تبدیلی کا لفظ بھی عجیب ہے، کہیں سرشاری دیتا ہے اور کہیں اداس کر دیتا ہے۔کسی کا جب تبدیلی آرڈر آ جائے تو اسے یہ لفظ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے اور کسی کی زندگی میں اچھی تبدیلی آ جائے تو اس لفظ سے پیار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ لفظ سیاسی ایجنڈے اور سیاسی منشور کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔عمران خان تو اپنے جلسوں میں کہتے تھے، تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے۔ تاہم اِس سارے عمل میں ناصر کاظمی کا یہ شعر ہر دور کا حال بیان کرتا رہا۔
وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے
پون صدی سے زائد عرصہ گذر گیا، تبدیلی نہیں آئی۔ بس قیام پاکستان کے وقت اتنی تبدیلی آئی تھی کہ ہم خاک و خون کا دریا پار کر کے زمین سے دوسری زمین پر آ گئے تھے۔ وہ پاکستان جس کے خواب سجائے لٹے پٹے قافلوں میں یہاں پہنچے تھے اُس کی منزل نجانے کہاں کھو گئی،جس صبح کی طرف ناصر کاظمی نے اشارہ کیا ہے وہ ایک صبح روشن تھی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ایک ایسی صبح جو آزادی، خوشحالی، انصاف اور امن لے کر آئے گی، مگر پھر سب نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں وہ صبح آتے آتے کہیں رُگ گئی ہے یا کھو گئی ہے۔77برسوں سے اپنی کھوئی ہوئی منزل کی تلاش میں سرگرداں یہ قوم ہر اس آواز پر چونک پڑتی ہے جو تبدیلی کا ذکر لئے ہوتی ہے،یعنی اس جمود سے ہم اتنا تنگ آ چکے ہیں کہ جس طرح حبس میں لو کی دُعا مانگتے ہیں اسی طرح ہم تبدیلی مانگتے ہیں۔
کل میں ملتان کی ایک قدیمی لائبریری گیا تو میں نے پرانے اخبارات کی جلدیں دیکھنے کی خواہش کی۔مجھے اس سیکشن کی طرف رسائی دی گئی، میں ساٹھ سال، پچاس سال، چالیس سال، تیس سال، عرض کئی دہائیاں آگے پیچھے کر کے اخبارات کی خبریں دیکھتا رہا۔ مجال ہے اُن میں ایک فرق بھی نظر آیا ہو۔کوئی مسئلہ بھی حل ہو کر ماضی کا حصہ بنا ہو، کسی ایک بات سے بھی ہم نے سبق سیکھا ہو وہ چنگیزی حیلے اور وہی خلقت کے فسانے، زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد، نہ تم بدلے نہ ہم بدلے۔ جس ملک میں یکسانیت کا یہ عالم ہو کہ پچاس سال کے عرصے میں چار مارشل لاء لگ چکے ہوں،اس ملک میں کسی تبدیلی کی بات کی خو اہش کیسے کی جا سکتی ہے۔آج کے حالات دیکھ لیں یا چار دہائیاں پہلے کے،وہی یورش، وہی بدامنی، وہی سیاسی بے چینی، وہی اقتدار کی کشمکش اپنا قبضہ جمائے نظر آئے گی۔یہ آخر کس آسیب کا سایہ ہے ہم آگے کیوں نہیں بڑھتے،واقعات کو چیونگم کی طرح چباتے کیوں ہیں اُگل کر قصہئ پارینہ کیوں نہیں بنا دیتے، قو میں آگے بڑھتی ہیں،ہمارے ساتھ بلکہ بعد میں آزاد ہونے والی قومیں بھی خوشحالی و استحکام کی دوڑ میں ہم سے بہت آگے نکل گئی ہیں، ہم ہی کیوں کولہو کے بیل بنے ہوئے ہیں،ایک ہی دائرے میں گھومتے جا رہے ہیں۔
اب فرمایا ہے وزیراعظم شہباز شریف نے کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے مستقل تبدیلی لانا ہو گی،چلو بات کچھ تو آگے بڑھی ہے۔پہلے کہا جاتا تھا تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اب کہا جا رہا ہے،مستقل تبدیلی لانے کی ضرورت ہے بھئی یہی کہ تبدیلی مستقل ہونی چاہئے۔ عارضی اور ایڈہاک تبدیلیاں ہم بہت دیکھ چکے ہیں وہ بہتری کی بجائے مزید ابتری کی طرف لے جاتی ہیں، تبدیلی آنی چاہئے،مستقل آنی چاہئے اور اس تبدیلی کے نتیجے میں ملک پر مسلط وہ استحصالی اورکرپٹ نظام لپیٹ دیا جانا چاہئے جو ہمارے لئے تار عنبکوت بنا ہوا ہے، جو آگے نہیں بڑھنے دے رہا۔آگے بڑھنے کی تو خیر بات ہی دوسری ہے وہ ہمیں کھینچ کر مزید پیچھے لے جاتا ہے۔باقی مسائل تو آپ چھوڑیں یہ معیشت کا مسئلہ ہی دیکھ لیں۔ اس میں تبدیلی بس اتنی آئی ہے کہ غربت مزید بڑھ جاتی ہے۔کل ہی یہ اعداد و شمار سامنے آئے کہ دو کروڑ مزید افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ترقیئ معکوس کا سامنا تھا پاکستان میں رہ کر اُس کی عملی شکل بھی دیکھی جا سکتی ہے۔پون صدی بعد بھی ہم پر یہی تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ آئی ایم ایف آئے گا، اگلی قسط دینے سے پہلے ہماری آزادی و خود مختاری کی ایسی تیسی کر کے چلا جائے گا۔ایک زمانہ تھا ہم دوسرے ممالک کو قرضے دیتے تھے،ہمارا بجٹ سر پلس ہوتا تھا، خوشحالی ہمارے گھروں تک دستک دینے پہنچ گئی تھی،ہمارا شمار خطے کے خوشحال ممالک میں ہونے لگا تھا، آج ہمیں و اقعی ایشین ٹائیگر ہونا چاہئے تھا،مگر ہم ٹائیگر سے قرض مانگنے والے سوالی بن گئے۔ ارے بھائی یہ تبدیلی تو نہیں مانگی تھی،اس تبدیلی کے خواب تو نہیں دیکھے تھے۔ کبھی کبھی تو پاکستان کے حالات دیکھ کر ذہن میں یہ سوال کچوکے لگاتا ہے کیا پوری دنیا پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ صرف 23 سال بعد اپنے ملک کا آدھا حصہ گنوانے والے اس وطن کو سنبھالنے کی بجائے ہم نے مزید کمزور کیوں کیا،اس کے ذمہ دار کون ہیں؟اِس کا بھی آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔اب بلوچستان میں آگ لگی ہوئی ہے۔کہیں طاقت کے بے دریغ استعمال اور ہارڈ اسٹیٹ کے نظریے پر عمل کرنے کی آراء سامنے آ رہی ہیں اور کہیں کہا جا رہا ہے مذاکرات کا راستہ کھولیں، مسئلے کا پُرامن حل نکالیں،بلوچستان بذاتِ خود اِس بات کی گواہی ہے کہ ہم نے کہیں بھی تبدیلی کی بنیاد نہیں رکھی،یا رکھ نہیں سکے۔ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت کئے پچاس سال گذر گئے،لیکن بلوچستان کے مسئلے کا پائیدار حل نہیں ڈھونڈا جا سکا، وہی آتش و آہن،وہی بارود کی بو،وہی لاشیں، وہی آزادی کے جھوٹے نعرے۔ دنیا میں ایسے حالات پر قابو نہیں پایا گیا۔کیا یہ ہمارے لئے کوئی انوکھی صورتحال اُبھری ہے، کیا سری لنکا آج ایسی صورتحال پر قابو پا کر پُرامن ملک نہیں بن گیا،جس کی سیاحت سے آمدنی کئی ممالک کی معیشت کے برابر ہے، ارے بھائی تبدیلی تو لانا پڑے گی، تبدیلی لاتے کیوں نہیں۔
صورتحال گمبھیر ہو جائے تو رات گہری ہو چلے اور حالات دِگرگوں نظر آئیں تو ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ تبدیلی لائی جائے،تبدیلی آنی چاہئے ہماری پالیسیوں میں،ہماری حکمت عملی میں اور ہمارے رویوں میں،ہر سطح پر، ہر جگہ صرف سیاستدان ہی نہیں،اسٹیبلشمنٹ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے اب مکھی پر مکھی نہیں ماری جا سکتی۔ زمانہ بدل گیا ہے، حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ضد پر اڑے رہنے سے مسائل کسی ضدی مرض کی طرح خطرناک شکل اختیار کر لیتے ہیں اس سے نکلنے کی تدبیر ڈھونڈنی چاہئے۔ یہ بھی کڑی اور بڑی حقیقت ہے کہ ہر مسئلے کا حل طاقت کے ذریعے ممکن نہیں اِس سے حالات اُس مستقل اور حقیقی تبدیلی سے ہمکنار نہیں ہوتے جو قوموں کو بحرانوں سے نکالتی ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ پاکستان )
فیس بک کمینٹ