اسلام آباد : قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے تین بچوں اور داماد کے علاوہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بدعنوانی کے معاملات میں احتساب عدالتوں میں چار ریفرینس دائر کر دیے ہیں۔یہ ریفرینس جمعہ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں دائر کیے گئے۔نواز شریف، ان کے بچوں اور اسحاق ڈار کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کے احکامات پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما دستاویزات کے مقدمے میں اپنے فیصلے میں دیے تھے۔
اسی فیصلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد انھیں وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونا پڑا تھا۔ نواز شریف اور اُن کے دو بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس آف شور کمپنیوں اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بیرون ملک قائم کی گئی العزیزیہ سٹیل مل کے متعلق ہیں جبکہ لندن کے علاقے پارک لین میں مے فیئر اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں سابق وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر بھی ملزمان میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے پر ریفرینس دائر کیا گیا ہے۔ان ریفرنسوں کی منظوری جمعرات کو قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی سربراہی میں ہونے والے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اجلاس میں دی گئی تھی۔نیب کے حکام نے ان ریفرنسز کی تیاری کے سلسلے میں میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا موقف معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا تھا تاہم ان میں سے کوئی بھی نیب کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ان کے وکلا کا موقف ہے کہ جب سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ کہہ دیا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کیے جائیں تو پھر نیب حکام کے سامنے پیش ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اپنے 28 جولائی کے فیصلے میں نیب کے حکام کو میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف چھ ہفتوں میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ معیاد آٹھ ستمبر کو ختم ہو رہی تھی۔نیب کے حکام نے ان ریفرنسز کے بارے میں نگراں مقرر کیے گئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کو آگاہ کر دیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں احتساب عدالتوں کو بھی ریفرنس دائر ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر ان ریفرنسز پر فیصلہ دینے کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے ہیں۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اُن کے بچوں کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں نظرثانی کی اپیلیں دائر کر رکھی ہیں جنہیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔نظرِ ثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے محض مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر ہی انحصار کیا اور اس رپورٹ کے ساتھ ناقابل تردید شواہد بھی نہیں لگائے گئے اور محض ‘ذرائع’ پر ہی انحصار کیا گیا۔نظرثانی کی ان درخواستوں میں سپریم کورٹ سے اپنا فیصلہ واپس لینے اور نگراں جج کو ہٹانے کے بارے میں استدعا کی گئی ہے۔
فیس بک کمینٹ