سفر کا نام ہے۔۔
میں، میرے محسنین، میرے اساتذہ، میرے بڑے بھائی، میرے دوست اور میرا ثقافت سے بھرپور خطہ پاکستان میں موجود تمام ثقیف اہل دانش کو دعوت دیتا ہے کہ آپ 13 اور 14 نومبر کو ملتان میں ہونے والے MLF (ملتان لٹریری فیسٹیول ) میں ضرور شرکت فرمائیں ہم آپکو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپکو اپنی خوبصورتی کی ایک جھلک ضرور دکھا پائیں گے کیونکہ ہم نے ثقافت جیسی لطیف شے کا دامن تھاما ہے یہ ثقافت ہی ہے کہ جو آنے والے زمانوں کے انسانوں کو ہمارا نشان بتائے گی کہ ہم ثقافت کے غلام تھے ، کثافت کے یا طاقت کے ؟
فیس بک کمینٹ