میرے ساتھی اور چند ایک زائرین حجرے میں اترتی تاریک سیڑھیوں پر آ جا رہے تھے اور مَیں منتظر تھا، یہ ہجومِ عاشقاں کم ہو لے تو مَیں وارث شاہ کے جہان میں اتروں، اُس سے تنہائی میں ملاقات کروں، اُس سے اپنے کچھ دکھڑے کہوں کہ ہماری ہیریں تو کھیڑے اُٹھا لے گئے اگرچہ وہ دہائی دیتی رہیں کہ مَیں نئیں جاناں کھیڑیاں دے نال۔۔۔ وہ اُنہیں لے گئے تو تمہارے ساتھ کیا بِیتی، تمہیں تو امریتا پریتم نے "دردمنداں دیا دردیا” کہا تھا، تمہاری بھاگ بھری کون لے گیا، تُم نے تو قصہ ہیر رانجھا لکھ کر اپنے دل کی آگ بجھا لی، ہم بے چارے، درد کے مارے، کیا کریں، ہم تو لکھ بھی نہیں سکتے۔۔ اگر لکھیں تو معاشرہ ہمیں دار پر چڑھا دے۔۔ شکر کر کہ تُو ہمارے زمانوں میں نہیں ورنہ کب کا گلیوں میں گھسیٹا جا چکا ہوتا، جلا دیا جاتا، پھانسی چڑھا دیا جاتا، شکر کر۔۔ لیکن ہم کیا کریں، کس سے فریاد کریں، کس سے دُکھ کہیں۔۔
تجھ پر کیا گزرتی اگر تیری بھاگ بھری کو کلہاڑے لہراتے کھرل ہانس اٹھا کر لے جاتے۔۔
وارث شاہ کے حجرے کی تنگ سیڑھیوں پر اپنے گناہوں کے بوجھل بڑھاپے کو سہارتا اترا تو تنہا اترا۔۔
ایک مختصر سی کوٹھڑی جس میں کوئی روزن نہ کھلتا تھا۔۔ دم گھٹتا تھا۔۔ جیسے کوئی زیرِ زمین زنداں ہو۔۔ فرش پر ایک مصلیٰ بچھا تھا اور درودیوار ماشاءاللہ ٹائلوں سے آراستہ۔۔ نہ گئے زمانوں کی کوئی مہک۔۔ نہ پکار۔۔ نہ ہیر کی فریادوں کی کوئی گونج اور نہ ہی رانجھے کی بانسری کی کوئی دُھن۔۔ ایک دل آزار سی کوٹھڑی۔۔
البتہ میرا بجھا ہوا دل ذرا سا روشن تب ہوا جب مَیں نے خوبصورت خطاطی میں واضح ہوتا دیوار پر تصویر ہوتا یہ شعر پڑھا:
گوشے بیٹھ کے ہیر کتاب لکھی، یاراں واسطے نال قیاس دے مَیں
پڑھن گھبرو دیس وچ خوش ہو کے، پُھل بیجیا واسطے باس دے مَیں
تو گوشہ تو یہی تھا جہاں وارث شاہ نے ہیر کتاب ہم جیسے یاروں کے واسطے لکھی۔۔ اور اُس نے جو پُھول یہاں کاشت خوشبو کے لیے کیا تو اُس کی باس سے ایک دنیا مہکی۔۔
اور یہاں وارث شاہ کا، نقش فریادی ہے کس کی شوخیْ تحریر کا۔۔ یعنی اُس کے دیوان کا پہلا شعر بھی روح میں اترتا ہے۔۔
اول حمد خدا دا ورد کیجیے، عشق کیتا سو جگ دا مُول میاں
پہلوں آپ اس رب نے عشق کیتا، معشوق ہے نبی رسول میاں
شاہ لطیف بھٹائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شاہ کا رسالہ نہ ہوتا، اُن کا کلام نہ ہوتا تو سندھ نہ ہوتا۔۔ تو اسی طور اگر وارث شاہ کا قصہ ہیر رانجھا نہ ہوتا تو پنجاب بھی نہ ہوتا اور اگر ہوتا تو اُس میں نہ عشق آتش ہوتی، نہ اس کے جنگل بیلوں میں بانسری کی میٹھی تانیں گونجتیں، نہ کوئی رادھا ناچتی، نہ ہی کوئی ہیر ایک مست ہاتھی کی مانند جنگل بیلے میں اِٹھلاتی پھرتی اور نہ ہی پنجاب کے قدیم رواج، میلے ٹھیلے، زیورات، ڈھور ڈنگر، ملبوسات، جاٹوں کی تہذیب اور اُن کی اَنکھ یا عزتِ نفس کی ہٹ دھرمی، اس کی جڑی بوٹیاں اور خوراکیں اور نہ ہی اس کے دریا اور نہ ہی اس پنجاب کے اندر عاشقی اور تصوف کا جو دل دھڑکتا ہے، اُس کی دھڑکن ہمیشہ کے لیے زمانوں کی تختی پر محفوظ ہو جاتی۔۔ اور نہ ہی پنجاب کے خمیر میں جو مذہبی رواداری گندھی ہوئی تھی، کہ رانجھا، ہیر کے عشق میں ناکام ہو کر ٹلہ جوگیاں کے گورو گورکھ ناتھ کا چیلا ہو کر ایک کن پھٹا جوگی ہو جاتا ہے، ہاتھوں میں کشکول تھام کر ہیر کے دوارے جا کھڑا ہوتا ہے اور ہیر، جس نے اپنے شرعی خاوند کو تو شبِ عروسی پاس نہ آنے دیا اور جب رانجھا جوگی بن کر چلا آیا تو اس جوگی کو اپنے در پر دیکھ کر کہتی ہے کہ۔۔
نِیں مَیں جاناں جوگی دے نال۔۔
کَنیں مُندراں پا کے، متھے تلک لگا کے۔۔
مَیں جاناں جوگی دے نال۔۔
جوگی میرے نال نال، مَیں جوگی دے نال۔۔
جن دنوں ماڈل ٹاوْن پارک میں ملکہ ہانس کے سفر کے منصوبے بنتے تھے تو تنویر خواجہ کہتا "تارڑ صاحب، آخر آپ ملکہ ہانس جا کر وارث شاہ کے حجرے میں بیٹھ کر کریں گے کیا، اُس کے شعر پڑھیں گے، عبادت کریں گے کہ وہ ایک امامِ مسجد کا حجرہ ہے۔۔ کیا کریں گے؟”
اور مَیں حسبِ خصلت یونہی بے پر کی اڑاتا۔۔ اپنے دوستوں کو ایک صدمے سے دوچار کرنے کے لیے کہتا۔۔ مَیں حکیم خیام کی مانند وارث شاہ کے حجرے میں بیٹھ کر مئے لالہ فام کے چند جرعے پیوں گا، اپنے آپ کو اُن زمانوں میں لے جاوْں گا جب پیر وارث شاہ ہیر لکھ رہے تھے، مَیں اِک دن خمار میں رہوں گا۔۔
تب تنویر خواجہ قدرے تشویش ناک ہو کر کہتا "یہ مئے ارغوانی کہاں سے آئے گی؟” تو مَیں کہتا "یہ ملک سرفراز گوجر کب کام آئے گا۔۔ یہ اپنے ساتھ گھنی بالائی سے لبریز لسّی کی ایک چاٹی لے آئے گا، وہی مئے ارغوانی ہو جائے گی۔۔ یوں بھی لاہوری لسّی کو سفید بیئر کا نام دیا گیا ہے۔”
بہرطور بہت خواب تھے۔۔
اِس کوٹھری نما حجرے میں پہنچے تو سب سراب ہوئے۔۔
مَیں اگر صاحبِ اختیار ہوتا، اگرچہ کیوں ہوتا تو مَیں نیشنل کالج اوف آرٹس کے چند ذہین طلباء سے درخواست کرتا کہ آپ میں جو قدیم فنِ تعمیر کے ماہر ہیں، پرانی ثقافتوں کی منی ایچر تصویروں کے نقش گر ہیں، جانتے ہیں کہ وارث شاہ کے زمانوں میں اُس حجرے کی شکل اور سجاوٹ کیسی ہو گی، آپ آئیں اور محض دو چار لاکھ کے خرچے سے اُسے دوبارہ تخلیق کر دیں۔۔ درودیوار چھوٹی نانک شاہی اینٹوں سے تعمیر کردہ، فرش سرخ رنگت کی اینٹوں کا، دیواروں کی محرابوں میں سرسوں کے تیل سے جلتے مٹی کے دیئے۔۔ اور اس حجرے کی ایک محراب میں کھلی "ہیر وارث شاہ” کا کوئی قدیم نسخہ۔۔ اور کچھ حرج نہیں اگر اُس حجرے میں پوشیدہ وارث شاہ کے اشعار کی قرات ہلکے سُروں میں سنائی دے رہی ہو۔۔ بلکہ اس میں بھی چنداں مضائقہ نہیں کہ وہاں نورجہاں کی آواز بھی اپنے ونجلی والے کو پکارتی ہو۔۔ سُن ونجلی دی مٹھڑی تان وے، مَیں تاں ہو ہو گئی قربان وے۔۔ اور شاید اُس حجرے میں سے ایک روشندان آشکار ہوتا ہے اور اُس کے چوکھٹے میں بھاگ بھری کی تصویر جڑی ہو، چنداں حرج نہیں۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے۔۔
ویسے آنسو اُنہی کی آنکھوں میں آتے ہیں جو اپنی سرزمین سے جُڑے ہوتے ہیں، اپنی مٹی کے بیٹے ہوتے ہیں۔
یہ آج سویر کا قصہ ہے جب مَیں ماڈل ٹاوْن پارک میں سیر کر رہا تھا تو ایک تنومند باریش نوجوان جوگنگ کرتا میرے قریب آ گیا، میرے ساتھ ایک "سیلفی” اتروائی تو مَیں نے یونہی پوچھا کہ بیٹے کہ ان دنوں میرے حواس پر ملکہ ہانس راج کرتا تھا، کیا تُم ہیر وارث شاہ سے آگاہ ہو۔۔
باریش نوجوان اور وہ بہت معصوم شکل کا تھا، کہنے لگا، سر نہیں۔۔
کیا آپ وارث شاہ کو جانتے ہو؟
نہیں سر۔۔ وہ کون تھا۔۔
یہ آج سویر کا قصہ ہے۔۔
چنانچہ آنسو اُنہی کی آنکھوں میں آتے ہیں جو اپنی مٹی کے بیٹے ہوتے ہیں، ہر کسی کی آنکھ میں نہیں آتے۔۔
ہمارے پنجاب میں ہم لوگ کسی حد تک اپنے لوک رومانوں کی ہیروئنوں کو ناپسند کرتے ہیں۔۔ کہ ہماری اقدار کے حوالے سے یہ بے راہرو دوشیزائیں تھیں اسی لیے یہاں کسی لڑکی کا نام ہیر یا سوہنی یا صاحباں نہیں رکھا جاتا اگرچہ کیسے مدھ بھرے نام ہیں۔۔ جبکہ سندھ میں اُن کے رومانوی داستانوں کی دوشیزائیں قابلِ احترام اور اُن کے دل کے قریب ہیں۔۔ وہاں سسّی ماروی یہاں تک کہ سوہنی نام بھی لڑکیوں کے لیے بے حد پسندیدہ ہیں۔
فیس بک کمینٹ